تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     12-05-2019

تیل کی تجارت کے عظیم حصہ دار

گزشتہ دنوں نئی دہلی میں ریاض کی نئی حکمت عملی سامنے آئی۔ سب سے بڑی سعودی ریفائنری کمپنی (آرامکو) نے بھارت کے سب سے بڑے ریفائنری کے25 فی صد حصے کو خریدنے کے لیے بولی لگائی ۔ ایک عشرے سے‘ بھارت اور سعودی عرب دونوں ممالک تجارتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک صفحہ پر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے افغانستان اور کشمیر میں پاکستان کے لئے تاریخی تعاون بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ جو کئی عشروں سے ان ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال پیدا کیے ہوئے ہے۔ ان ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کو بڑھانے کے لیے جدت سے شراکت داری قائم کی جا رہی ہے ۔ پاکستان ‘بھارت ‘چین کے ساتھ سعودی تعاون اور تجارتی سرمایہ کاری جلد ہی دنیا کی تیسری بڑی معیشت کو بھی جنم دے سکتی ہے ۔
ریاض اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ تجارت فی الحال 28 بلین ڈالر تک محدود ہے۔ سعودی عرب سے تقریباً 8لاکھ بیرل خام تیل بھارت درآمد کرتا ہے۔ یہ تعداد کافی حد تک بڑھ سکتی ہے‘ کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اورامریکی انتظامیہ نے ایرانی تیل کے درآمد کنندگان پر دباؤ ڈالا ہوا ہے کہ وہ ایرانی تیل کی تجارت سے دُور رہیں۔ بھارت ‘ایران کا دوسرا سب سے بڑا گاہک ہے۔ سعودی عرب کے لیے نادر موقع ہے کہ ایران امریکہ جنگ کے محازپر‘ وہ مارکیٹ میں اپنے ملک کے تیل کی جگہ بنانے میں با آسانی کامیاب ہو سکتا ہے۔ مستقبل کی سوچ لیے‘ سعودی آرامکو (ریفائنری کمپنی ) بھارت کی انڈسٹری اصلاحات اور پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری پر غور کر رہی ہے۔مستقبل قریب میںبھارت کی توانائی کی ضروریات بڑھنے کا امکان ہے۔موجودہ تجارتی منصوبوں سے صنعتی اورتوانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جائے گی۔بھارت میں سعودی آرامکو کی نقل و حرکت ظاہر کرتی ہے کہ یہ سعودی عرب کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے روایتی کردار سے زیادہ محدود نہیں ہو گی۔
آرامکو صرف ان ممالک تک محدود نہیں‘بلکہ تیل کی انڈسٹری میں ایک رہنما بننے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کو تیارہے۔ اس سے قبل امریکہ میں پورٹ آرٹور‘ ٹیکساس میںسب سے بڑی ریفائنری کو کنٹرول کیا جا رہا ہے ۔ فروری میں‘ آرامکو نے شمال مشرقی چین میں پیٹرک کیمیکل ‘ ریفائننگ کمپلیکس اورچین کی دفاعی تنظیم کے ساتھ 10 بلین ڈالر کے مشترکہ منصوبہ پر دستخط کیے۔ بھارتی توانائی کے شعبے میں اس کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری‘ ایشیائی پورٹ فولیو میں اچھی طرح سے فٹ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
نئی دہلی کے نقطہ نظر سے‘ سعودی آرامکو انرجی پارٹنر کی حیثیت ‘ ریاض کے ساتھ بڑی پہیلی کے طور پر دیکھ رہا ہے‘جسے فی الوقت بوجھا نہیں جا سکتا۔ بھارتی شہریوں نے سعودی عرب سمیت دیگر گلف ریاستوں کوسب سے بڑی غیر ملکی کمیونٹی بنا یاہوا ہے‘جن میں کارکنوں کی بڑی تعدادشامل ہے‘ جو تعمیراتی صنعت کے ساتھ وابستہ ہیں۔سال میں تقریباً 11 ارب ڈالر واپس گھر بھیجتے ہیں۔ان میں بنگلہ دیش اور پاکستان کی کے کارکنوں کے تعداد ابھی شامل نہیں۔ 2014 ء میں‘ تعلقات میںپختگی کے طور پر‘ نئی دہلی اور ریاض نے 2 ملین سے زیادہ بھارتی کارکنوںکو بھرتی کیااور ایک معاہدے پر دستخط کیے۔کئی عشروں سے ‘ سعودی عرب نے برصغیر پر اپنے جغرافیائی جدوجہد میں پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا اورپاکستان کا بڑا دوست ملک بھی ہے‘ اسے ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت میں دیکھا گیا ۔بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات بظاہرٹرانزیکشن ہی لگ رہے ہیں۔وہ کسی بھی مشترکہ اقدار میں بھارت کے ساتھ نہیں جڑے گا۔ ریاض طویل عرصے سے کشمیر کے ایشو پر پاکستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا۔ اس نے حال ہی میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ میں 10 بلین ڈالر سے ریفائنری تعمیر کرنے کا وعدہ بھی کیا ۔ یہ واضح ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کے ساتھ اپنے پرانے دوستوں کوکبھی نہیں چھوڑے گا‘بلکہ تعلقات کو متوازن رکھے گا۔
ہندوستانی معیشت پاکستان کے مقابلے میں سات گنا زیادہ بڑی ہے اور اس موقع پر یہ بہت زیادہ منافع بخش ہے۔ ریاض واضح طور پر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کو مضبوط اقتصادی تعلقات میں کوئی تضاد نہیں۔ہر ملک کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں اور انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں بھی ترتیب دیتا ہے ۔ بھارت میں ‘ 200 ملین متوقع مسلم آبادی ‘ سعودی عرب کے ساتھ دوستی کو کچھ مشروعیت میں لاتی ہے۔ صرف یہی نہیں‘ بھارت جغرافیائی طور پر ایران کے قریب ہے‘ وہ جنوب مشرقی ایران میں چاہ بہار بندرگاہ پرقدم جمائے ہوئے ہے‘ تاہم واشنگٹن کے دباؤ کی وجہ سے نئی دہلی کو تہران سے دُور دھکیلا جارہا ہے‘ اسے توانائی اور سرمایہ کاری کے لیے نئی راہیں تلاش کرنا ہوںگی۔
آنے والے برسوں میں‘ سعودی آرامکو ریفائنری کو تیل کے بازاروں میں سخت مقابلے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ‘ جس طرح امریکہ اور روس غلبہ حاصل کرنے کے لیے‘ توانائی کے شعبے میں اپنی عظیم طاقت کا مقابلہ کرتے ہیں۔آئل کمپنی کو اپنے موجودہ گاہکوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور صرف خام تیل سے زیادہ سروسز پیش کرنے کی ضرورت ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved