تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     13-05-2019

اِس نظامِ زر کو برباد ہونا چاہیے

قارئین!آج بھی چینی بھائیوں کی پاک چین دوستی کی آڑ میں ''چمتکاریوں‘‘ کو رفع دفع کرنے کے لیے کوششوں سے لے کر گوادر میں فائیو سٹار ہوٹل پر حملے تک... ہسپتالوں کو مثالی بنانے کے لیے عثمان بزدار کے دعووں سے لے کر پولیو کی تشویشناک صورتحال تک... ملک کے سب سے بڑے مسئلے سے لے کر وزیر اعظم کے سچ تک... سبھی خبریں ایسی ہیں خود کو جن پر قلم آزمائی سے روک نہیں پا رہا؛ چنانچہ آج کا کالم بھی کئی موضوعات کا مجموعہ ہے۔
چینی باشندوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیوں اور کچھ قابلِ اعتراض سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فیصل آباد سے بھی مزید دو چینی باشندے گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ گیارہ چینی باشندے مزید تحقیقات کے لیے عدالتی ریمانڈ پر ہیں۔ چینی باشندوں کی پاکستان میں یہ کارروائیاں پاک چین دوستی سمیت دیگر اہم منصوبوں کے لیے بھی یقیناً نقصان دہ ہیں‘ لیکن آفرین ہے ہمارے اُن ہم وطنوں پر جو ''سہولت کاری‘‘ کے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے سے کبھی باز نہیں آتے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق چین اور پاکستان کی حکومتوں کے متعلقہ حکام قریبی رابطے میں ہیں اور چین نے اس معاملے میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی ہے اور اِن ہی شکایات کے پیشِ نظر ایک چینی ٹیم پاکستان کا دورہ بھی کر چکی ہے۔ 
وزارتِ خارجہ اور چین میں پاکستانی سفارت خانہ پاکستانیوں کی بھرپور مدد اور صورتحال کی نگرانی کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تحقیقات کے مطابق شادی کے بعد چین جانے والی خواتین سے جبری جسم فروشی کرائی گئی ہے اور نہ ہی انسانی اعضا کی فروخت ہوئی ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان اور چین آزمودہ‘ با اعتماد اور سٹریٹیجک تعاون رکھنے والے شراکت دار ہیں۔ دوسری جانب شادی سکینڈل میں گرفتار ہونے والے چینی باشندوں کی تعداد پچیس ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چینی باشندے بے گناہ ہیں تو ان کو منافع خوری میں گرفتار کیا گیا ہے یا ڈبل سواری کی خلاف ورزی پر؟ جبکہ پاکستانی سفارتخانہ اس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ شادی کے نام پر دھوکے سے چین لائی جانے والی بیس پاکستانی لڑکیوں کو وطن واپس بھجوایا جا چکا ہے۔ چینی باشندوں کے خلاف درج مقدمات اور زمینی حقائق سامنے ہونے کے باوجود تعجب ہے کہ وارداتوں کی پردہ پوشی کیوں کی جا رہی ہے؟ خیال رہے کہ سی پیک کا سحر اپنی جگہ لیکن اس سحر میں کھو کر کہیں اپنی مذہبی، اخلاقی اور قومی اقدار سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ 
اب چلتے ہیں ''کاکٹیل‘‘ کے اگلے آئیٹم کی طرف... گوادر میں ہوٹل پر حملہ یقینا خطے کے امن کو تہ و بالا کرنے کے مترادف ہے۔ ابھی حال ہی میں اسی طرز کی کارروائی میں مسافر بس سے معصوم اور بیگناہ شہریوں کو اُتار کر مارا جا چکا ہے۔ ہوٹل پر حملے کی یہ کارروائی تھوڑے ہی عرصے میں دہشت گردوں کی دوسری بڑی کارروائی ہے جو یقینا سی پیک سے متعلق تمام منصوبوں اور خطے میں معاشی استحکام کے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔ دنیا بھر میں کئی ممالک سی پیک منصوبے کی کامیابی اور پاکستان کے معاشی استحکام کے حوالے سے خائف اور اس سے عناد رکھتے ہیں۔ ہمیں ایسی طاقتوں کے مذموم عزائم اور شر سے محفوظ رہنے کے لیے کڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ خصوصاً ہمارے ہاں کثرت سے پائے جانے والے سہولت کار عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ اس سہولت کاری کے بیج کو مار کر ہی سی پیک اور پاکستان کے معاشی استحکام کا پودا پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ 
احتسابی ادارے کے سربراہ نے اہم ترین ریفرنسز کی واپسی کے لیے ہر قسم کا دباؤ مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض ایمانداری، محنت اور جانفشانی سے انجام دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ جبکہ پتہ چلا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف کیسز کی تفصیلات اور جواب بھی تیار کر لیا گیا ہے‘ جو رواں ہفتے میں عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ زرداری صاحب کے خلاف پہلے بھی چار ریفرنسز دائر کئے جا چکے ہیں‘ جبکہ وہ (آصف علی زرداری) پانچ مقدمات میں ضمانت کی سہولت حاصل کر چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے۔ 
وزیر اعظم نے ادویات کی قیمتوں کو عام آدمی کی پہنچ میں رکھنے کی ہدایت کی ہے جبکہ ڈریپ بھی دوا ساز کمپنیوں کے خلاف مسلسل سرگرمِ عمل ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت واقعی ادویات کی پرانی قیمتیں بحال کر کے عوام کی زندگیاں آسان کرنے میں نیک نیت اور مخلص ہے تو ایس آر او 1610 منسوخ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ ڈریپ کے ''کنویں‘‘ میں کمیشن، بد عنوانی اور بد نیتی کا کتا گر گیا ہے تو یہ کنواں چند بوکے نکالنے سے پاک ہونے والا نہیں۔ اس کے لیے کنویں سے وہ کتا نکالنا ہو گا جو کچھ صاحبان نے ڈریپ کے کنویں کو گندا کرنے کے لیے اس میں ڈال دیا ہے۔ 
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ہسپتالوں کو مثالی بنانے کا مشن اپنائے ہوئے ہیں اور صحت کا روایتی نظام بدل رہے ہیں۔ ان کے اکثر بیان دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ وہ زمینی حقائق سے لا علم ہیں اور ''رٹے رٹائے‘‘ بیانات دے کر فیس سیونگ میں مصروف ہیں۔ کبھی کسی ہسپتال جا کر تو دیکھیں کہ ان کے دور میں ''بیماروں پر کیا گزر رہی ہے‘‘ بے کسی، بے رحمی، بد انتظامی اور ذلتِ جاریہ کا ایسا ایسا منظر وزیر اعلیٰ کے انقلابی بیان کا منہ چڑا رہا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ وزیر اعلیٰ کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ صوبائی دارالحکومت میں سالِ رواں کے پہلے چار ماہ میں پولیو کے تین کیسز منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر ملک بھر میں ان کیسز کی تعداد پندرہ ہو چکی ہے‘ جو ہیلتھ سروسز کی فراہمی میں حکومتی سنجیدگی اور نیک نیتی پر سوالیہ نشان ہے۔ تعجب ہے کہ قومی ادارہ صحت کو بھجوائے جانے والے ماحولیاتی نمونوں کی رپورٹوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی نشاندہی کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی‘ حفاظتی اقدامات اور پیش بندی تو دور کی بات‘ جبکہ بارشوں کی وجہ سے ڈینگی کا خطرہ بھی حکومت کے لیے نیا چیلنج بن سکتا ہے اور اگر ڈینگی کا مچھر بپھر گیا تو حکومت صفر تیاری کے ساتھ کس طرح مقابلہ کر پائے گی کیونکہ وزیر اعلیٰ یقینا اس تلخ حقیقت سے بھی بے خبر ہوں گے کہ روز اوّل سے کابینہ کمیٹی برائے ڈینگی کو عضو معطل بنائے رکھنا بھی موجود حکومت کا ہی کارنامہ ہے۔ 
اب چلتے ہیں کاکٹیل کے آخری آئیٹم کی طرف... چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ ہے۔ یاد رہے انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 4 مارچ کو جھوٹی گواہی کے خاتمے کا دِن قرار دے کر کہا تھا کہ آج کا دن یاد رکھیں... آج سے سچ کا سفر شروع... جھوٹی گواہی پر سزا ملے گی... اب جھوٹ نہیں چلے گا... انصاف چاہیے تو سچ بولنا پڑے گا... ہم نے 72 سال ضائع کر دئیے... کسی کو جھوٹ کا لائسنس کیوں دیں؟ جھوٹ چلتا رہے گا تو انصاف نہیں ہو گا‘ اب ہم نے یہ سب ٹھیک کرنا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نے بھی قوم کو تلخ حقیقت پر مبنی ایک بات بالکل سچ بتا دی ہے کہ اس قوم کو مہنگائی برداشت کرنا ہو گی۔ انہوں نے عوام کو اُمید دلائی ہے کرپشن اور غربت سے نجات کا خواب ضرور پورا ہو گا لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف کے اقتصادی چیمپئنز وعدوں، دعوؤں دلاسوں اور جھانسوں کے بجائے اسی سچ گوئی کا مظاہرہ کرتے تو یقینا عوام اُن کے ساتھ تعاون اور اعتماد کا سفر جاری رکھتے۔ دیر آید...درست آید۔ الغرض ان تمام برائیوں، بربادیوں اور بدحالیوں کی وجہ کبھی کوئی طرزِ حکومت قرار دی جاتی ہے تو کبھی نظام بدلنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ نظام کوئی بھی ہو‘ طرزِ حکومت کیسا بھی ہو‘ جب تک نظام زر کی موت نہیں ہو گی کوئی نظام‘ کوئی گورننس اور طرزِ حکومت نہیں چل سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved