صحابہؓ وصحابیات سب کے سب آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں۔ یہ خوش بخت بندگانِ خدا براہِ راست نبیٔ مہربانﷺ سے فیض یافتہ تھے۔ ان کے رتبے کو بعد میں آنے والا کوئی بھی نہیں پاسکتا۔ صحابہ کرامؓ اور روایت حدیث کا تذکرہ آئے تو سرفہرست نام سیدنا ابوہریرہؓ کا آتا ہے۔ ان کی والدہ ام ابی ہریرہؓ بھی صحابیہ ہیں‘ مگر وہ کیسے نورِ ہدایت سے آشنا ہوئیں؟ ایک دل چسپ سوال اور ایمان پرور داستان ہے۔ یہ لوگ قبیلہ دوس سے تعلق رکھتے تھے۔ قبیلہ دوس عرب کے معروف قبائل میں سے تھا۔ اس قبیلے سے اسلام کو کافی افرادی قوت حاصل ہوئی۔ اسی قبیلے سے دو عظیم شخصیات حلقہ بگوشِ اسلا م ہوئیں ‘جنہیں تاریخ میں بڑی شہرت ملی۔ ایک ابتدائی دنوں ہی میں اس نعمت سے مالا مال ہو گئے اور ایک قدرے تاخیر سے منزلِ مقصود پر پہنچے‘ مگر انہوں نے تاخیر کی خوب تلافی کی کہ تاریخ بھی اش اش کر اٹھی۔ ابتدائی دنوں میں مسلمان ہونے والے خوش بخت مسلمان حضرت طفیلؓبن عمرو دوسی اپنے قبیلے کے معزز سرداروں میں سے تھے۔ اس کے ساتھ وہ بہت بڑے شاعر بھی تھے۔انہیں اپنی قوم کے درمیان ذہین و حکیم ہونے کی وجہ سے بڑی عزت حاصل تھی۔
طفیل دوسی مکے میں عمرہ کرنے کیلیے آئے تو اس دوران آنحضورﷺ کی دعوت خوب پھیل چکی تھی۔ قریش نے آپ کی مخالفت بھی شروع کر دی تھی۔ قریش نے جناب طفیل کو آنحضورﷺسے بہت زیادہ ڈرایا‘تاکہ وہ آپﷺ سے متنفر ہو جائیں‘ لیکن اللہ نے ان کی قسمت میں دولتِ ایمان لکھی تھی اور وہ مسلمان ہو گئے۔ حضرت طفیلؓ صحیح معنوں میں ایک مبلغ اسلام تھے۔ اپنے قبیلے میں واپس جا کر انہوں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا‘ لیکن ‘جس طرح آنحضورﷺکی عزت و احترام کے باوجود کلمہ توحید کا اعلان سن کر آپ کی ساری قوم آپﷺ کی دشمن بن گئی تھی‘ اسی طرح طفیل بن عمرؓو دوسی کا قبیلہ بھی ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا۔ وہ بھی بڑے پر عزم انسان تھے‘ اس لیے اپنا کام جاری رکھا۔ اللہ کے نبیؐ نے ان کے حق میں خصوصی دعا ئیں بھی کیں اور ان کی دعوت جڑیں پکڑنے لگی۔ آنحضورﷺ کی دعا سے حضرت طفیلؓ کو ایک خاص روشنی بھی عطا کی گئی تھی‘ جسے آنحضور ﷺ کے معجزات میں شمار کیا جاتاہے۔ ان کی کاوش سے کئی لوگ مسلمان ہو گئے۔ مسلمان ہونے والے ان لوگوں میں سب سے زیادہ عظمت اور ناموری‘ جس شخصیت کو حاصل ہوئی‘ تاریخ انہیں ابو ہریرہؓ کے نام سے جانتی ہے۔ ان کا پرانا اور جاہلی نام عبدشمس اور اسلامی نام عبدالرحمنؓتھا۔ابو ہریرہؓان کی کنیت ہے‘ جس کا مفہوم ہے بلیوں والا۔ [مسجد نبوی کی بلیاں ان سے مانوس تھیں اور ان کے گرد جمع ہوجاتی تھیں]
ابو ہریرہؓایک غریب اور یتیم بچے کی حیثیت سے قبیلے والوں کی نظروں میں کوئی وقعت نہ رکھتے تھے‘ لیکن قبولِ اسلام کے بعد اللہ اور اس کے رسولؐ کی نظروں میں تارا بن کر چمکے اور امت کے ہیرو کہلائے۔ جب جوان ہو ئے تو آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے رختِ سفر باندھا۔ آنحضورﷺ نے خیبر کے قلعے فتح کیے تو وہیں ابو ہریرہؓ‘ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضورﷺ ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ مدینہ میں ایک چھوٹے سے کچے جھونپڑے میں رہائش اختیار کی۔ ان کے بیوی بچے تو تھے نہیں‘ ایک والدہ تھیں اور سوئے اتفاق سے وہ ابھی تک شرک و کفر میں مبتلا تھیں۔ بیٹے کی محبت انہیں یہاں لے آئی تھی۔ بیٹا بھی ماں کا بہت فرمانبردار تھا۔ مدینہ آمد کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ اپنی ماں کی خدمت میں تھوڑی دیر کیلئے حاضر ہوا کرتے تھے اور ان کی ضروریات فراہم کر کے فوراً مسجد نبوی میں صفہ پر چلے جاتے۔
حضرت ابو ہریرہؓکا اپنا بیان ہے کہ لوگوں کی دلچسپیاں علمِ دین اور جہادِ اسلامی کے علاوہ دنیوی معاملات و کاروبار سے بھی وابستہ تھیں‘ جبکہ میری ساری توجہ علمِ دین اور خدمت ِرسولؐ کیلئے وقف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت مختصر وقت میں انہوں نے ہزاروں احادیث حفظ کیں اور آگے انہیں لوگوں تک پہنچایا۔ تمام صحابہؓمیں سب سے زیادہ احادیثِ نبویؐ امت تک منتقل کرنے کا شرف اسی شخصیت کو حاصل ہے۔ صفہ کی پاکیزہ یونیورسٹی کا یہ طالب علم صفہ کا افتخار تھا۔ ان کی مرویات کی تعداد پانچ ہزار تین صد چوہتر ہے۔ آنحضورﷺ کو ابو ہریرہؓسے جو محبت تھی‘ اس کا تذکرہ حدیث کی کتابوں میں جگہ جگہ ملتاہے۔حضرت ابو ہریرہؓایک دن آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بڑے افسردہ اور غم زدہ تھے۔ آنحضوﷺنے پوچھا کہ ابو ہریرہؓکیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا ''یار سول اللہ ! کیا بتائوں میں نے اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‘ مگر وہ ہیں کہ کفر و شرک پر نا صرف ڈٹی ہوئی ہیں ‘بلکہ بدقسمتی سے آپؐ کی شان میں سخت الفاظ بھی استعمال کر جاتی ہیں۔ میں سخت پریشان ہوں۔ آپؐ میری والدہ کے لیے ہدایت کی دعا فرمائیے۔‘‘ آنحضورﷺ ہمیشہ اپنے صحابہؓکو دعائوں سے نوازا کرتے تھے اور آپؐ کی دعائیں در استجاب پر فوراً پہنچتی تھیں۔ آپؐ نے اس موقع پر اللہ سے دعا کی ''پروردگار‘ اُمِّ ابی ہریرہؓکو ہدایت کی دولت عطا فرما۔‘‘ ابو ہریرہؓکو یقین تھاکہ آنحضورﷺ کی دعا قبول ہو گئی ہے‘ وہ اسی یقین کے ساتھ اس روز صفہ سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چلے۔ دروازے پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ اندر سے کواڑ بند ہے۔ اندر سے پانی گرنے کی آواز بھی آرہی تھی۔ اس وقت حضرت ابو ہریرہؓکی والدہ غسل کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر میں غسل سے فارغ ہوئیں اور دروازہ کھولا۔ قبل اس کے کہ ابو ہریرہؓکچھ عرض کرتے ان کی والدہ گویا ہوئیں ''اے لخت جگر میںتمہیں گواہ بنا رہی ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول ؐپر صدق دل سے ایمان لے آئی ہوں۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کیلئے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی تھی۔ وہ اپنی والدہ سے لپٹ گئے‘ پھر فوراً آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ کو اطلاع دی کہ آپؐ کی دعا قبول ہو گئی اور ان کی والدہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئی ہیں۔ آنحضورﷺ بھی یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد اس کاشکر ادا کیا۔ حضرت ابوہریرہؓکی والدہ حضرت اُمَیمہؓ قبول اسلام کے بعد آنحضورﷺ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ ابوہریرہؓ پہلے بھی ماں کے بہت خدمت گزار تھے‘ لیکن اب ان کا انداز اور بھی مثالی بن گیا۔ دونوں ماں بیٹا ایک دوسرے کو دعائیں دیا کرتے تھے۔ ابو ہریرہؓفرماتے کہ میری والدہ کے مجھ پر بڑے احسانات ہیں کہ جس نے غربت میں میرے یتیم ہو جانے کے بعد میری پرورش کی اور میری خاطردوسرا نکاح نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو والدین کا سچا خادم بنائے۔( آمین)