تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-05-2019

’’پیار‘‘ زیادہ ہے‘ زندگی کم ہے

جمعہ کی شام تک قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے بات چیت مکمل اور کامیاب ہوگئی ہے۔ اور یہ کہ اب کسی بھی وقت معاہدے کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ ٹی وی چینلز کے ٹِکرز میں بتایا گیا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرلی ہیں۔ ''تمام‘‘ کے لفظ پر غور کیجیے اور پھر اس بات پر بھی کہ تین چار گھنٹے تک لوگ انتظار ہی کرتے رہے کہ اسلام آباد میں آئی ایم ایف کی ٹیم اپنے ہیڈ کوارٹرز سے رابطے کے بعد کسی باضابطہ معاہدے کا اعلان کرے۔ انتظار لاحاصل رہا۔ رات گئے اطلاع آئی کہ آئی ایم ایف کو منانے میں مزید دو تین دن لگیں گے۔ جب تمام شرائط تسلیم کرلی گئی تھیں تو مزید دو تین دن تک بات چیت کس کھاتے میں ہوئی؟ قومی معیشت شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور اس کا قبلہ درست کرنے کیلئے آئی ایم ایف کا پیکیج ناگزیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ 
ہر حکومت کا یہی معاملہ رہا ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی پہلی فکر یہ لاحق ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف سے پیکیج لیا جائے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ معاملات کو صرف قرضوں کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی قومی معیشت کی خرابیاں دور کرنے میں اپنا حصہ کماحقہ ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ کئی مواقع پر غیر مقیم پاکستانیوں نے وطن کے حالات درست کرنے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی جڑیں ہمارے سیاسی و معاشی نظام میں بہت گہری ہیں۔ اگر اُس کی زیادہ ضرورت نہ ہو تب بھی اُس کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک زمانے سے قوم یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ قرضوں ہی سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اُن خرابیوں کو دور کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ گویا زہر پینے کے بعد جان بچانے کے لیے مزید زہر پیا جاتا رہا ہے! کہتے ہیں قوم حکمرانوں کی روش پر چلتی ہے۔ معاشرے یا ریاست کے سیاہ و سفید کا معاملہ جن کے ہاتھوں میں ہوں اُن جیسا بننے کی کوشش میں لوگ اپنی اصلیت بھی بھول جاتے ہیں۔ یہ بات افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں۔ جنہیں حکومت ملتی ہے‘ وہ قرضوں پر قرضے لیے جاتے ہیں۔ یہ روش اب پوری قوم نے اپنالی ہے۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا عوام کا بھی وتیرہ بن چکا ہے۔ اگر وسائل پورے نہ پڑ رہے ہوں تو قرض لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ ؎ 
قرض پیتے تھے مَے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں 
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن! 
ہمارے ہاں کئی حکومتیں آئی ایم ایف کے چُنگل میں پھنس کر اپنے وجود ہی کو داؤ پر لگاچکی ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے دیئے جانے والے پیکیجز واضح طور پر عوام دشمن ثابت ہوتے رہے ہیں۔ پیکیج دیتے وقت آئی ایم ایف کا سارا زور اس نکتے پر ہوتا ہے کہ بنیادی سہولتوں کے نرخ بڑھائے جائیں۔ یوٹیلٹیز کے کھاتے میں عوام پر اس قدر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ ڈھنگ سے عمومی طرز کی زندگی بسر کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ اب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ اُسے منانے کی بھرپور کوشش بہت حد تک رنگ لے آئی ہے۔ ڈیل پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ اب واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹرز سے منظوری باقی ہے۔ ایک طرف خود انحصاری کے دعوے کیے جارہے ہیں اور دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک عظیم ملک بننے والا ہے۔ یہ بات اُنہوں نے کیا دیکھ کر کہی ہے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پے در پے قرضے لینے والا ملک عظمت کا حامل کیسے ہوسکتا ہے؟ وزیر اعظم اگر تصریح فرمائیں تو عنایت ہوگی۔ کسی پس ماندہ یا ترقی پذیر ملک کے لیے لازم ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ آئی ایم ایف کے در پر جاکر بھیک مانگنا انتہائی حالت میں تو درست ہوسکتا ہے‘ عمومی حالت میں کبھی نہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی بحرانی کیفیت ابھرتی ہے‘ ذہنوں میں آئی ایم ایف کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ گویا آئی ایم ایف سے ہٹ کر کوئی جائے پناہ نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے قدم قدم پر ثابت کیا ہے کہ ؎ 
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے 
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان نے تمام شرائط تسلیم کرلیں مگر آئی ایم کی ٹیم ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتی رہی۔ یہ کم بخت ڈو مور جان نہیں چھوڑ رہا۔ اس ایک مطالبے نے ڈیڑھ عشرے سے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کچھ بھی کر گزریے‘ مزید بہت کچھ کرنے کا مطالبہ ہی سامنے دھرا رہتا تھا۔ امریکا نے سمجھایا نہ ہم آج تک سمجھ پائے کہ یہ ڈو مور ہے کیا۔ اِس کی حدود کا تعین 
کس طور کیا جائے؟ اب آئی ایم ایف نے بھی ڈو مور کا ٹنٹا کھڑا کردیا ہے۔ ٹیکس وصولی کا ہدف ایک ہزار ارب روپے تک بڑھانے کا مطالبہ سامنے آچکا ہے۔ اس ہدف کا حصول یقینی بنانے کیلئے لازم ہے کہ لوگوں کی جیب مزید خالی کرائی جائے۔ بالواسطہ ٹیکس دیتے دیتے لوگ پہلے ہی تنگ آچکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات بھی خاصی مہنگی کی جاچکی ہیں۔ ایسے میں تان پھر یوٹیلٹیز پر آکر ٹوٹی ہے۔ بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی ''نوید‘‘ سنائی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف کے آگے اتنی تیزی اور بے تابی کے ساتھ سر تسلیم خم کرنا حکومت کے خلاف جارہا ہے۔ اپوزیشن کے لیے تنقید کا اِس سے اچھا موقع اور کون سا ہوسکتا ہے؟ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ حکومت نے قومی وقار بیچ دیا۔ معترضین کہتے ہیں کہ معیشت سے متعلق اہم فیصلوں پر حکومت کا اختیار اب عملاً اِتنا کم ہو جائے گا کہ کسی بہتری کے بارے میں خوش گمان رہنے کی گنجائش نہیں۔ 
عمران خان اگر کچھ نہیں سمجھ پائے تو حیرت ہے۔ اور اگر سمجھنے کے بعد بھی مجبوری کی حالت میں بہت کچھ جھیلنا پڑ رہا ہے تو اِس پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے پورے ٹیسٹ کیریئر میں کوئی نو بال نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام نو بالز اُنہوں نے سیاسی پچ کے لیے بچاکر رکھی تھیں! عمران خان کی حکومت نے ابتدائی اوورز ہی میں اچھے خاصے ایکسٹرا رنز دے دیئے ہیں۔ اب باؤلنگ کا معیار بلند کرکے ایک طرف تو ایکسٹرا رنز دینے سے گریز کرنا ہے اور دوسری طرف فیلڈنگ کا معیار بھی بلند کرنا ہے۔ یہ سب کیسے ہوسکے گا یہی عمران خان کی اصل آزمائش ہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے خود کو بے بس تسلیم کرکے اُنہوں نے جو سیاسی غلطی کی ہے اُس کے ازالے لیے کے لیے اُنہیں اب ایک ایک قدم پُھونک پُھونک کر رکھنا ہوگا۔ کچھ ڈلیور کرنے کے لیے اُن کے پاس زیادہ وقت نہیں رہا۔ 
اور آئی ایم ایف کے لیے صرف اتنا کہ ؎ 
مل گئے تم تو اِک یہی غم ہے 
''پیار‘‘ زیادہ ہے‘ زندگی کم ہے!

٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved