سپریم کورٹ میں جمعہ کے روز نیشنل پولیس فاونڈیشن کے چھ ارب روپے فراڈ کے مقدمے کی سماعت سے پتہ چلتا ہے کہ سابق ایم این اے انجم عقیل خان کتنے خوش نصیب واقع ہوئے ہیں ! جس محکمے اور افسران نے انجم عقیل خان کو سزا دلوانی تھی وہ الٹا چیف جسٹس کے سامنے اس کے وکیل بن کر پیش ہوئے۔ قسمت مہربان تو گدھا پہلوان ! چیف جسٹس افتخار چودھری نے یہ کارروائی دنیا ٹی وی پر میرے پروگرام میں وہ سرکاری دستاویزات دکھانے کے بعد شروع کی ہے جن میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کیسے سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چار ارب روپے کو چار کروڑ روپے میں بدل کر انجم عقیل کو کلین چٹ دے دی گئی۔ چیف جسٹس کو عدالت میں بتایا گیا کہ انجم عقیل خان کے ساتھ سب معاملات طے ہو چکے ہیں اور سب مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں ۔ چیف جسٹس حیران کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کیس عدالت میں ہے اور وزارت داخلہ اور نیشنل پولیس فائونڈیشن کے افسران نے اربوں کے فراڈ کے ملزم کو کلین چٹ دے کر سب مقدمات سے بری کر دیا ہے! اب چیف جسٹس نے وہ دستاویزات منگوا لی ہیں۔ سوموار کو دوبارہ کارروائی شروع ہوگی۔ اگر آپ اس سکینڈل کو پڑھنا شروع کریں تو پتہ چلے گا کہ پاکستان میں خوش قسمت لوگ کیسے ہوتے ہیں ۔ایک کھرب پتی پراپرٹی ٹائیکون نے ایک ٹی وی انٹرویو میں درست کہا تھا کہ پاکستان میں پیسے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا اور پیسے ملتے ہی فائلوں کو پہیے لگ جاتے ہیں ۔ جیب بھر کر رکھیں اور دیکھیں کہ لوگوں کے ضمیر کیسے آپ کے سامنے بھکاری بن کر کھڑے ہوتے ہیں! سکول کے بچوں کو مرغے بناتے بناتے، انجم عقیل خان نے پراپرٹی ڈیلر بننے کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلا مرغا نیشنل پولیس فاونڈیشن کو بنایا ۔ انجم عقیل کو پتہ چل گیا تھا کہ پولیس کو کرپٹ کرنا آسان ہے۔ نیشنل پولیس فاونڈیشن نے اربوں روپے کے کنٹریکٹ انجم عقیل خان کی فرم لینڈ لنکر سے کیے جو کہیں رجسٹرڈ تک نہ تھی۔ تین سو کنال زمین لینے کا معاہدہ ہوا۔ کروڑوں روپے نقد لے لیے اور زمین ایک کنال نہیں دی۔ اس کے بدلے میں نیشنل پولیس فاونڈیشن میں اپنے سینکڑوں لوگوں کو پلاٹ الاٹ کر کے خود پیسے لے لیے۔ ڈھائی سو کنال کے بدلے اکہتر کنال ٹرانسفر کرائی اور دو سو کنال پر مال کمایا اور اپنی زمینوں کو کمرشل کرالیا ۔ ایم ڈی نیشنل پولیس فاونڈیشن افتخار احمد خان کھل کر یہ ڈیل کرتے رہے کیونکہ چونچ گیلی ہورہی تھی۔ انجم عقیل خان نے ایک زمین تین تین دفعہ نیشنل پولیس فاونڈیشن کو بیچی۔ پورے کا پورا نیشنل فاونڈیشن خرید لیا گیا۔ سرکاری فائلیں دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کس طرح نیشنل پولیس فاونڈیشن کو لوٹا جارہا تھا۔ اس کی مثال شاید اور کہیں نہیں ملے گی۔ گھرکے چوکیدار ہی لٹیروں سے مل گئے تھے۔فارمولہ کامیاب رہا۔ اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے۔ انجم عقیل خان نے انسانی کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ کھل کر کھایا بھی اور کھلایا بھی۔ انہی اربوں روپوں سے نواز لیگ کے کچھ بڑوں کی خدمت کی اور کامیاب سیاستدان بن بیٹھے اورپھر چل سو چل۔ جب یہ سکینڈل سامنے آیا تو ظفر قریشی کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا۔ انجم عقیل خان گرفتار ہوئے۔ اسٹام پیپر پر لکھ کر دیا کہ وہ چھ ارب روپے واپس کریں گے۔ ایف آئی اے کے کیسز خود بھگتیں گے ۔ ظفر قریشی نے بھی جاتے جاتے پچاس فیصد رعایت انجم عقیل خان کو چھیالیس فیصد کی بجائے بایئس فیصد waste کی شکل میں دی تاکہ کسی طرح پیسے واپس ہوجائیں ۔ یوں انجم عقیل خان پھر خوش قسمت نکلے اور رقبہ دو سو کنال کی بجائے 126 کنال بنا دیا گیا۔ اس ڈیل کے تحت انجم عقیل سے دو ارب روپے کا کرسٹل کورٹ لے گیا۔ اس اثناء میں تین آئی جی طارق کھوکھر، حسین اصغر وغیرہ نے مل کر ایک اور انکوائری کی اور ایک دفعہ پھر دو سو کنال انجم عقیل کے ذمے نکلے اور سفارش کی گئی کہ سخت کارروائی کی جائے۔ دو سال تک سب خاموش رہے لیکن خوش قسمت انجم عقیل خان اور ان کے ہمدرد چپ کرکے نہیں بیٹھے تھے۔ دو سال قبل ریٹائرڈ ہونے والے ایک افسر طارق حنیف جوئیہ کو رحمن ملک نیشنل پولیس فاونڈیشن میں کنٹریکٹ پر لے آئے اور ٹاسک دی گئی کہ انجم عقیل خان کو کلین چٹ دے کر اربوں روپے واپس کرنے ہیں۔ سرکاری ملازم پیدا ہی حکم کی تابعداری کے لیے ہوئے ہیں۔ ایک خفیہ پلان بنایا گیا اور حکومت ختم ہونے سے دس دن قبل چار مارچ کو رحمن ملک کی وزارت داخلہ کے صدیق اکبر، آئی جی اسلام آباد بن یامین اور نیشنل پولیس فاونڈیشن کے زاہد محمود نے ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل انجم عقیل کے ساتھ کیے گئے ماضی میں ظفر قریشی کے تمام معاہدے کینسل کر دیے۔ یوں چار مارچ کو اس نئی ڈیل کے تحت ظفر قریشی کے ساتھ ہونے والی ڈیل ختم ہو گئی اور نئی ڈیل کے تحت پہلے واپس لیے گئے دو ارب روپے کے کرسٹل کورٹ کو اب انجم عقیل خان کو واپس کرنا ہوگا ۔ ایف آئی اے کے مقدمات واپس ہوئے اور کل دو سو کنال کو پہلے ایک سو چھبیس کنال اور اب پچاس کنال بنا دیا گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اگر پچاس کنال زمین نہیں ہے تو فی کنال آٹھ لاکھ روپے یعنی کل چار کروڑ روپے جمع کرا دو۔ اسلام آباد کے آئی الیون سیکٹر میں ایک کنال کے آٹھ لاکھ روپے؟ غور فرمائیں۔ اس کے ساتھ ہی انجم عقیل خان کو وہ بایئس پلاٹ واپس کر دیے گئے جو ایم ڈی جاوید اقبال نے انجم عقیل کے فراڈ پرکینسل کیے تھے۔ یوں پچاس کروڑ روپے کا یہ نقد فائدہ خوش قسمت انجم عقیل کو ملا۔ اب عدالت کو بتایا گیا ہے کہ سب کچھ طے ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے جب ٹکٹوں کا معاملہ آیا تو سینٹر ظفر علی شاہ اور انور بیگ‘ جو اسلام آباد سے پارلیمانی بورڈ کے ممبر تھے، نے اس سکینڈل کو بیناد بنا کر نواز شریف اور دیگر کو لاہور میں سفارش کی کہ اسے ٹکٹ نہ دیا جائے۔ نواز شریف اور دیگر مسکرائے اور ٹکٹ دے دیا۔ اگر وہ اس فارمولے پر چلتے تو پھرجنرل مشرف کی وزیر زبیدہ جلال کو بھی ٹکٹ نہ دینا پڑتا جو توانا پاکستان کے دو ارب روپے کے سکینڈل میں ملوث ہیں اور اب نواز لیگ میں شامل ہوئی ہیں۔شریف خاندان خود تین ارب روپے کا بنکوں کا مقروض ہے۔ وہ بھلا کس کس کو ٹکٹ نہ دیتے۔ ویسے نواز شریف اگر مناسب سمجھیں تو انجم عقیل خان اکیلا ان نو بنکوں سے نبٹ سکتا ہے جو ان کے خلاف پندرہ سال سے لاہور ہائی کورٹ میں اپنے اربوں لینے کے لیے مقدمات لڑ رہے ہیں۔ اس طرح روز روز کی بدنامی سے جان چھوٹے گی ۔ اس سے پہلے پوری قوم نے دیکھا کہ انجم عقیل خان تھانے پر حملہ کر کے فرار ہوا اور عدالت نے باعزت بری کردیا کیونکہ پوری پولیس کو خرید لیا گیا تھا ۔ایک اور نچلی عدالت میں انجم عقیل خان کے خلاف اس سکینڈل پر کیس دائر ہوا تو محترم جج نے پوچھا آپ چاہتے ہیں کہ اخبار میں چھپنے والی خبر پر ایکشن لیا جائے۔ کیس ختم۔ ذرا تصورکریں کہ ایک عام آدمی جرم کرے تو یہی پولیس کیا حشر کر کے رکھ دیتی ہے اور یہاں چھ ارب روپے فراڈ کے بعد ایف آئی اے چالان تک واپس لے چکی ہے۔ سوچتا ہوں سکول ٹیچر سے پراپرٹی ڈیلر اور اب ارب پتی سیاستدان تک کا راتوں رات سفر طے کرنے والے خوش قسمت انجم عقیل خان پر الیکشن کمشن، پولیس، ایف آئی اے، نیشنل پولیس فاونڈیشن، وزارت داخلہ، پرنسپل سیکرٹری خواجہ صدیق اکبر، آئی جی اسلام آباد بن یامین ، ریٹائرڈ ہونے والے ایم ڈی نیشنل پولیس فاونڈیشن زاہد محمود اور پوری کی پوری نواز لیگ مہربان ہیں، تو میں اس کے خلاف چھ ارب روپے کا سکینڈل لانے کی کیا فضول حرکت کر بیٹھا ہوں !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved