تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-05-2019

گاؤں کے حکیم سے عالمی حکیم تک!

آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالرز قرضہ لینے کے بعد سمجھا جا رہا ہے پاکستان ایک دفعہ پھر اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا۔ اللہ کرے ہو جائے۔ لیکن ماضی میں کئی دفعہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا اور ہر دفعہ یہی بتایا گیا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘ تو سوال یہ ہے پھر ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہا جاتا ہے مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا اور یہاں ہم درجنوں دفعہ ڈسے جا چکے ہیں۔ 
پاکستان کی معیشت کو سنبھالنا مشکل کام ہے کیونکہ ہر طرف ایک ہی اصول ہے کہ جو جتنا مال سمیٹ سکتا ہے وہ سمیٹ لے اور باہر نکل لے۔ یہی دیکھ لیں کہ بیس ہزار سے زائد سرکاری افسران کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہے۔ جب آپ کا بیوروکریٹ ہی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ اس کا اور اس کے بچوں کا مستقبل اس ملک میں محفوظ ہے تو وہ پھر کیوں اس ملک کے لیے کھڑا ہو؟ کوئی پوچھنے کو تیار نہیں کہ پچاس ساٹھ ہزار روپے کے ملازم کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آ جاتے ہیں کہ وہ بیرون ملک تین سال گزار کر وہاں کی شہریت لے کر پورے خاندان کو وہاں شفٹ کرکے خود واپس لوٹ کر مال سمیٹنا شروع کر دیتا ہے؟ ہر ملک کی شہریت لینے کے لیے آپ کو وہاں چند برس گزارنے پڑتے ہیں۔ ان افسران کو وہاں رہنے کے لیے چند سالوں کی چھٹیاں کون اور کیوں عطا کرتا ہے؟ اب بھی بہت سارے افسران چھٹیاں لے کر کینیڈا پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک پولیس افسر نے کینیڈا میں بیس لاکھ ڈالرز کا گھر خریدا ہے اور وہ ایک سال کی چھٹی بھی پنجاب حکومت سے لے کر گیا ہے۔ وہ ڈی آئی جی صاحب واپس لوٹ کر وہیں سے لوٹ مار شروع کریں گے جہاں سے چھوڑ کر گئے تھے۔ محض ایک پولیس افسر نہیں بلکہ تقریباً ہر سرکاری افسر‘ جس نے بیرون ملک شہریت لی‘ اس نے یہی کچھ کیا ہے۔ ہو سکتا ہے چند ایسے افسران ہوں جو ایماندار ہوں اور بیرون ملک شہریت بھی لے رکھی ہو۔ اب جس افسر کو پتا ہے کہ اس نے اس ملک میں نہیں رہنا یا اس کے بچوں کا مستقبل اب پاکستان میں نہیں ہے‘ وہ اس ملک کی معاشی پالیسیاں کیوں ٹھیک کرے یا کیسے ایمانداری سے کام کرے تاکہ یہ ملک اور معاشرہ بہتر ہو؟ اسے اس ملک پر یقین نہیں رہا۔ ان بیرون ملک شہریت لینے والوں سے ملیں تو وہ فخر سے ایسے ظاہر کریں گے جیسے وہی سمجھدار تھے اور باقی جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بیوقوف تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب پالیسیاں انہوں نے ہی چلانا تھیں جو بیرون ملک بچوں سمیت شفٹ ہو چکے ہیں۔ ان سے باتیں کریں تو جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ملک ڈوب رہا ہے۔ اس ملک کے ڈوبنے میں ان کو جو فائدہ ہوا‘ وہ نہیں بتائیں گے۔ ملک کو ڈبونے کے بعد وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے۔ 
اس ملک میں تاجروں نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔ وہ اس ملک سے کما کر باہر شفٹ کر رہے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی پاکستانی امیروں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا‘ اور دوبئی میں لگ بھگ دس ارب ڈالرز کی جائیدادیں خریدی گئیں۔ لندن‘ نیویارک‘ سپین اس کے علاوہ ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ دوبئی میں جائیداد خریدنے کے لیے آپ کو ڈالرز چاہئیں تھے جو آپ نے پاکستانی مارکیٹ سے خریدے۔ سیاستدانوں نے سیدھا چھکا مارا اور ایان علی جیسے کرداروں کو ہائر کرکے ہر ہفتے دنیا بھر میں بریف کیس بھر کر ڈالرز بھیجے جانے لگے۔ یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایکسپورٹرز کی اکثریت‘ جو ہر دفعہ ڈالرز کو اوپر اور روپیہ نیچے لے جاتی ہے‘ وہ ڈالرز واپس لانے کی بجائے انہی ڈالروں سے بیرون ملک جائیدادیں خرید رہی ہے۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب پانامہ پر تحقیقات شروع ہوئیں۔ جن کاروباری حضرات کے نام پانامہ پیپرز میں سامنے آئے تھے‘ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایکسپورٹ کا پیسہ باہر رکھ کر ان سے جائیدادیں خریدی تھیں۔ 
اب بتائیں‘ جب اس ملک کا سیاستدان ایان علی کے ذریعے ڈالروں سے بھرے بریف کیس باہر بھیج رہا ہو، ایکسپورٹرز ڈالرز کو مہنگا کرکے اپنی ایکسپورٹ بڑھا کر انہی ڈالرز سے بیرون ملک جائیدادیں خرید رہے ہوں جبکہ امیر لوگ دوبئی میں اربوں ڈالرز پاکستان سے ہنڈی کے ذریعے بھیج کر جائیدادیں خرید رہے ہوں تو پھر کہاں سے آپ کے فارن ریزور بنیں گے؟ جس ملک کی سالانہ ایکسپورٹس اٹھارہ ارب ڈالرز ہوں اور اس کے شہری دس ارب ڈالرز ملک سے باہر بھیج کر جائیدادیں خرید لیں تو پھر آپ اس ملک میں ایک سو ارب ڈالرز بھی لے آئیں‘ وہ بھی پورے نہیں پڑیں گے۔ 
اب ہو یہ رہا ہے کہ ہر حکمران باہر سے قرضہ لے کر آتا ہے اور وہی سیاستدان بلیک منی اور حرام کے پیسے کو ڈالروں میں بدل کر اسے دوبئی بھیج دیتا ہے۔ یوں ایک طرف سے سپلائی آ رہی ہے اور دوسری طرف سے جا رہی ہے‘ جبکہ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ یہ آئی ایم ایف سے آخری ڈیل ہے۔ ہر دفعہ یہی گولی دی جاتی ہے۔ 
ذرا اندازہ کریں کہ یہ ملک کتنے ارب ڈالرز کھا گیا ہے اور ابھی بھی پیٹ خالی ہے۔ اس وقت تک نوے ارب ڈالرز کے قرضے لے چکا ہے۔ امریکہ نے پندرہ سالوں میں تیس ارب ڈالرز کی امداد دی۔ چین کہتا ہے کہ اس نے ساٹھ ارب ڈالرز کا قرضہ دے رکھا ہے‘ جو سی پیک پر لگ رہا ہے۔ صرف پچھلے پانچ سالوں میں چالیس ارب ڈالرز کا قرضہ لیا گیا ہے۔ اب بتائیں آپ کو لگتا ہے کہ پچھلے دس بارہ برس میں اس ملک میں ایک سو ارب ڈالرز سے زیادہ قرضہ یا امریکی امداد آئی تھی؟ وہ ایک سو ارب ڈالرز کدھر گئے؟
بڑا آسان سا جواب ہے۔ ایک تو ایان علی بریف کیس بھر کر لے گئی‘ جسے پیپلز پارٹی کے لطیف کھوسہ صاحب عدالتوں سے صاف چھڑا کر لے گئے۔ اس کے بعد باری ان پاکستانیوں کی لگی جنہوں نے پاکستانی روپے سے ڈالرز خرید کر دوبئی میں جائیدادیں خریدیں۔ کسی نے ان منی ایکسچینج ڈیلرز پر ہاتھ نہ ڈالا جو ہنڈی کے ذریعے پاکستانی ڈالرز دھڑا دھڑ باہر بھیج رہے تھے۔
دوسری طرف ہمارے سیانے بیوروکریٹس کے کارنامے سنیں جن کا کام تھا کہ ملک کے مفادات کا تحفظ کرتے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کی 2006ء تک جو تجارت ہو رہی تھی اس کے مطابق پاکستان چین کو ایک ارب ڈالرز کے قریب چیزیں بیچ رہا تھا جبکہ چین پاکستان کو جواباً چار ارب ڈالرز کے قریب بیچ رہا تھا۔ اب دس برس بعد انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان اس وقت ڈیڑھ ارب ڈالرز کی چیزیں چین کو بیچ رہا ہے جبکہ چین ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کی چیزیں پاکستان کو بیچ رہا ہے۔ اندازہ کریں دس برسوں میں چین ہر سال پاکستان سے سترہ ارب ڈالرز لے کر جا رہا ہے جو پاکستان کی پوری سالانہ ایکسپورٹ کے برابر ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کو پتہ تھا کہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے تو آپ نے چین سے آنے والی چیزوں پر ڈیوٹی کیوں نہ بڑھائی تاکہ ہمارے ڈالرز محفوظ رہتے‘ جیسے اب امریکی صدر ٹرمپ نے چین پر پابندیاں لگا کر کیا ہے۔
اتنی بڑی رعایت چین کو کس نے دی کہ دس برسوں میں چین کی پاکستان سے آمدن چار ارب ڈالرز سے سترہ ارب تک پہنچ گئی جبکہ خود ہم صرف پچاس کروڑ ڈالرز ان دس برسوں میں بڑھا سکے جبکہ ہمارا قرضہ ان برسوں میں تیس ارب ڈالرز سے نوے ارب ڈالرز ہوگیا ہے ۔ اس سے اندازہ لگا لیں اس ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اب پھر آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالرز آ گئے ہیں۔ یہ اونٹ کے منہ میں زیرے والا حساب ہے۔ جو ملک سالانہ صرف چین کو سترہ ارب ڈالرز کا بزنس دے رہا ہو وہاں چھ ارب کیا بگاڑ لیں گے؟
اس سے مجھے گائوں کا حکیم یاد آ گیا جس کے پاس تمام بیماریوں کا ایک ہی حل تھا کہ وہ مریض کو گلوکوز کی بوتل لگا دیتا۔ دو تین دن مریض گلوکوز کے سہارے نکال جاتا تھا۔ تین دن بعد حکیم پھر اسے نئی بوتل لگا دیتا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ حکیم نے کبھی جاننے کی زحمت نہ کی مریض کو شوگر تو نہیں۔ وہ ہر مریض کو گلوکوز کی بوتل لگائے جاتا ۔ جب ایک دن مریض مر جاتا تو حکیم افسردہ سا منہ بنا کر کہتا: اللہ دی مرضی۔
آئی ایم ایف بھی وہ عالمی حکیم ہے جو ہر دفعہ چھ سات ارب ڈالرز مالیت کی گلوکوز بوتل لگا دیتا ہے۔ جب کچھ عرصے بعد مریض کومے میں چلا جاتا ہے تو یہ عالمی حکیم افسردہ منہ بنا کر کہہ دیتا ہے: اللہ دی مرضی‘ لیکن سمجھدار حکیم کی طرح ایم آئی ایف مردے سے بھی فیس مع سود لینا نہیں بھولتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved