تجزیات آن لائن کے حالیہ سہ ماہی شمارہ میں شفیق منصور کا شناخت کے موضوع پہ طویل تحقیقی مقالہ ''ہم کون ہیں؟ہماری شناخت کیا ہے؟‘‘نظر سے گزرا‘جس میں فاضل مضمون نگار نے شناخت کے بحران کو زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھنے اوراسے انسان کا ایسا اساسی مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘جیسے اسی سے پورے نظام زندگی اور انسانیت کی بقاء وابستہ ہو۔مقالہ نگار کہتے ہیں ''چونکہ آزادی مقدم ہے‘اس لیے شناخت کے تعین سے قبل ایسی ذہنی آزادی کا موجود ہونا لازمی ہے‘ جس میں انسان شعوری طور پہ اپنی شناخت کا تعین خودکر سکے‘موجودہ شناختیں مخصوص اداروں اور جماعتوں کی عطا کردہ ہیں‘جن میں سے ہر ایک کے پس منظر میں مخصوص تحریکی‘متنازع تاریخی اور سیاسی عوامل کار فرما ہیں‘یعنی انسان نے اپنی شناخت کا تعین خود نہیں کیا ‘بلکہ اسے خاص مراحل اور عوامل کی اساس پہ تشکیل دی جانے والی شناختوں کا اسیر بنایا گیا۔سماج جب تک اداروں اور گروہوں سے بالاتر ہو کے ازخود شعور و آگہی کے ساتھ اپنی شناخت کا تعین نہیں کرتا‘اس وقت تک انسان تعمیر وترقی کا مفہوم‘عملی طریقہ اور میکنزم طے نہیں کر پائے گا‘شناخت کے تعین سے قبل اجتماعی شعوری آزادی کا ہونا لازمی ہے‘‘۔
کم و بیش دس صفحات پہ مشتمل اس طویل مضمون میں مصنف نے حالات کے جبر کی پیداوار تہذیب و ثقافت‘نظریاتی تحریکوں کی منفی اثرپذیری‘سیاسی اسلام کے احیاء سمیت ریاستی فسطائیت کو شناخت کی فطری نمو کی راہ کھوٹی کرنے کا محرک قرار دیتے ہوئے ایک ایسی آزاد سول سوسائٹی برپاکرنے کی ضرورت پہ زور دیا ہے‘جو ریاست اور قانونی اداروں سے بالاتر ہو‘جہاں لوگ ریاست اور قانون کے تابع نہ ہوں‘ بلکہ قانون و ریاست پہ سماج کو بالادستی حاصل ہو۔ مصنف نے شناخت کے موضوع پہ لکھے گئے تحقیقی مقالہ کا اختتام ‘ جس شعوری طور پہ آزاد‘مہذب‘متوازن اور فلاحی معاشرے کی قیام کی ضرورت پہ کیا ہے‘اس کی دھندلی سی تصویر ہمیں مقالات افلاطون میں ملتی ہے یا پھر کارل مارکس کے اس یوٹوپیا میں نظر آئے گی‘ جس میں غیر ریاستی سماج کی سکیم پیش کی گئی تھی‘یعنی ایک ایسا انسانی معاشرہ جہاں ظلم ہوگا‘ نہ انصاف کی ضرورت پڑے گی‘جہاں کوئی حاکم ہو گا‘ نہ محکوم‘جہاں لوگوں کے دل سوز آرزو سے خالی ہوں گے اور جو سماج از خود حرص‘نفرت‘بدیانتی فتح و شکست کے احساس‘مقابلہ و بالادستی جیسی فطری خواہشات اور ملکیت و تصرف کی غیرمختتم طلب سے دستبردار ہو کے اپنی فطرت میں نیوٹرل ہو چکا ہوگا‘ لیکن ان دونوں فلاسفہ کے متذکرہ بالا نظریات شناخت کے پس منظر میں پروان نہیں چڑھے‘ بلکہ عالم انسانیت کیلئے ایک ایسی جنت اراضی کی تخلیق کے تناظر میں پیش کئے گئے‘جس کی اقبالؒ نے کچھ یوں توضیح فرمائی:
کَس نہ باشد در جہاں محتاج کَس
نکتہ شرح مبین ایں است وا بس
بہرحال!افلاطون نے تو اپنے خواب تکمیل کی تعبیر پہ خود ہی سوال اٹھاتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ یہ سادہ سی جنت ِاراضی ‘آخر انسان کو ملتی کیوں نہیں؟افلاطون اور کارل مارکس‘دونوں نے‘ چونکہ انسانی جبلتوں کے فطری نظام کو خارجی حالات کا عکس یا پھر انہیں ماحول کی پیداوار سمجھ کے اپنے فہم کے مطابق‘ فطرت ِانسانی کی تشکیل نو کی جسارت کی تھی‘ لیکن جو لوگ کائنات اور فطرت انسانی میں جبلّی اصولوں کی غیرمتبدل اور اٹل کارفرمائی کو تسلیم کرتے ہیں‘وہ کسی ایسے سماج کی تشکیل کی تمنا نہیں کر سکتے‘جو انسانی فطرت میں برپا خیر وشر کی اُس ازلی کشمکش سے مبرا ہو‘جو بالآخر فکری و مادی ارتقاء اور تسخیر کائنات کا محرک بنتی ہے۔
تاہم ہمارے ممدوح نے اسی یوٹوپیا کو''شناخت‘‘کی پیشگی شرط بنا کے فلسفہ و فکر کی تاریخ میں نئی تھیوری پیش کی ہے‘جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ اس موضوع پہ کھلی بحث و تمحیص کی ابتداء ناگزیر تھی۔ترقی‘چونکہ‘ماحول پہ انسان کے بڑھتے ہوئے تصرف کا نام ہے‘اس لیے کسی معاشرے کا مجموعی ماحول اس کے اجتماعی رجحانات کا مظہر ہوتا ہے‘ نہ کہ اس معاشرے کا عامل؛اگرچہ اس مقالہ کا مرکزی خیال کنفیوژ ہے اوراس طویل مضمون میں استعمال کی گئی اصطلاحوں‘ یعنی معاشرہ‘ریاست‘تہذیب و ثقافت‘ شناخت‘انسانیت اور ترقی جیسے الفاظ کی معروف تعریف نہیں ملتی‘لیکن پھر بھی اسے سماجیات پہ عمیق غور و فکر کی منفردکاوش سمجھا جائے گا۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صاحب ِمضمون نے اپنے خیال کی تائید میں مستند اصطلاحات کے طبع زاد مفاہیم کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے‘ جس سے قاری کی اشکالات زیادہ گمبھیر ہو جاتی ہیں۔ہمارے خیال میں معاشرہ‘مخصوص فطری ضرورتوںکی احتیاج کے باعث بتدریج فرد‘خاندان اور گروہوں کی صورت میں ارتقاء کی منازل طے کرتا رہا اورانسانوں نے اپنی اجتماعی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی خاطر وقت کے تقاضوں کے مطابق رسم ورواج ‘قوانین اور ریاست کی صورت میں خود کو منظم کرنا سیکھ لیا‘ لیکن اس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ‘جو انسانیت پہ حاوی ہے‘قانون کا رہین ِمنت نہیں ‘بلکہ اس کا سرچشمہ زندگی کے اجتماعی اصول اور انسان کی فطرت ہے‘ریاست وقوانین بجائے خود انہی فطری عوامل کی اولاد معنوی اور معاشرے کے اجتماعی وجود کا جُز ہیں۔
تحفظ‘ ثقافت اور تنظیم‘ آزادی کا مرکب ہیں۔اس لیے ریاست کو منظم آزادی کہا جا سکتا ہے‘یعنی اخلاق و قانون کے ذریعے سیاسی تحفظ‘پیداوار اور مبادلہ کے ذریعے اقتصادی تحفظ۔علم و فنون کی نشو ونما اور تبلیغ کے وسیلے ثقافتی تحفظ حاصل ہوا۔لاریب‘واقعات کا پس منظر ہی حقائق کے ادراک کا حتمی طریقہ ہے۔زندگی کے مقاصد کیلئے یہ کافی ہے کہ ہم ان مشاہدات کو حقیقی سمجھیں ‘جن کے متعلق مختلف لوگ ایک جیسی شہادت دیں‘حقیقت اجتماعی طور پہ مربوط احساس ہے؛ چنانچہ ماضی کی اس کے سوا کوئی اہمیت نہیں کہ وہ زندہ لوگوں کے کردار اور مقاصد کو متاثر کرتا ہے اور تاریخ کی اس کے سوا کوئی حیثیت نہیں کہ وہ حال کو درخشاں اور مستقبل کی راہوں کو روشن بناتی ہے۔
نپولین نے کہا تھا کہ ''خدا کرے میرا بیٹا تاریخ کا مطالعہ کرے‘ کیونکہ تاریخ ہی سعی فلسفہ ہے‘ جو تمام ماضی کو کسی ایک تصور میں سمونے کی کوشش کرتی ہے‘‘۔تہذیب! وہ معاشرتی ترتیب ہے‘ جو ثقافتی تخلیق کے فروغ کا ذریعہ ہے۔رسومات! ہمارے اخلاقی ضوابط کو متشکل کرتی ہیں اور یہ برتاؤ کی وہ قسمیں ہیں‘ جنہیں لوگ مناسب خیال کرتے ہیں۔رواج ! وہ رسومات ہیں‘ جنہیں آنے والی نسلوں نے غلطیوں‘آزمائشوں اور قطع و برید کے بعد قدرتی طور پہ قبول کر لیا ہو۔اخلاق!وہ ضوابط ہیں‘ جنہیں گروہ انسانی اپنی بہبود و ترقی اور بقاء کیلئے لازمی تصور کرتے ہیں۔الغرض شناخت زندگی نہیں ‘بلکہ نقش ِ زندگی ہے۔شناخت کی نمو‘ ایک قسم کا حسی ونفسیاتی عمل ہوتا ہے‘ جس کی عملی تدوین میں سیاسی‘تاریخی اور تحریکی عوامل کا کردار میکانکی نہیں‘ بلکہ نفسیاتی ہوتا ہے۔فطرت نے انسان کے اندر کچھ چیزیں ایسی رکھیں ہیں‘ جنہیں کسی غیر کیلئے گرفت میں لانا ممکن نہیں۔اس لیے فکری ارتقاء کا سفرکبھی رکا نہیں ...(جاری ہے)