تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     16-05-2019

حجاب!

یہ دنیا ایک حیران کر دینے والی جگہ ہے ۔ یہاں‘ اگر آپ خاموشی سے مختلف چیزوں کا جائزہ لیتے رہیں تو انسان پر بہت سے انکشافات ہونے لگتے ہیں ۔ انہی چیزوں میں سے ایک چیز ہے ‘ انسان کا نظامِ انہضام؛ اگر ایک جانور کو ذبح کیا جائے اور اس کا سینہ اور پیٹ چاک کر کے یہ نظامِ انہضام باہر نکال پھینکا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ خوراک کی نالی سے شروع ہونے والا یہ سسٹم جسم میں سب سے زیادہ وزنی ہے ۔ ان میں آنتوں کا وزن بہت زیادہ ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ بڑی عید پر ہر طرف جانوروں کی یہی آلائشیں بکھری ہوتی ہیں ۔انسانوں میں تو اللہ نے بہت نزاکت پیدا کی ہے ‘ اسے آنتوں سے کراہت آتی ہے ۔ یوں بھی وہ ہر چیز آگ پہ پکا کے کھاتا ہے‘ لیکن جانورجب ایک دوسرے کا شکار کرتے ہیں تو وہ آنتیں بھی اسی طرح نوچ کر کھا جاتے ہیں ‘ جیسا کہ گوشت ۔ 
جب انسان اس نظامِ انہضام پر غور کرتا ہے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ پورا سسٹم ‘ جو کہ گلے میں خوراک کی نالی سے شروع ہوتاہے ‘ ایک مکمل ڈیزائن اور نقشے کے تحت بنا ہے ۔سب سے بڑے کیمیا دان نے یہ سسٹم اتنی باریکیوں کے ساتھ تشکیل دیا ہے کہ آج کے اس جدید ترین دور میں ہی اس کا تجزیہ ممکن ہے ۔ ویسے تو یہ نظام گلے میں خوراک کی نالی سے شروع ہوتاہے‘ لیکن ایک طرح سے منہ میں دانت اور لعاب کی رطوبت بھی اس کا حصہ ہیں ۔ دانتوں کی ساخت ایسی ہے کہ سامنے والے دانت تو چہرے کو خوبصورت ساخت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ان کے نہ ہونے سے منہ پوپلا ہو جاتاہے ۔ اطراف اور پیچھے والے دانت زیادہ چوڑے ہیں اور پیسنے کے لیے بہت عمدہ ساخت رکھتے ہیں ۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ دانت باقاعدہ طور پر ڈیزائن کیے گئے ہیں ؛ اگر آپ کو اس میں شک ہو تو کبھی آگے والے دانتوں سے چبانے کی کوشش کر کے دیکھیے ۔ 
اسی طرح یہ جو منہ میں لعاب کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ رکھ دیا گیاہے ‘ اس کی غیر موجودگی میں لقمہ چبانا اور اسے نگلنا کسی سزا سے کم نہ ہوتا ۔ کچھ لوگوں کا بیماری وجہ سے گلا خشک ہوتاہے تو انہیں اس لعاب کی اہمیت کا احساس ہوتاہے ۔ باقی ہم سب تو ان سب چیزوں کو for grantedہی لیتے ہیں ۔ ا ب آپ یہ دیکھیں کہ انسان لقمہ چبا کر اسے خوراک کی نالی میں دھکیل دیتاہے ‘اسی لمحے سانس کی نالی فوراًایک لمحے کے لیے بند ہوجاتی ہے ۔ دماغ؛ اگر یہ کام اپنے آپ نہ کرتا تو کھانے کے ذرات سانس کی نالی میں چلے جاتے اور وہ سانس رکنے سے موت کا شکار ہو جاتا ۔ 
خوراک کی نالی ایک ٹیوب ہے ‘ جو کہ طاقتور مسلز پر مشتمل ہے ۔ ان مسلز میں طاقت نہ ہو تو کھانا اس نالی میں ہی اٹک جائے ‘لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ کھانا سیدھا معدے میں جا گرتاہے ۔ جیسے ہی یہ خوراک کی نالی سے معدے میں گرتاہے ‘ ایل ای ایس نامی ایک ڈھکن مضبوطی سے بند ہو جاتاہے ۔ اب ڈکار آئے یا انسان الٹا لٹک جائے‘ کھانا واپس منہ کی طرف نہیں آسکتا ۔ 
معدے میں جو خوراک داخل ہوئی ہے ‘اسے دانتوں نے پیسا ہے اور اس میں لعاب مکس ہے ۔ معدے کے لیے کچھ دیر میں اس خوراک کو مکمل طور پر ہضم کرنا کوئی بڑی بات نہیں ‘ لیکن معدے کے مسلز میں اتنی طاقت نہ ہو تو کیسے وہ خوراک کو پیسیں گے ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ منہ میں لعاب خارج ہونا‘ نگلتے ہوئے سانس کی نالی کا بند ہونا‘ خوراک کی نالی کے مسلز کا خوراک کو نیچے کی طرف دھکیلنا ‘ معدے کی دیواروں کی مسلسل حرکت ‘ یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ جن میں انسان کا شعوری طور پر کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے۔ جب بچّہ پیدا ہوتاہے تو اسے پیدائشی طور پر اس بات کا علم ہوتاہے کہ دودھ کیسے پینا ہے ؛حالانکہ اسے دنیا کی کسی اور چیز کا علم نہیں ہوتا‘ جبکہ لعاب کے اخراج‘ خوراک کی نالی‘ معدے کی حرکت‘ یہ سب چیزیں انسان کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں ‘ بلکہ اسے پتا بھی نہیں ہوتا کہ جسم کے اندر کیا ہور ہا ہے ۔ وہ تو بس کھانا کھا کر اپنے کاموں میں لگ جاتاہے ‘ جبکہ جسم کے اندر ایک اتنا بڑا سسٹم خاموشی سے کام کررہا ہوتاہے ۔ 
جسم میں دل کی دھڑکن کے ساتھ مسلسل خون گردش کر رہا ہوتاہے ‘ جب یہ خون معدے سے گزرتاہے تو یہاں سے گلوکوز لے کر پورے جسم میں سپلائی کرتاہے ‘ پھر یہ خوراک آنتوں میں داخل ہو جاتی ہے‘ آپ خوراک کی نالی کو دیکھیں ‘ معدے کو یا آنتوں کو ‘ ہر جگہ آپ کو ایسے مائع نظر آئیں گے ‘ جو کہ انہیں گیلا رکھتے ہیں‘ تاکہ خوراک آسانی سے آگے کی طرف جا سکے ‘ جبکہ معدے میں خورا ک کو مکمل طور پر ہضم کرنے کیلئے تو نہ صرف خصوصی طور پر تیزاب خارج ہوتے ہیں‘ بلکہ معدے میں ایک خاص الخاص پردہ بھی اللہ نے پیدا کیا ہے ‘تا کہ یہ تیزاب معدے کے خلیات کو نقصان نہ پہنچا سکے‘ بلکہ صرف خوراک کو ہضم کرنے کا کام ہی کرے۔ 
اگر آنتوں کے مسلز میں طاقت نہ ہو تو‘ وہ خوراک کو کیسے جسم سے باہر نکالیں؟ یہاں یہ بات بھی صاف ظاہر ہے کہ گو کہ ہمیں شعوری طور پر ان سب چیزو ں کا احساس نہیں‘ لیکن ہمارا دماغ ان سب اعضا کو مکمل طور پر کنٹرول کرر ہا ہوتاہے ۔ اب؛ اگر آپ سوچیں کہ اگر معدے کی دیواروں کو حرکت دینا انسان کے اپنے اختیار میں دے دیا جاتا تو اس کا سارا وقت خوراک ہضم کرنے ہی میں صرف ہو جاتا یا ہر دفعہ خوراک نگلتے ہوئے سانس کی نالی کو اگر ہمیں خود بند کر نا پڑتا تو؟ 
اس طرح یہ پورا نظامِ انہضام چیخ چیخ کر ایک عظیم ڈیزائنر ‘ ایک عظیم کیمیا دان کا نام لے رہا ہے‘ لیکن ہم ہیں کہ آنکھیں بند کیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان سب چیزو ںمیں کہیں بھی ‘ ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی آجائے‘ خوراک کی نالی کے مسلز کمزور ہو جائیں ‘ معدے میں تیزابیت زیادہ ہو جائے ‘ آنتوں میں زخم اور انفیکشن ہو جائے‘ انسان اس طرح ڈاکٹر کی طرف بھاگتا ہے اور اتنا لاچار دکھائی دیتاہے کہ جیسے اس سے زیادہ مسکین کوئی نہ ہو؛ حالانکہ یہی انسان جب دوسروں کی زمینوں پہ قبضے کرتا اور انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہا ہوتاہے تو اس وقت اس سے بڑا فرعون ہی کوئی نہیں ہوتا۔ آپ کبھی نظامِ انہضام کے ماہر (Gastroenterologist)کے پاس جا کر دیکھیں ۔ لوگ کیسے امیدیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف معالج کو بخوبی پتا ہوتاہے کہ 90فیصد لوگوں کا مسئلہ صرف پریشانی ہے ۔خوراک کی نالی‘ معدے اور آنتوں کے جتنے بھی ٹیسٹ کر وا لیے جائیں ‘ سب کا رزلٹ ٹھیک ہی آنا ہے ۔ صرف پانچ سے دس فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں ‘ جن کے ٹیسٹ کسی خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 
یہ کہانی تو ہے نظامِ انہضام کی۔ کیسے دل ‘ پھیپھڑے اور گردے اس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انسان کو زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں؟ دل سے خون معدے میں جاتا ہے گلوکوز لیتاہے ‘ پھر یہ خون پھیپھڑے میں جاتا ہے ‘ آکسیجن لیتاہے ‘ پھر یہ گلوکوز اور آکسیجن پورے جسم کے ایک ایک خلیے کو سپلائی کرتاہے ‘ پھر جب یہ خون گردوں سے گزرتاہے تو wasteکو الگ کر دیا جاتاہے ۔ 
ان نالیوں کی لمبائیاں ‘ چوڑائیاں ‘ ان کے مسلز کی طاقت ‘ ان میں موجود رطوبتیں ‘ یہ سب ایک ڈیزائن کے تحت بنی ہیں ۔ ڈیزائن نظر آرہا ہے ‘ ڈیزائنر؛ البتہ حجاب میں ہے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved