پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کے استاد ڈاکٹر سلیم مظہر سے پوچھا‘ گوگل پر سرچ کی لیکن فارسی کے اس خوبصورت شعر کے خالق کا نام معلوم نہ ہو سکا:
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
''اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں، تو کبھی کبھی ان پرانے قصوں کو پڑھ لیا کر‘‘۔ برادرم ایاز امیر نے اپنے گزشتہ کالم ''جب انقلاب کا بھوت سر پہ سوار تھا‘‘ میں جس قصے کا ذکر کیا، وہ تو ہمارا آنکھوں دیکھا ہے، بلکہ اس قصے کے لاکھوں کرداروں میں ایک ہم بھی تھے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ قصہ ہم پر بیتا ہے۔ یہ ہماری اپنی آپ بیتی ہے۔ بھٹو صاحب کے خلاف 1977ء کی بے پناہ عوامی تحریک، جو بیلٹ بکس کے تقدس کے لیے برپا ہوئی، اور ''نظام مصطفیٰ‘‘ کے عنوان نے جسے جذبوں اور ولولوں سے بھر دیا تھا۔ جناب ایاز امیر اسے بھٹو کے خلاف مولویوں اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کی تحریک قرار دیتے ہیں جس میں ایک مرحلے پر، تین بریگیڈیئروں کے احتجاجی استعفوں سے ایاز امیر صاحب نے انقلاب کی امیدیں وابستہ کر لیں اور ماسکو میں پاکستانی سفارت خانے کے 27 سالہ سکینڈ سیکرٹری نے، اس اچھی بھلی سرکاری سروس سے استعفیٰ دے دیا۔ ایاز امیر کے استعفے سے، ہمیں اس تحریک کے دوران پاکستان کے تین سفیروں کے احتجاجی استعفوں کی یاد آئی، یہ جناب احمد سعید کرمانی، جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم تھے۔
احمد سعید کرمانی مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر آصف سعید کرمانی کے والد تھے۔ جوانی کی بھرپور توانائیوں اور رعنائیوں کے ساتھ تحریک پاکستان میں سرگرم رہے۔ لاہور میں ایک عرصہ تک ایوب خاں کی آمریت کے خلاف جمہوریت کا پرچم بلند کئے رکھا۔ پھر مغربی پاکستان کابینہ میں وزیر اطلاعات ہو گئے۔ بھٹو صاحب برسرِ اقتدار آئے تو انہیں مصر میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا۔ جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم نے سقوط ڈھاکہ کے بعد، قائد اعظم کے رہے سہے پاکستان میں، یحییٰ خان کے ٹولے سے بھٹو کو انتقال اقتدار میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ لیکن بھٹو صاحب نے چند ماہ بعد ہی، ان دونوں سے جبراً استعفے لے کر پاکستان کے سفیر بنا کر بیرون ملک بھیج دیا۔ پاکستان میں بھٹو کے خلاف تحریک نے زور پکڑا، تو یہ تینوں احتجاجی استعفوں کے ساتھ وطن لوٹ آئے۔ یادش بخیر، ایک میاں ممتار محمد خان دولتانہ بھی تھے، پاکستان کے ذہین ترین اور صاحب علم سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے، قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے دوسرے وزیر اعلیٰ تھے۔ ایوب خان کے دور میں ''ایبڈو‘‘ کی پابندیاں ختم ہوئیں تو ایوب مخالف مسلم لیگ کونسل کے سربراہ بن گئے۔ 1970ء میں بھٹو کے طوفان میں کونسل لیگ کے جو سات ارکان قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے، ان میں دولتانہ بھی تھے۔ بھٹو ان کی فراست سے مرعوب تھے؛ چنانچہ ''دفع شر‘‘ کے لیے انہیں لندن میں ہائی کمشنر بنا کر بھیج دیا۔ بھٹو کی فسطائیت سے خوف زدہ سیاستدان نے اسے بڑھاپے میں عزت بچانے کا بہانہ جانا۔ پاکستان کی عملی سیاست سے دل اچاٹ ہو چکا تھا؛ چنانچہ احمد سعید کرمانی، جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خاں کی طرح، استعفے دے کر لوٹ آنے کی بجائے، (1979ء تک) وہیں ہائی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ تین سفیروں کے استعفے، میڈیا میں شہ سرخیاں بنے تھے۔ سیکنڈ سیکرٹری کی سطح کے جونیئر سفارت کار کا استعفیٰ بھی ایک، دو کالمی خبر تو بن ہی جاتا، لیکن اس نے پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کی بجائے، دو سطری استعفے، اپنے سفیر جناب سجاد حیدر کے سپرد کیا اور ماسکو سے لندن روانہ ہو گیا۔
جناب ایاز امیر نے جن بریگیڈیئروں کے استعفے کا ذکر کیا، ان میں ایک تو وہی بریگیڈیئر نیاز تھے، ایاز صاحب کے پڑوسی، باقی دو، اشتیاق علی خان اور محمد اشرف تھے۔ پولیس اور فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کے وحشیانہ استعمال کے باوجود تحریک پر قابو نہ پایا جا سکا تو بھٹو صاحب نے 21 اپریل کو کراچی، حیدر آباد اور لاہور مارشل لا کے سپرد کر دیئے (اس روز ملک گیر پہیہ جام ہڑتال نے حکومت کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا تھا) سیالکوٹ اور بہاولپور میں کرفیو سے کام چلانے کی کوشش کی گئی۔ بریگیڈیئرز کے استعفے 6 مئی کا واقعہ تھا۔ اس روز جمعہ تھا۔ لاہور میں کرفیو میں نماز جمعہ کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ تھا۔ نیلا گنبد کی مسجد تحریک کا مرکز تھی۔ مسجد کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کا ٹرک الرٹ کھڑا تھے۔ اِدھر نماز ختم ہوئی، ادھر نوجوانوں کا گروہ نعرے لگاتا، باہر نکل آیا۔ وقفہ ختم ہونے کو تھا، سکیورٹی افسر انہیں منتشر ہونے کا حکم دے رہا تھا۔ بپھرے ہوئے جذبات، نیلا گنبد سے انار کلی کی جانب بہہ نکلے۔ سکیورٹی والوں نے دھنی رام روڈ کا راستہ اختیار کیا اور جلوس کے آگے پہنچ گئے۔ یہاں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا۔ اسی شام بی بی سی سے تین بریگیڈیئرز کے استعفوں کی خبر آ گئی۔ وہ اپنے ہی نوجوانوں پر گولی چلانے پر تیار نہیں تھے، جن کا جرم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ فیئر اینڈ فری الیکشن کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہمیں تو لاہور کا یاد ہے، یکم اپریل کی شام لوہاری کی مسلم مسجد کا سانحہ... اور یہاں مغرب، عشا اور اگلے روز فجر کی نماز بھی نہ ہو سکی۔ 9 اپریل لاہور میں ایک اور خونیں دن تھا۔ پنجاب اسمبلی کی حلف برداری کا دن، یہاں بھٹو صاحب بھی موجود تھے۔ ادھر نیلا گنبد سے نواب زادہ نصراللہ خاں کی قیادت میں جلوس روانہ ہوا۔ مال روڈ پر قدم قدم پر مزاحمت تھی۔ 30 افراد جاں بحق ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد بھی اڑھائی سو کے لگ بھگ تھی۔ نواب زادہ صاحب اور ان کے جانثار، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سامنا کرتے، چیئرنگ کراس پہنچ گئے تھے۔ ادھر شارع فاطمہ جناح سے روانہ ہونے والے خواتین کے جلوس کو ''نتھ فورس'' کا سامنا تھا۔ لیکن لارنس روڈ کے راستے وہ بھی ریگل چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ بیگم مودودی کو خرابیٔ طبع کے باعث ہسپتال داخل کرانا پڑا۔ بیگم آمنہ اصغر خان، بیگم مہناز رفیع، چودھری خاندان کی خواتین اور جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی کارکنان آخر دم تک میدان میں موجود رہیں۔
15 اپریل کو، لکشمی چوک میں مشتعل نوجوانوں نے رتن سینما جلا دیا (جہاں سے گزشتہ روز جلوس پر فائرنگ ہوئی تھی) اگلے چوک میں پیلی بلڈنگ میں پیپلز پارٹی کے دفتر سے، ایک جیالا سٹین گن سے فائرنگ کر رہا تھا۔ نیچے ہزاروں کا جلوس تھا۔ ایک نوجوان نے خنجر دانتوں میں لیا اور بلڈنگ کے عقبی حصے میں پائپ کے ذریعے اوپر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور فائرنگ کرنے والے نوجوان کی پشت میں خنجر گھونپ دیا۔ تھوڑی دیر بعد پیلی بلڈنگ شعلوں کی زد میں تھی۔ اسی شب، عشا کے بعد بھٹو صاحب، اچھرہ میں مولانا مودودیؒ کی رہائش پر پہنچے اور اصلاحِ احوال کے لیے مدد چاہی۔ مولانا کا جواب تھا: سلامتی کا ایک ہی راستہ ہے، نیا الیکشن۔
برادرم ایاز امیر، ضیاء الحق کے ''حدود آرڈی ننس‘‘ اور پلاسٹک بیگز کو پاکستان کے سنگین ترین بنیادی مسائل میں شمار کرتے ہیں، لیکن ''حدود آرڈیننس‘‘ کی شروعات تو خود بھٹو صاحب کر گئے تھے، جب تحریک کے ''اسلامی رنگ‘‘ سے گھبرا کر انہوں نے 6 ماہ کے اندر اسلامی قوانین کے نفاذ، شراب نوشی کی مکمل ممانعت، گھڑ دوڑ سمیت ہر قسم کی جوئے بازی پر پابندی، نائٹ کلبوں اور شراب خانوں کی بندش، اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو اور اتوار کی بجائے جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا۔ جنرل کے ایم عارف راوی ہیں کہ تین روز بعد بھٹو صاحب جنرل شریف سے کہہ رہے تھے کہ میں نے اسلامی حدود اور شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے، لیکن پی این اے کی تحریک میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی اور اس کے ساتھ یہ انکشاف بھی کیا کہ انہوں نے یہ اسلامی اقدامات جنرل ضیاء الحق کے مشورے پر کئے تھے۔ جنرل کا خیال تھا کہ ان اعلانات سے تحریک ختم ہو جائے گی۔
5 جولائی کو مارشل لا لگا تو پورے ملک میں جشن کی کیفیت تھی۔ کئی روز تک حلوے کی دیگیں پکتی (اور بٹتی) رہیں۔ یوں لگتا تھا، شہر میں بھٹو کا نام لیوا کوئی نہیں رہا۔ لیکن 8 اگست کو بھٹو لاہور آئے تو ایئر پورٹ سے شیرپائو برج تک لوگ ہی لوگ تھے۔ مولانا نورانی اور جاوید ہاشمی بھی اسی پرواز سے آئے تھے اور جیالے ان سے انتقام پر تلے ہوئے تھے۔ اگلے روز پیپلز پارٹی کے ترجمان ''مساوات‘‘ کی خبر تھی ''نورانی میاں کی دستارِ فضیلت جیالوں میں یوں تقسیم ہوئی جیسے داتا صاحب کا لنگر ہو‘‘۔