مشہور انگریز شاعر جان کیٹس لکھتا ہے: ’’خوبصورتی جاوداںخوشی کا باعث ہوتی ہے، اس کا جوبن فزوں تر ہوتاہے اور یہ کبھی وجود سے عدم میں نہیں جاتی۔ اس کی تابانی کا عکس سورج میں، چاند میں، درختوں میں اور بوڑھے و جوان انسانوں میں جلوہ گررہتا ہے۔‘‘ اس کی مثال ہمارے ہاں بھی ہے ۔۔۔ اسلام آباد خوبصورت ہے جبکہ پاکستان کے لوگ بہادر اور باحوصلہ ہیں۔ آج کل دارالحکومت میں بہار کا قافلہ خیمہ زن ہے… پھولوں کے مہکنے، پرندوں کے چہکنے اور تازہ خوشبودار ہوائوں کی لہرنے موسمِ گرما کی آمد کو قدرے التوا میں ڈال دیا ہے۔ شوخ سرخ پھولوں والے درختوں، انواع و اقسا م کے رنگ برنگے گلابوں اور دیدہ زیب پے ٹونیا کے پھولوں نے شہر کو دلہن کی سجایا ہوا ہے۔ دارالحکومت کی کسی بھی سڑک پر نکل جائیں، لگتا ہے کہ فطرت کے حسن ِ بے پروا نے اپنی بے حجابی کے لیے اس شہر کو چن لیاہے۔ لوک ورثہ کے ساتھ دیودار کے نوکیلے پتوں والے درخت اور پھولوںسے لدی ہوئی جھاڑیاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انسان جنت ِ ارضی میں پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ پکنک منانے کے لیے کچھ وقت نکال لیں تو یہاں بیتے پر سکون اور کیف آفریں لمحے یہ احساس دلائیںگے کہ وقت کی رفتار تھم گئی ہے۔ جب آپ اسلام آباد کی بل کھاتی ہوئی سڑکوں اور پہاڑیوںکے نشیب وفراز کود یکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ شہر وقت کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہے اور بیتے ہوئے ماہ و سال نے اس کی جبین کو شکن آلود نہیں کیا۔ اس وقت ڈاکٹر احمد حسن دانی جو پاکستان کے نامی گرامی دانشور، مورخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ تھے، کی یاد آرہی ہے۔ وہ نیولیتھک ایج ( Neolithic) پر اتھارٹی تھے۔ اُنھوںنے کئی سال پہلے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ پوٹھوہار کا علاقہ آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے بہت بڑا خزانہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ دور نہیں، اسلام آباد کے ارد گرد ہی لاکھوں سال پرانے نوادرات دفن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مارگلہ پہاڑیوں کے نزدیک ریتلے پتھر پر ثبت ایک انسانی پائوں کا نقش دریافت کیا جو قبل از تاریخ کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’روز اینڈ جیسمین گارڈن‘‘۔۔۔گلاب اور چنبلی کا باغ۔۔۔ جو اُس وقت قائم کیا گیا جب اسلام ِ آباد کی بنیاد رکھی گئی، دیودار اور سرو کے درختوںکے درمیان آج بھی نہایت شاہانہ انداز میں موجود ہے۔ اس باغ میں ہر سال موسم ِ بہار میں پھولوں کی نمائش ہوتی ہے۔ قرب وجوار کی آبادیوںسے مرد، عورتیں اور بچے اس نمائش کو جوق در جوق دیکھنے آتے ہیں۔ایک موٹرسائیکل پر پورا کنبہ سوار ہوتا ہے۔ رنگ برنگے غبارے اُڑاتے اور میٹھی ٹافیاں چباتے ہوئے بچے ،جن کے چہرے خوشی اور جوش سے دمک رہے ہوتے ہیں ، یہاں نظر آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ابھی زندگی اتنی بھی اداس نہیں جتنی سیاسی اُفق سے نظر آتی ہے۔ جوخوشی ان بچوں کے چہرے پر نظر آتی ہے،اس کی ایک جھلک ان کے والدین ، خاص طور پر مائوں کے چہروں پر بھی جلوہ فگن ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ایک پرائیویٹ کلب ، جو اتنا ہی پرانا ہے جتنا اسلام آباد مگر اس نے خود کو جدید قدروں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ میں نے یہاں نوجوان لڑکوں لڑکیوں ، مردوں اور عورتوں کوویسے ہی جدید ملبوسات میں دیکھا جو نیویارک جیسے ترقی یافتہ شہر میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی صحت، ان کی گاڑیاں، ان کی معاشی خوشحالی اور ان کی تعلیمی قابلیت مغربی ممالک میں رہنے والے افراد کے ہم پلہ ہے۔ یہ مطمئن اور بااعتماد افراد ہیں۔ میرے ساتھ امریکہ سے آنے والی خاتون نے جو پہلی مرتبہ پاکستان آئی تھی کہا: ’’پاکستانی خوبصورت لوگ ہیں۔ یہ عورتیں لمبے سکرٹ اور تنگ پاجاموں میں بہت حسین لگ رہی ہیں۔ ان کا نسوانی حسن بہت واضح ہے۔‘‘اس تبصرے پر میںخوشی سے پھولی نہ سمائی۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنا وطن اچھا نہ لگتا ہوکیونکہ یہاں بہت سی چیزیں نہیں بنتیںلیکن اس بات کا امریکی بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستانی جاذب نظر قوم ہے۔ انسانی خوبصورتی کے علاوہ سمندر کے پر شکوہ ساحل، زرد صحرا، سرسبز میدان اور فلک بوس پہاڑا س ملک کے جغرافیائی خدوخال تشکیل دیتے ہیں۔ جغرافیائی تنوع کی طرح، یہاں رہنے والے لوگ بھی ، کراچی سے لے کر خیبر تک منفرد جسمانی نقوش رکھتے ہیں۔ صاحب ِ ذوق افراد جانتے ہیں: ’’اے ذوق، اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے‘‘۔ جسمانی خوبصورتی کے علاوہ ہم ایک زندہ دل اور بہادر قوم ہیں۔ جب میں اپنے ارد گرد انسانوں کے چہروں پر خوشی کی لہریں اور امیدکے دیپک روشن دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ نہ تو ہولناک دہشت گردی اور نہ ہی دل شکن بدعنوانی ان لوگوں کو ناامیدی کے صحرا میں دھکیل سکی ہے۔ طبقاتی فرق، دولت اور عہدے سے قطع ِ نظر بیشتر انسانوں کی آنکھوں میں بہتر مستقبل کی چمک موجود ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ معاشرے میں غریب افراد جو بمشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں ، کی تعداد کم نہیں لیکن ایسا تو ہر ملک میں ہوتا ہے۔ مٹ رومنی کے مطابق امریکہ میں سنتالیس فیصد افراد غربت زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس وقت جب پاکستان کا دارالحکومت پھولوںسے عروس البلاد بنا ہوا ہے، سماجی اور معاشرتی علوم کے ماہرین کی توجہ ان کی بجائے یقینا غربت، انتہا پسندی، نشانہ بنا کر قتل کرنے، دہشت گردی اور بدعنوانی جیسے مسائل پر ہوگی۔ خوش قسمتی سے میں ان (ماہرین) میںسے نہیں ہوں۔ دوسال امریکہ میں قیام کرنے کے بعد جب میں اپنے وطن میں آئی ہوں تو مجھے عوام میں واضح تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ایک حوالے سے یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ پاکستانیوںنے میڈیا کونظر انداز کر دیا ہے۔ وہ کمر توڑ دینے والے خبروں (بریکنگ نیوز ) کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے ایک ایسی دنیا تخلیق کر رہے ہیں جہاںان کی شخصی آزادی ، دوستی اور خوشی کی لکیریں ان کی جغرافیائی حد بندیوں کی طرح واضح اور جاندار ہوں۔ ٹی وی کے اینکرز۔۔۔نوجوان‘ دراز قامت اور سمارٹ لڑکیاںاور جوانی کو داغ ِ مفارقت دینے کے قریب مرد سابق ارکان ِ پارلیمنٹ اور سینٹرز کے ساتھ ٹاک شوز میں نہایت غیر مہذب زبان میں عوام کو نت نئے خلجان میں مبتلا رکھتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اب انہیں زیادہ سنجیدگی سے نہیں سنتی۔ آج کے پاکستان میں ایک اور مثبت تبدیلی ہویدا ہے۔آج کوئی بھی کھانے پر سیاسی موضوعات کو زیر ِ بحث نہیں لاتا۔ دو سال پہلے جب میں اسلام آباد میں رہتی تھی، ہر کھانے پر اہل ِ خانہ سیاست پر بات چیت کرتے رہتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب تو سنجیدہ افراد بھی عدلیہ کی طرف سے تواتر کے ساتھ آنے والے بیانات پر کان نہیں دھرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو حقیقت کی سمجھ آگئی ہے۔ ان تمام خرابیوں کے باوجود اچھی خبر یہ ہے کہ عام پاکستانی کافی سیانا ہو گیا ہے۔ وہ سیاسی طور پر اپنی رائے رکھتا ہے۔ یہ تبدیل ہوتا ہوا پاکستان ہے جو ان ماہرین کو نظر نہیں آتا کیونکہ ان کی نظروں پر اپنے مفاد کی عینک لگی ہوئی ہے۔ حال ہی میں فنڈ جمع کرنے کے پروگرام میں ٹی وی کی ایک مشہور شخصیت جو مزاح اور سنجیدگی کے درمیان امتزاج پیدا کرنے کے ماہر ہیں کو حاظرین کو محظوظ کرنے کے لیے بلایا گیا۔ لوگوںکو خوش کرنے کے لیے اُس نے پاکستانیوں کا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔ کچھ دیر تو سامعین نے برداشت کیا لیکن جب وہ چپ نہ ہوا تو حاظرین میںسے کسی نے چلا کر کہا۔۔۔ ’’منہ بند کرو‘‘… اس پر سب سناٹے میں آگئے۔ اس پر اُس مشہور شخص نے لوگوںسے پوچھا کہ کیا وہ اس کو سننا چاہتے ہیں؟ تو سب نے بیک آواز کہا: ’’ ہر گزنہیں، تم اپنے ذاتی معاملات کو قومی رنگ میں پیش نہیں کر سکتے‘‘۔ قارئین ، کیا اب بھی شک ہے کہ یہ خوبصورت ملک بہادر لوگوں کا ملک ہے۔ جب تک وہ روادری دکھائیں، اسے بزدلی یا انجانا پن نہ سمجھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved