جب معاشی انہدام نوشتۂ دیوار ہو تو حکمرانوں کے پاس جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ دلاسوں اور لاروں سے ستائے ہوئے عوام کے مجروح و گھائل احساسات سنبھلتے نہیں۔ بھوکے بلکتے بچے بہلتے نہیں۔ بیماروں کے درد زائل نہیں ہوتے۔ بھوک کی اذیت مٹتی نہیں۔ محرومی کا کرب کم نہیں ہوتا۔ معاشرے میں بیگانگی، تلخی، ہیجان اور اضطراب بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ محنت کشوں اور غریبوں پر مشتمل اس ملک کی 85 فیصد سے زائد آبادی تڑپ بھی رہی ہے اور نفرت و حقارت کی آگ میں بھی جل رہی ہے۔ ان کے اندر حکمرانوں اور اس نظام سے انتقام کا لاوا بھی شدت سے بھڑک رہا ہے۔
موجودہ حکومت ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح عوام کو پھر قربانی دینے کا عندیہ دے رہی ہے۔ وہی قربانیاں جو کبھی معاشی استحکام کے نام پر‘ کبھی ملک کے نام پر‘ کبھی سالمیت کے واسطہ سے مانگی جاتی رہی ہیں تو کبھی محنت کشوں اور غریبوں کو خود پر نازل ہونے والے عذابوں کو برداشت کرنے کی تلقین بن جاتی رہی ہیں۔ کہیں ان عذابوں کو برداشت کرنے کا ازالہ اگلے جہان ملنے کی امید دلائی جاتی رہی ہے تو کہیں تھوڑے عرصے بعد حالات کے سہل اور زندگی کی اذیتوں کے خاتمے کا درس دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ محنت کش عوام اتنے بھی سادہ نہیں‘ جتنا ہمارے حکمران اور ان کے اہل قلم و اہل دانش ان کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ سماجی زندگی کی تاریخ گواہ ہے کہ بہت زیادہ پڑھے لکھے افراد بڑے جاہل بھی ہو سکتے ہیں اور بالکل سفید ان پڑھ بھی بلند پیمانے کی عقل و دانش کی باتیں کر جاتے ہیں۔ ہمارے ان پڑھ پرکھوں کے ایسے ہی بہت سے اقوال صدیاں گزرنے کے بعد بھی ٹھوس معاشرتی سچائیوں کے طور پر آج بھی درست ہیں۔ ایسی تعلیم اور نصاب جو حکمران طبقے اور ان کے نظام کے مفادات کے تحفظ اور بڑھوتری کے لیے مرتب کیے گئے ہوں‘ اس سے فیض یاب ہونے والی شخصیات اور ان کی تعلیمات ایک ایسے دور میں‘ جب یہی نظام تاریخی زوال اور انہدام کا شکار ہو رہا ہو‘ الٹ ہو کر غلط اور متروک ہو جایا کرتی ہیں۔
2008ء کے بین الاقوامی زوال اور عالمی سرمایہ داری کے کریش نے ہارورڈ سے لے کر آکسفورڈ اور سٹینفورڈ سے لے کر کیمبرج تک کی دنیا کی شہرہ آفاق یونیورسٹیوں کے اعلیٰ معیشت دانوں کی تما م تر پیش گوئیاں غلط ثابت کر دی تھیں۔ نومبر 2009ء میں ملکہ برطانیہ کوئین الزبتھ نے لندن سکول آف اکنامکس کا دورہ کیا تھا اور تقریب میں موجودہ دنیا کے بڑے نوبل انعام یافتہ اور بے پناہ شہرت رکھنے والے ماہرین معاشیات سے پہلا سوال یہی کیا تھا کہ ''کیونکر آپ میں سے کوئی بھی اس اقتصادی زوال کی پیش گوئی ہی نہیں کر سکا؟‘‘ ملکہ برطانیہ کو ان معیشت دانوں کی نالائقی اور غلطی کی زیادہ تکلیف اس لیے بھی تھی کہ اس کریش میں ان کو تقریباً 25 سے 50 ملین پائونڈ کا اچانک خسارہ ہو گیا تھا اور یہ رقم سٹاک ایکسچینج کی گراوٹ میں ڈوب گئی تھی۔ ملکہ کے اس سوال کے جواب میں جو جواز پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ ''یہ 'ذہین ترین‘ (Bright) عالمی معیشت دانوں کی مشترکہ فکر اور سوچ (Collective Imagination) کی نا کامی ہے‘‘۔ لیکن یہ جواز غلط ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام چونکہ عالمی طور پر تنزلی کا شکار ہے اس لیے اس نظام کے معیشت دان، تناظر تخلیق کرنے کے ماہرین اور اس کی گورننس کرنے والے بڑے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھے جانے والے ماہرین اس لیے ناکام ہوئے کیونکہ ان کا نظام خود اپنے تقاضوں اور قوانین پر پورا اترنے میں ناکام ہے۔ تاریخی اور اقتصادی طور پر یہ اس قدر متروک ہو چکا ہے کہ اس کو چلانے کی سعی کرنے والے خود ناکامی و نامرادی کا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت تو امریکہ اور یورپ کی معیشتوں سے کہیں زیادہ پسماندہ، کمزور ہے۔ نئے ماہرین کو لا کر اور اقتصادی ٹیم کو بدل کر بھلا کیسے اس معیشت کو درست سمت پر چلایا یا بڑھایا جا سکتا ہے؟ 18ویں صدی کے دوسرے حصے میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان کی معیشت میں آج کے پاکستان سے ملتے جلتے معاشی بحران کا سامنا تھا تو انہوں نے 1773ء میں وارن ہیسٹنگز کو ایسٹ انڈیا پریزیڈنسی کا گورنر بنایا تھا۔ پاکستان کے ترقی پسند معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی اپنے مضمون میں اس ایسٹ انڈیا والی تبدیلی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''حفیظ شیخ جو آزمودہ کار نیلام کنندہ ہے اور رضا باقر جو عالمی سرمائے کی پہلی صف کے جرنیل ہیں‘ اس حملے کی قیادت کریں گے۔ اس کے بعد اور بھی آئیں گے۔ تاریخ شاید اپنے آپ کو دہرانے والی ہے۔ لیکن اس میں ایک فرق ہے۔ 18ویں اور 19ویں صدی کے ایکٹر برطانوی تھے جو برطانوی مفادات کے لئے عمل پیرا ہوئے اور آج کے ایکٹر پاکستانی ہیں جو عالمی سرمائے کے مفادات کے لئے متحرک ہوئے ہیں۔ گرتی ہوئی مغلیہ سلطنت کی طرح پی ٹی آئی کی ''منتخب جمہوری‘‘ حکومت سکڑ کر محض ایک بڑھک بازی کرنے والا غیر متعلق وجود بن کر رہ گئی ہے‘‘۔
آئی ایم ایف کی شرائط مزید ظلم ڈھائیں گی۔ وزیر اعظم صرف لارے ہی لگا سکتا ہے۔ لیکن کیا پہلی حکومتوں نے اس نظام زر کو چلانے اور طوالت دینے کے لئے کم ظلم کیے تھے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے پیشتر ہی اپنے 9 ماہ کے اقتدار میں جو اقدامات کیے ان سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ حکومت محنت کشوں اور محروموں کے خلاف ایک طبقاتی جنگ میں برسر پیکار ہو چکی تھی۔ اب سامراجیوں کی جنگی تدابیر اور صورتحال کو کرب ناک بنا دیں گے‘ لیکن عوام کے لئے مسئلہ یہ بھی ہے کہ سیاست اور سماج پر مسلط قوتیں اور نفسیات اس نظام سے باہر سنجیدہ سوچنا تو درکنار‘ سنجیدگی کے ساتھ تصور کرنے سے بھی سے گریزاں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی آئی ایم ایف کے پیکیج لیے اور اس کی پالیسیاں عوام پر مسلط کیں۔ نواز لیگ تو پارٹی ہی سرمایہ داروں، بڑے دکان داروں اور ٹھیکے داروں کی ہے۔ اس کا تو نصب العین ہی سرمایہ داری کی بقا ہے۔ تحریک انصاف نودولتیوں کی پارٹی ہے‘ جو اس کے لیڈروں اور کارندوں کے کردار، افکار اور عادات و اطوار سے ظاہر ہے۔ معاشی لحاظ سے جو صورتحال اب پیدا ہو چکی ہے‘ اس کی ملک کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ لیکن عوام کی تحریک اور سیاست کا المیہ یہ ہے کہ بہت سے ترقی پسند معیشت دان اور دانش ور اپنی کتابوں اور مضامین میں موجودہ حکومت اور اس نظام پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن اس نظام کا متبادل اسی نظام کا ایک دوسرا طریقہ واردات 'ریاستی سرمایہ کاری‘ یعنی (Keyensianism) ہی کو قرار دیتے ہیں۔ اگر ریاستی سرمایہ داری اس مسئلے کا حل ہوتی تو یہ 1974ء کے بعد سے پوری دنیا میں زوال پذیر اور سرمایہ داری کو طوالت و ترقی دینے میں ناکام کیوں ہوتی؟ نہرو اور بھٹو کے ''سوشلزموں‘‘ کی ناکامی اسی ریاستی سرمایہ داری کی نامرادی کا نتیجہ تھی۔ ذرائع ابلاغ میں بھی اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اصلاحات کی مکمل ''آزادی‘‘ ہے۔ کارپوریٹ مالکان کو بھی یہ پتہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے وجود کے برقرار رہنے سے ان کے پاس اپنی منافع خوری کے نئے نئے راستے نکل سکتے ہیں۔ اگر کسی چیز پر پابندی ہے تو اس نظامِ سرمایہ کے خاتمے اور اس کے متبادل انقلابی سوشلزم کے پرچار پر کہ جو دولت اور سرمائے کی طاقت کو توڑتا ہے، اور جس میں نہ صرف آئی ایم ایف کو ملک بدر کیا جائے گا بلکہ ان تمام سامراجی مالیاتی اداروں اور ممالک کے قرضے بھی ضبط کر لیے جائیں گے۔ اس سے بحران بھی آئے گا۔ پابندیاں بھی لگیں گی۔ سامراجیوں کا حملہ کرنے کے امکانات رد نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن اس ملک کی 85 فیصد سے زائد آبادی جو زندگی گزار رہی ہے اس کی خستہ حالی پابندیوں کے جبر اور قلت کی ذلت سے کچھ کم تو نہیں ہے۔ سوشلسٹ انقلاب سے اوپر کے دس پندرہ فیصدکو تکلیف تو ضرور ہو گی لیکن معاشرے کی وسیع تر محنت کش آبادی کو جو نسل در نسل اذیتوں کا شکار بنایا گیا ہے ایسے عذابوں کا یکسر خاتمہ ضرور ہو کر رہے گا۔