تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-05-2019

جھوٹ … کب تک اور کیوں؟

آسانیاں کسے اچھی نہیں لگتیں؟ سبھی چاہتے ہیں کہ زندگی میں قدم قدم پر آسانی ہو۔ مگر ایک قباحت ہے۔ تلاش کرنے کی عادت انسان کو کچھ ہی مدت میں اُس مقام تک پہنچادیتی ہے جہاں وہ معمولی سی مشکل کو دیکھ کر بھی حواس کھو بیٹھتا ہے۔ آج ہماری زندگی ایسی ہی الجھن سے دوچار ہے۔ ہم ہر معاملے میں صرف آسانیاں چاہتے ہیں۔ آسانی تلاش کرنا کسی بھی درجے میں کوئی بُری بات نہیں۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آسانی تلاش کرنے کے عمل کے منطقی تقاضوں کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم بہت سی مشکلات کو جھیلیں اور اُن کے تدارک کے لیے اتنی محنت کریں جتنی لازم ہے۔ 
دنیا کا کاروبار اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے کے اصول کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ ہم جس کائنات کا حصہ اس کا یہی معاملہ ہے۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ ہر چیز منطقی ہے۔ ہر معاملہ ایک طے شدہ طریق‘ منطق اور نظامِ کار کے تابع ہے۔ اگر معاملات کو درست رکھنا مقصود ہو تو کائنات کے اصولوں سے ذرّہ بھر اختلاف کی گنجائش نہیں۔ ان اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے بھی زندگی گزاری جاسکتی ہے‘ کام کیا جاسکتا ہے۔ ہاں‘ نتائج کچھ کے کچھ برآمد ہوں گے۔ اللہ نے ہمیں حق پسندی کی فطرت پر خلق کیا ہے۔ اللہ کی ذات برحق ہے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ اللہ کی خلق کی ہوئی کائنات کا ہے۔ معاملہ حق سے شروع ہوکر حق پر ختم ہوتا ہے۔ بیچ میں جھوٹ کی گنجائش نہیں۔ 
جھوٹ کی انٹری اُس وقت ہوتی ہے جب ہم دو اور دو کو پانچ یا تین قرار دینے پر تُل جائیں۔ کوئی بھی شخص معاملات کو غلط بیانی کے ذریعے بگاڑنے کی کوشش اسی وقت کرتا ہے جب حق کی راہ پر گامزن رہنے سے اس کے مفادات پر زد پڑتی ہو۔ حق کو تج کر جھوٹ کی راہ پر چلنا وہی شروع کرتا ہے جو حق نوازی کی صورت میں پہنچنے والے ''نقصان‘‘ سے بچنا چاہتا ہو۔ حق نوازی کی راہ پر چلنے سے نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ تو ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں جو ہمیں نقصان سے دوچار کر رہی ہوتی ہیں اور ہم نقصان سے بچنے کے لیے کچھ بھی کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ جھوٹ کا تعلق صرف بولنے سے نہیں ہوتا۔ اگر عمل تمام طے شدہ طریق ہائے کار اور تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف ہو یعنی زمینی حقیقت سے کماحقہ مطابقت نہ رکھتا ہو تو جھوٹا کہلائے گا۔ سچ بولنے سے گریز اور جھوٹ بولنے سے رغبت کا رجحان اگر پروان چڑھتا چلا جائے تو بہت کچھ‘ بلکہ سبھی کچھ بگڑ جائے‘ مسخ ہوکر رہ جائے۔ زندگی کی یہی کہانی ہے۔ ہم جھوٹ کی طرف جس قدر بڑھتے جاتے ہیں‘ زندگی اُسی قدر خرابیوں کی طرف لڑھکتی چلی جاتی ہے۔ جھوٹ میں آسانی ہے۔ ہم آسانی چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم جھوٹ کی طرف بہت تیزی سے مائل ہوتے ہیں اور پھر مائل ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لوگ دھکم پیل سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کوئی برباد ہوتا ہے تو ہوتا رہے‘ اپنے آپ کو آباد کرنا انسان کی اولین ترجیح کا درجہ رکھتا ہے۔ بیشتر معاشروں کا یہی حال ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں صورتِ حال زیادہ افسوسناک ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی مسابقت ہے مگر ایسی نہیں کہ لوگ ایک دوسرے کو جان سے مارنے کے درپے ہو جائیں۔ زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے‘ بروقت اور ضرورت کے مطابق میسر ہوں تو انسان کے اندر کا حیوان خاصی حد تک مر جاتا ہے۔ 
پاکستان کا شمار ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ آج بھی بنیادی سہولتوں تک کو ترس رہے ہیں۔ مسائل گوناگوں ہیں اور انتہائی پیچیدہ بھی۔ معاشی الجھنوں نے معاشرے کی اخلاقی‘ تہذیبی اور روحانی بنیادوں کو ہلادیا ہے۔ بہتر زندگی کی تلاش میں لوگ دوسروں کی زندگی کو بدتر بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ جس کا جہاں داؤ چل جاتا ہے‘ کھیل جاتا ہے۔ ایسے میں کم ہی ہیں جو سچ کی راہ پر چلنے کو تیار ہوں۔ پھر بھلا جھوٹ کو سکّہ رائج الوقت کا درجہ کیوں حاصل نہ ہو؟ آج ہم جھوٹ کی دلدل میں اُتر چکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں دھنستے ہی جارہے ہیں۔ معاملات کے بہتر ہونے کی اب تک کوئی سبیل دکھائی نہیں دی ہے۔ 
جھوٹ کو زیادہ مقبولیت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب لوگ طے کرلیتے ہیں کہ اپنی کسی بھی کوتاہی‘ خامی یا خرابی کے منطقی نتیجے کے طور پر پیدا ہونے والے نقصان کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور سارا ملبہ دوسروں پر گراکر جان چھڑائیں گے۔ اپنے مفاد کو ہر حال میں مقدم رکھنے کی خواہش اور کوشش ہمیں رفتہ رفتہ اُس مقام تک لے جاتی ہے جہاں ہمارے سامنے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فریب دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اخلاقی اقدار کی ناقدری کے حوالے سے آج بیشتر پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں کا حال بہت بُرا ہے۔ خرابیوں کا گراف دن بہ دن بلند ہو رہا ہے۔ زندگی کے بیشتر معاملات میں جھوٹ کی پوزیشن اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ فوری طور پر اصلاحِ احوال کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ معاملات کو احسن طریقے سے نمٹانے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے مفاد کا خیال رکھنے پر جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کی روش کو ترجیح دی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں اور دل اندیشوں میں گِھرے رہتے ہیں۔ ع
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟ 
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہر شخص جھوٹ کا شِکوہ کرتا ہے اور خود بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا۔ جھوٹ بول کر معاملات کا رخ تبدیل کرنے کی عادت زندگی کے تمام پہلوؤں کو خطرناک حد تک متاثر کرتی ہے۔ تھوڑا سا جھوٹ بول کر کچھ دیر کے لیے ریلیف کا اہتمام تو کیا جاسکتا ہے مگر ایسا کرتے رہنے سے پوری زندگی جھوٹ کی دلدل میں دھنس جاتی ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ سچ سے دامن چھڑاتے چھڑاتے جھوٹ کے آغوش میں ایسا سمایا ہے کہ گلوخلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اور دکھائی دے بھی کیسے؟ ہم خود بھی جھوٹ کی روش ترک کرنے کو تیار نہیں۔ حق اور راستی کی راہ اُنہی کو ملتی ہے جو اپنے معاملات درست کرنے کے لیے جھوٹ کی روش ترک کرنے پر آمادہ ہوں۔ یہ عمل غیر معمولی استقامت کا طالب ہے۔ برسوں میں پروان چڑھی ہوئی عادت کو پلک جھپکتے میں یا راتوں رات چھوڑا نہیں جاسکتا۔ 
ہر معاملے میں حقیقی ''وے آؤٹ‘‘ صرف ایک ہے ... سچ‘ اور کیا؟ ڈھنگ سے جینے کے لیے جھوٹ کو زندگی سے دیس نکالا دیئے بغیر چارہ نہیں۔ آج ہماری زندگی میں جھوٹ کو مرکزی ستون کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ سچ کو مرکزی ستون بنائے بغیر ہم اپنی زندگی کی عمارت کو کسی صورت مستحکم نہیں کرسکتے۔ فی الوقت پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں جھوٹ کو بہترین آپشن کی حیثیت سے قبول کرلیا گیا ہے۔ لوگ سچ بولنے سے یوں گریز کرتے ہیں گویا سچ بولنا کوئی انتہائی ناپسندیدہ عمل ہو! جب تک ہم جھوٹ کے حوالے سے شدید نفرت و اجتناب کا رویہ نہیں اپنائیں گے تب تک سچ کو بنیادی قدر کی حیثیت سے اپنانے کی گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved