تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-05-2019

نیت اور اہلیت

بالآخر آئی ایم ایف نے حکومت کی ناک کی لکیریں اور عوام کی چیخیں نکلوانے کے بعد تین سال میں چھ ارب ڈالر یعنی مبلغ دو ارب ڈالر سالانہ قرضہ دینے کا وعدہ بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں معاہدہ کر لیا ہے۔ شکر الحمدللہ۔
بعد از معاہدہ والی ذلّتیں تو ابھی پردہ غیب میں ہیں لیکن معاہدے کے دوران والی ذلتوں میں جو کمی واقع ہوئی اس کا سارا سہرا معاہدہ فائنل کرنے والی ٹیم کے سر جاتا ہے جو بذات خود آئی ایم ایف کی ہی بی ٹیم تھی۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو عزیزم اسد عمر کی وزارت لے ڈوبا اور ان کے رخصت ہوتے ہی سب کام سیدھا ہو گیا اور میز کے اس طرف اور دوسری طرف بیٹھے ہوئے حاضر سروس ملازمین اور تازہ تازہ فارغ شدہ ملازم کی سربراہی میں سابقہ ملازمین کی ٹیم نے آپس میں طے کر لیا کہ معاہدے کی شرائط کیا ہوں گی اور قرض کا شیڈول کیا ہو گا۔ چوہدری بھکن کا کہنا ہے کہ دونوں ٹیموں نے معاہدہ کا ڈرافٹ تیار کرتے ہوئے پاکستان کے بجائے آئی ایم ایف کا مفاد ہی عزیز تر رکھا کہ پاکستان کا کوئی باقاعدہ نمائندہ تو پاکستان کی نمائندگی کرنے والی ٹیم میں تھا ہی نہیں‘ اس کے مفادات کا تحفظ کس نے مدِنظر رکھنا تھا؟
چوہدری مجھ سے پوچھنے لگا کہ جب پاکستان کی نمائندگی بھی سابقینِ آئی ایم ایف نے کرنی تھی تو پھر دو ٹیمیں کس لیے تھیں؟ ایک ہی ٹیم، خواہ وہ آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازموں کی ہوتی یا سابقہ ملازمین پر مشتمل ہوتی‘ یہ فیصلہ کر لیتی کہ قرض کی شرائط کیا ہیں اور یہ ڈرافٹ منظوری کے لیے حکومت پاکستان کو دے دیتی جو معاہدہ کر کے پیسے لینے کے لیے انتہائی بے چین اور مضطرب تھی۔ حکومت شتابی سے معاہدہ منظور کر لیتی اور اللہ اللہ خیر سلا۔ میں نے کہا: چوہدری بہرحال معاہدے کے لیے ضروری ہے کہ دو فریق ہوں اور وہ خواہ دکھاوے کے لیے ہی سہی، مگر میز پر بیٹھ کر گفت و شنید کریں۔ یہ ''رول آف بزنس‘‘ ہے اس سے مفر اس لیے ممکن نہیں کہ اس کے بغیر معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بنتی۔ اس لیے فریقین کا ہونا قانونی طور پر ضروری ہے اور ''قانونی معاہدہ‘‘ بھی یہ کہتا ہے کہ یہ کم از کم دو فریقوں کے درمیان باہمی رضا مندی سے ہونا چاہئے۔ اگر دو فریق ہی نہ ہوں تو معاہدہ کیسا؟ سو میز کی ایک طرف بھی آئی ایم ایف کی ٹیم حاضر سروس تھی اور میز کی دوسری طرف آئی ایم ایف کی ''لانگ لیو‘‘ پر آئی ہوئی ٹیم تھی۔ اس دلچسپ جوڑ کو دیکھ کر پہلے شفیق الرحمان یاد آئے اور پھر سعادت حسن منٹو کا ''چچا سام‘‘ کے نام تحریر کردہ خط۔ پہلے شفیق الرحمان۔
شفیق الرحمان میرے لڑکپن کا عشق ہے۔ میرے پاس شفیق الرحمان کی ساری کتابیں لائبریری میں تھیں لیکن ہر کتاب مختلف حلیے کی۔ کوئی کسی پبلشر کی اور کوئی کسی دوسرے کی۔ کسی کا ایڈیشن کوئی اور کسی کا کوئی۔ کوئی پیپر بیک والی اور کوئی مجلد۔ ایک سرورق سے دوسرا نہیں ملتا تھا۔ یہ سب کتابیں گزشتہ پینتیس چالیس سال کے دوران مختلف اوقات میں خریدی گئی تھیں اور چوری یا گم ہونے کی صورت میں دوبارہ، سہ بارہ بھی خریدی گئی تھیں‘ لہٰذا ایک سے دوسری نہیں ملتی تھی۔ گزشتہ سے پیوستہ سال ''سنگ میل پبلشر‘‘ کے روح رواں افضال بھائی کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک شفیق الرحمان کے نئے طبع شدہ سیٹ پر نظر پڑی۔ ایسے ہی دل مچل اٹھا اور سارا سیٹ جو ایک ہی کلر اور ڈیزائن میں تھا‘ اٹھا لیا۔ اٹھاتے ہوئے شرم آ رہی تھی اور خواہش پر قابو بھی نہیں پایا جا رہا تھا۔ شرم اس بات کی کہ مجھے یقین تھا کہ افضال نے اس سیٹ کے پیسے نہیں لینے۔ ابھی میں اسی گومگو میں تھا کہ خدا جانے افضال نے کیسے دل کی بات پا لی اور کہنے لگا: خالد صاحب! یہ دیکھیں شفیق الرحمان کا نیا سیٹ آیا ہے۔ پھر میرے بغیر کہے لڑکے کو کہا کہ یہ سیٹ باہر خالد صاحب کی گاڑی میں رکھوا دیں۔ سو یہ سیٹ اب میری لائبریری میں الماری کے سامنے والی طرف لگا ہوا ہے اور ساری پرانی کتابیں اس نئے سیٹ کے عقب میں آرام فرما رہی ہیں۔
بات کہیں اور چلی گئی۔ شفیق الرحمان کی کتاب ''مزید حماقتیں‘‘ کا پہلا مضمون ہے ''تزک نادری عرف سیاحت نامہ ہند‘‘۔ اس مضمون میں نادر شاہ کے دہلی پر حملے، قتل عام اور وہاں کے بود و باش پر مزاحیہ انداز میں خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ شفیق الرحمان نے اس میں نادر شاہ اور مغل بادشاہ محمد شاہ عرف محمد شاہ رنگیلا کے درمیان جنگ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ''جہلم، چناب اور راوی عبور کر چکے تھے۔ ستلج عبور کیا اور پنجاب کے پانچویں دریا کو بہت ڈھونڈا۔ خبر ملی کہ بیاس تو پہلے ہی ستلج میں مل چکا ہے۔ سخت مایوسی ہوئی۔ مصاحبین نے دست بستہ عرض کی کہ اہل ہند کا دستور ہے کہ حملہ آوروں سے اس علاقے میں ضرور لڑتے ہیں۔ اس کے لیے پانی پت، تراوڑی وغیرہ کے میدان مخصوص ہو چکے ہیں۔ ہم نے (نادر شاہ) فرمایا کہ لڑیں تب اگر مقابلے میں کوئی فوج آئی ہو‘‘۔ پس ثابت ہوا کہ لڑائی کے لیے جس طرح دوسری فوج کا ہونا ضروری ہے اسی طرح مذاکرات و معاہدہ جات وغیرہ کے لیے بھی دو فریقین کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے دوسرے فریق کی خانہ پری کرنے کے لیے مجبوراً آئی ایم ایف کو خود ہی فریضہ سر انجام دینا پڑا اور میز کی دونوں جانب اپنی ہی ٹیمیں بٹھانا پڑیں۔ اسی سے دراصل سعادت حسن مرحوم کی یاد آ گئی۔
سعادت حسن منٹو نے اپنی کتاب ''اوپر، نیچے، درمیان‘‘ میں کئی افسانوں کے علاوہ چچا سام (امریکہ) کے نام چھ سات خطوط بھی تحریر کیے‘ جو خاصے کی چیز ہیں۔ آج قریب چھ سات عشرے گزرنے کے باوجود ان خطوط میں ایسی تازگی ہے کہ لگتا ہے کہ کل ہی لکھے گئے ہیں۔ ان میں وہ تیسرے خط میں لکھتے ہیں ''امریکی کوٹ بہت خوب ہیں‘ لنڈا بازار ان کے بغیر بالکل لنڈا تھا، مگر آپ پتلونیں کیوں نہیں بھیجتے؟ کیا آپ پتلونیں نہیں اتارتے؟ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان روانہ کر دیتے ہوں۔ آپ بڑے کائیاں ہیں ضرور کوئی بات ہے ادھر کوٹ بھیجتے ہیں، اُدھر پتلونیں۔ جب لڑائی ہو گی تو آپ کے کوٹ اور آپ ہی کی پتلونیں، آپ ہی کے بھیجے ہوئے ہتھیاروں سے لڑیں گی‘‘۔ اس معاہدے میں بھی وہی ہوا۔ آئی ایم ایف کی اتاری ہوئی پتلونیں اور پہنے ہوئے کوٹ آمنے سامنے بیٹھے ایک دوسرے سے مذاکرات اور معاہدہ کر رہے تھے۔
اس معاہدے کا فوری مثبت اثر تو یہ ہوا ہے کہ ڈالر ایک سو پچاس روپے کی ایسی بلندی کو چھونے لگا ہے‘ جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے روپے کو جو تاریخی جوتے پڑ رہے ہیں وہ مسمی اسحاق ڈار مفرور کی وجہ سے ہی پڑ رہے ہوں گے کیونکہ سارا کیا دھرا اسی کا ہے۔ رہ گئے موجودہ حکمران، تو انہوں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تو پھر ڈالر کی لوٹ مار کا ملبہ موجودہ حکومت پر کس طرح ڈالا جا سکتا ہے؟ حالانکہ گزشتہ دنوں ہی عمران خان نے کہا تھا کہ ڈالر کا ریٹ مزید نہیں بڑھے گا۔ اور کیا کیا جائے؟ ڈالر ایک نہایت ہی گستاخ کرنسی ہے اور بھلا گستاخ کیوں نہ ہو؟ اس کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے ہے، امریکی بھلا ہم سے کہاں قابو آتے ہیں جو ان کی کرنسی آئے گی؟ ویسے بھی زمانے کی ساری ہوا ہی الٹی چل رہی ہے۔ حکومت جو بھی دعویٰ کرتی ہے نتیجہ اس کے بالکل ہی الٹ نکل رہا ہے۔
چوہدری مجھ سے کہنے لگا: یہ موجودہ حکومت کئی ماہ سے صرف اس چھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے ترلوں پر اتری ہوئی تھی جو اسے یکمشت نہیں بلکہ تین سالہ اقساط پر ملیں گے۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ہر ماہ تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لیے اتنی رقم درکار ہے‘ جو آئی ایم ایف ہمیں پورے ایک سال میں دے گا۔ باقی گیارہ ماہ کیا بنے گا؟ زرمبادلہ کے ذخائر بھی سنا ہے دس ارب سے کم رہ گئے ہیں۔ آگے کیا ہوگا؟ چلیں پہلے حکمران تو کرپٹ تھے۔ ہر روز بارہ ارب کرپشن کی نذر ہو رہے تھے۔ اس بیانیے پر عمران خان نے بڑی ہمدردیاں سمیٹیں اور مقبولیت بھی حاصل کی۔ اب گزشتہ نو ماہ میں وہ اس بارہ ارب روپے روزانہ والی کرپشن کو کیوں نہیں روک سکے؟ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی تو کرپٹ تھی، چور تھی، بے ایمان تھی، کمیشن ایجنٹ تھی اور منی لانڈرنگ میں مصروف تھی‘ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟اب یہ ایماندار پارٹی بارہ ارب روزانہ کی کرپشن کیوں نہیں روک رہی؟ اگر یہ لوگ صرف یہ بارہ ارب روزانہ والی کرپشن روک لیتے تو نو ماہ کے دو سو ستر دنوں میں تین ہزار دو سو چالیس ارب روپے اکٹھے کر سکتے تھے۔ یہ رقم ایک سو پچاس روپے کا ڈالر بھی لگائیں تو دو سو سولہ ارب ڈالر اکٹھے کر سکتے تھے اور اس میں سے آئی ایم ایف کا سارا قرضہ اس کے منہ پر مارا جا سکتا تھا۔ لیکن گفتگو اور کام میں اتنا ہی فرق ہے جتنا نیت اور اہلیت میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved