تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     19-05-2019

بھارتی انتخابات: جمہوریت کا میلہ…(1)

پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں گزشتہ ماہ کی دس تاریخ سے مرحلہ وار پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس کالم کے چھپنے تک ایک مہینے سے زائد عرصہ پر محیط اس طویل عمل کا ساتواں اور آخری مرحلہ مکمل ہو رہا ہو گا۔ اب صرف ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان باقی ہے۔ بھارت کے انتخابات میں ووٹرز چونکہ الیکٹرانک مشین استعمال کرتے ہیں اس لئے ووٹوں کی گنتی اور نتائج کے اعلان میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ سارا عمل 23 مئی کو مکمل ہو جائے گا اور اُسی دن نتائج کا بھی اعلان کر دیا جائے گا۔ بھارت میں یہ 17ویں پارلیمانی انتخابات ہیں اور اس سے پہلے ہونے والے تمام انتخابات کے مقابلے میں متعدد منفرد خصوصیات کے حامل ہیں۔ مثلاً اس دفعہ اہل ووٹرز کی تعداد 90 کروڑ ہے جو کہ پانچ سال قبل یعنی 2014ء میں ہونے والے انتخابات کے مقابلے میں 9 کروڑ زیادہ ہے۔ ان میں کروڑوں ایسے رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جو پہلی دفعہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا کی کل 545 نشستیں ہیں‘ لیکن دو نشستیں ریزرو ہیں اور انتخابات 543 نشستوں کیلئے ہو رہے ہیں‘ جن کو جیتنے کیلئے تقریباً دو ہزار سیاسی پارٹیوں کے نامزد کردہ 8000 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ بھارت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا اور رقبے کے لحاظ سے ساتواں سب سے بڑا ملک ہے‘ جس کے 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام مرد و زن انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔ اس لئے ملک میں جب بھی ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو اسے انتخابات کی بجائے ''جمہوریت کا میلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
جمہوریت کے اس میلے کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری بھارت کے الیکشن کمیشن کے سپرد ہے۔ اس دفعہ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کے انعقاد کیلئے 10 لاکھ پولنگ سٹیشنز قائم کیے جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے اور اس تمام ایکسر سائز پر خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ 500 بلین بھارتی روپے ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے وسیع و عریض ہونے کی وجہ سے بھارت میں نہ صرف قومی اور ریاستی (صوبائی) انتخابات‘ دونوں ایک ساتھ منعقد نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی پارلیمانی انتخابات ایک دن میں منعقد کرنا ممکن ہے کیونکہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کے عملے کو دور دراز مقامات پر جانا پڑتا ہے۔ اس لئے مرحلہ وار انتخابات ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے عملے کو ان دور دراز مقامات پر اپنی ڈیوٹیاں ادا کرنے کیلئے مختلف ذرائع آمدورفت استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں بروقت پہنچنے کیلئے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں رسائی صرف کشتیوں کے ذریعے ممکن ہے اور بعض مقامات ایسے ہیں جہاں نہ ہوائی جہاز، نہ ہی ریل جا سکتی ہے بلکہ اونٹوں اور ہاتھیوں پر بیٹھ کر جانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں انتخابی عملے کو پیدل چل کر پہنچنا پڑتا ہے۔ بھارت میں لوک سبھا کے سب سے پہلے انتخابات 1951-52ء میں چار ماہ (نومبر 1951ء سے فروری 1952ئ) پر محیط تھے اور 60 سے زائد مرحلوں میں مکمل ہوئے تھے۔ اس وقت بھارت کی آبادی اور ووٹ ڈالنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد بھی کم تھی۔ اس کے علاوہ ووٹ ڈالنے کا تناسب یعنی ٹرن آؤٹ صرف 45 فیصد تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ الیکشن کمیشن کی مشینری اتنی مضبوط اور منظم نہ تھی اور عوام میں بھی انتخابات اور ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگاہی کم تھی۔ ایک وجہ تعلیم کی کمی اور میڈیا کی پس ماندگی بھی تھی۔ بھارت میں جب پہلے انتخابات ہوئے تو اُس وقت 85 فیصد لوگ اَن پڑھ تھے۔ جوں جوں تعلیم کا معیار بلند ہوا اور ذرائع اطلاعات میں ترقی ہوئی تو بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والے ووٹرز اور سیاسی پارٹیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ گزشتہ یعنی 2014 کے انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 66 فیصد سے زائد تھا جو کہ ایک ریکارڈ سمجھا جاتا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ 17ویں لوک سبھا کے انتخابات میں یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا کیونکہ انتخابات کے پہلے مرحلے ہی میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 69.43 فیصد تھا۔ بعض ریاستوں جیسے آسام اور بنگال میں اس کی شرح 80 فیصد تک رہی ہے۔ سب سے کم مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہی‘ جہاں ریاست میں بھارت کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر کشمیریوں کی بڑی تعداد نے پولنگ کا مکمل بائیکاٹ کئے رکھا‘ مگر بھارت کے دیگر علاقوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح پہلے کے مقابلے میں بہت بلند رہی۔ اس کی سب سے اہم وجہ بھارت کی نوجوان نسل میں سوشل میڈیا کا استعمال ہے۔ بھارت کی سوا کروڑ آبادی کا دو تہائی حصہ ان مردوں اور عورتوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں 35 برس سے کم ہیں۔ اس عمر کے لوگوں میں سوشل میڈیا کے استعمال میں گزشتہ چند برسوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ ایک انداز کے مطابق بھارت میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 50 کروڑ کے قریب ہے۔ 43 کروڑ افراد کے پاس سمارٹ فون ہیں اور Whatsapp پر پیغامات بھیجنے والوں کی تعداد 20 کروڑ ہے۔ جو لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں ان کی تعداد 30 کروڑ ہے اور تین کروڑ کے قریب لوگوں کا ٹویٹر اکاؤنٹ ہے۔ اس کے علاوہ متحارب گروپ یعنی بی جے پی کی قیادت میں تشکیل پانے والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) اور کانگرس کی قیادت میں سرگرم یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (UPA) کی طرف سے ملک کے تمام علاقوں میں بیسیوں جلسوں اور جلوسوں سے خطاب کر کے ووٹروں کو بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔ پہلے کی طرح اس دفعہ بھی نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی انتخابی مہم میں انتہا پسند ہندو جماعت آر ایس ایس کے لاکھوں رضاکار کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں راہول گاندھی‘ جو پہلی دفعہ کانگرس کے صدر کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ نے بھی ریکارڈ جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ انتخابات کے آخری دو مرحلوں کے آغاز تک انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں جن جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کیا‘ اُن کی تعداد 160 بنتی ہے۔ راہول گاندھی کے علاوہ اُن کی بہن پریانیکا گاندھی نے بھی کانگرس کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اُن کی مہم زیادہ تر اتر پردیش تک محدود رہی اور اب تک وہ درجنوں جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کر چکی ہیں۔ مبصرین کے نزدیک پریانیکا گاندھی کی شمولیت سے کانگرس کی انتخابی مہم میں جان پڑ گئی ہے کیونکہ نہرو خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے ووٹروں کیلئے اُن میںکافی کشش ہے۔ ٹرن آؤٹ میں اضافے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض ریاستوں مثلاً مغربی بنگال‘ جہاں سے اُتر پردیش (80 نشستیں) کے بعد لوگ سبھا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ یعنی 42 اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں، میں بی جے پی ممتا بینرجی کی ترینامول کانگرس کی ریاستی حکومت کو شکست دینا چاہتی ہے اور وہاں گھمسان کا رن پڑنے کا اندیشہ ہے۔ مغربی بنگال میں ریاستی انتخابات 2016ء میں ہوئے تھے اور اس میں ممتا بینر جی کی پارٹی نے بی جے پی کو شکست دی تھی۔ نریندر مودی مغربی بنگال سے لوک سبھا کی بیشتر نشستوں پر قبضہ کر کے 2021ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ تامل ناڈو کی جیا للیتا کی وفات کے بعد ممتاز بینر جی جنوبی بھارت میں واحد علاقائی رہنما ہیں جو نظریاتی طور پر بی جے پی کی سب سے مضبوط حریف ہیں۔ ممتا بینر جی، نریندر مودی کے انتہا پسندانہ ہندو نظریے، ہندوتوا کی سب سے بڑی مخالف ہیں اور اس بات پر فخر کرتی ہیںکہ ان کے دور میں ریاست میں کبھی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ بی جے پی کیلئے مغربی بنگال کا معرکہ سر کرنا کتنا اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست میں پارٹی کی انتخابی مہم کی باگ ڈور، بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ منگل کو امیت شاہ ایک جلوس کی قیادت کر رہے تھے کہ ترینامول کانگرس کے ورکرز کے ساتھ کلکتہ کے نواح میں تصادم ہو گیا۔ اس تصادم میں بی جے پی اور ترینامول سے تعلق رکھنے والے متعدد ورکرز زخمی بھی ہوئے۔ فریقین میں سخت کشیدگی کے باعث اور کسی مزید ممکنہ تصادم کو روکنے کیلئے بھارت کے الیکشن کمیشن نے آخری مرحلے تک دونوں پارٹیوں کی انتخابی مہم میں ایک دن کی کمی کر دی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved