تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     19-05-2019

ڈاکو فرینڈلی پولیس

پچھلے ہفتے اسلام آباد کے سیکٹر جی تیرہ میں دن کے ساڑھے بارہ بجے ایک معروف بینک میں ڈاکہ پڑا۔ بینک جی تیرہ ون کی مارکیٹ کے عین درمیان میں ہے۔ ارد گرد تیس چالیس دکانیں ہیں۔ مگر ڈاکو لاکھوں روپے لے کر بڑے آرام سے فرار ہو گئے۔ لگتا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ شاید پولیس کے بارے مطمئن تھے کہ وہ انہیں کچھ نہیں کہے گی۔ شواہد سے لگتا ہے کہ یہ عام ڈاکو نہیں تھے بلکہ انتہائی تربیت یافتہ اور خود اعتماد لوگ تھے۔ اس دن بینک سے اٹھارہ لاکھ روپے چھینے گئے۔
دو تین ہفتے پہلے اخبار میں پڑھا کہ اسلام آباد کے مختلف تھانوں سے تین سو بندوقیں غائب ہیں۔ پہلے ایسی خبریں پنجاب پولیس کے بارے میں سنا کرتے تھے۔ اب فیڈرل پولیس بھی پیچھے نہیں۔ 2016ء میں چیف جسٹس صاحب نے بیان دیا تھا کہ ہمیں علم ہے‘ کئی تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں۔ اب اگر ایک تھانیدار اتنی خطیر رقم خرچ کر کے اپنی پوسٹنگ کراتا ہے تو کیا وہ یہ رقم کسی نہ کسی طرح پوری نہ کرتا ہو گا۔ تو چہ عجب کہ لوگوں کا پولیس سے بھروسہ اٹھ گیا ہے اور اب ہر متمول شخص کے گھر کے باہر ایک بندوق بردار گارڈ بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت حکومت کا اولین فرق ہے اور یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ پولیس کو تنخواہیں میرے اور آپ کے ٹیکسوں سے ملتی ہیں۔
آج 19 مئی ہے اور جی تیرہ سیکٹر میں ہی واقع میرے اپنے گھر میں 2010ء میں پڑنے والے ڈاکے کو آج نو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ چاروں ڈاکو پڑھے لکھے اور چاک و چوبند نوجوان تھے۔ دوران واردات ان سے مکالمہ ہوتا رہا۔ جب اُن سے استفسار کیا کہ آپ نے گھر کی دیواروں پر لگے ہوئے خاردار تار کیسے عبور کئے تو جواب ملا: ہمارے لئے یہ کام چنداں مشکل نہیں‘ ہم ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔ جاتے جاتے ہمیں دعا دے کر گئے کہ زکوٰۃ باقاعدگی سے دیا کریں اللہ آپ کو اور دے گا۔
لیکن یہ ڈاکو ایک حوالے سے اناڑی نکلے۔ وہ جاتے ہوئے ہمارے تین موبائل فون ساتھ لے گئے؛ البتہ ان سب کے سمیں نکال کر پھینک گئے۔ اُن دنوں ایک حساس ادارے کے سربراہ میرے پرانے دوست تھے۔ اللہ مغفرت کرے جاوید نور مرحوم بہت اچھے پولیس آفیسر اور اس سے بڑھ کر نفیس انسان تھے۔ میں ان کے پاس گیا تو کہنے لگے: فکر نہ کریں، ہم بہت جلد آپ کے فون ٹریس کر لیں گے اور عین ممکن ہے کہ آپ کے مجرم بھی پکڑے جائیں۔
وقوعہ کے بیس روز بعد ہمارا پہلا فون استعمال ہوا اور یہ کال بارہ کہو میں مقیم ایک خاتون شاہین بی بی دختر مجنوں نے کی تھی۔ فون میں استعمال شدہ سم اس کے بھائی ظفیر احمد ولد مجنوں کی تھی۔ گولڑہ پولیس نے شاہین کو فوراً گرفتار کر لیا لیکن اگلے ہی روز اس کی ضمانت ہو گئی۔ یادش بخیر جنرل مشرف صنفِ نازک کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ ان کے عہد میں ایک عدد قانون وضع ہوا کہ خواتین ملزموں کی ہر جرم میں ضمانت ہو سکتی ہے‘ ماسوائے قتل کے۔ چونکہ شاہین بی بی سے صرف مالِ مسروقہ برآمد ہوا تھا تو ضمانت میں چنداں دشواری نہ ہوئی۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالا قانون کے بعد پاکستانی خواتین میں جرائم کا رجحان بڑھا ہے۔
جب یہ واردات ہوئی تو کلیم امام اسلام آباد کے آئی جی تھے۔ میں اُن سے فوراً ملا۔ اُن کے والد ایک زمانے میں فارن آفس میں کام کرتے تھے۔ کلیم امام خود بڑے با اخلاق ہیں۔ میں نے کہا کہ ہمارا سیکٹر ابھی زیر تعمیر ہے اور میرا گھر ایک کونے میں ہے‘ ارد گرد کوئی گھر نہیں۔ آئی جی صاحب نے دو حکم دیئے۔ اولاً یہ کہ ایس ایس پی خود جا کر جائے وقوعہ کو دیکھیں؛ چنانچہ ایس ایس پی طاہر عالم خان‘ جو بعد میں خود بھی آئی جی اسلام آباد بنے‘ ہمارے گھر آئے۔ ڈی ایس پی جمیل ہاشمی دو مرتبہ آئے۔ کلیم امام صاحب کا دوسرا آرڈر تھا کہ میرے گھر کے ارد گرد روزانہ رات کو پولیس کا گشت ہونا چاہئے۔ ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے گولڑہ تھانے والے بھی متحرک رہے۔ 
ظفیر احمد ولد مجنوں‘ جس کی فون سم ہمارے موبائل میں استعمال ہوئی تھی‘ کے شناختی کارڈ پر ایڈریس اٹھمقام آزاد کشمیر کا تحریر تھا۔ اب پولیس سمجھ گئی کہ ڈاکو کہاں سے آئے تھے۔ وہ واردات کے فوراً بعد اپنی بہن شاہین بی بی کے گھر بارہ کہو گئے۔ اُسے کمال فیاضی سے ہمارا ایک فون تحفہ دیا اور واپس اٹھمقام چلے گئے۔ اسلام آباد پولیس اس گینگ سے عرصے سے واقف ہے۔ وہ سب اشتہاری تھے اور ایک قتل کی واردات میں بھی ملوث تھے۔
اب کہانی میں ایک موڑ ایسا آیا جس نے اسے پیچیدہ تر بنا دیا۔ ظفیر احمد مجاہد بٹالین سے تعلق رکھتا تھا۔ مجاہد بٹالین والے جز وقتی فوجی ملازم ہوتے ہیں اور صرف بوقت ضرورت بلائے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا ظفیر احمد بھی اس واردات میں شریک تھا؟ مجاہد بٹالین کے ریکارڈ کے مطابق وہ وقوعہ کی رات اپنی ڈیوٹی پر تھا۔ پھر بھی اسے پکڑ کر اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا گیا تاکہ میں اور میرے فیملی ممبر اُسے دیکھ لیں۔ ہم نے گولڑہ پولیس سٹیشن جا کر اُسے دیکھا مگر وہ ڈاکوئوں کے سرغنہ سے مختلف نکلا۔ ڈاکوئوں کا سرغنہ دراصل نصیر احمد ولد مجنوں تھا جو ظفیر احمد کا سوتیلا بھائی ہے۔ ظفیر احمد چونکہ بے گناہ تھا لہٰذا اُسے واپس اس کی یونٹ بھیج دیا گیا۔ مجھے ظفیر نے ایس ایچ او محبوب کی موجودگی میں بتایا کہ نصیر میرا بھائی ضرور ہے اور وہ ڈاکے بھی ڈالتا ہے لیکن میرا اُس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
دوسرے دو مسروقہ ٹیلیفون بھی راولپنڈی اور آزاد کشمیر سے مل گئے۔ چند ماہ بعد جاوید نور سروس سے ریٹائر ہو گئے اور کلیم امام کی ٹرانسفر ہو گئی اور ساتھ ہی اسلام آباد پولیس کی اس کیس میں دلچسپی بھی واضح طور پر کم ہونے لگی۔ میں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کیا۔ اُن کے آفس سے فون آیا کہ وزیر صاحب نے نادرا کو حکم دیا ہے کہ اس جرم میں ملوث لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کر دیئے جائیں۔ کچھ عرصہ بعد چوہدری صاحب وزارت سے علیحدہ ہو گئے اور ہمارا کیس بھی پولیس بھول گئی۔ 
2016ء کے آغاز میں پولیس کے ریٹائرڈ آئی جی ملک نذیر صاحب نے مشورہ دیا کہ ملک خدا بخش آزاد کشمیر کے نئے آئی جی لگے ہیں اور بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں اُن سے رابطہ کریں؛ چنانچہ میں نے ملک صاحب کو خط لکھ دیا۔ اس خط کے نتیجہ میں ایک ڈاکو محمد بشیر ولد محمد اکبر پکڑا گیا۔ میں نے اور میری وائف نے علیحدہ علیحدہ اس کی اڈیالہ جیل جا کر شناخت کی۔ ہم نے اسے فوراً پہچان لیا۔ ہمارا خیال تھا کہ اب باقی ڈاکو بھی پکڑے جائیں گے۔ چند روز بعد اسلام آباد کی ہی کسی عدالت سے اس ڈاکو کی ضمانت پر رہائی ہو گئی اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
میرا مشاہدہ ہے کہ ہماری پولیس وکٹ کے دونوں جانب کھیلتی ہے۔ اسے جب معلوم ہو کہ مدعی اثر و رسوخ والا ہے تو خوب پھرتیاں دکھاتی ہے لیکن یہ صرف دکھلاوا ہوتا ہے۔ اتنی دیر میں ملزم پولیس سے ملاپ کر لیتے ہیں۔ مال مسروقہ میں سے کچھ حصہ پولیس کو مل جاتا ہے۔ اس موقع پر پولیس مدعی کو کہتی ہے ''سر جی آپ کی قسمت ہی ٹھنڈی ہے ڈاکو نظر آتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں‘‘۔ ہماری پولیس کو یہ احساس ہی نہیں کہ فوجداری کیس میں اصل مدعی ریاست ہوتی ہے کیونکہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کا اولین فرض ہے۔
اگست 2016ء میں سردار مسعود خان آزاد کشمیر کے صدر بنے۔ میرے وہ فارن سروس کے کولیگ رہے تھے۔ اس خاندانی شخص میں شرافت اور لیاقت دونوں کی فراوانی ہے۔ میں نے انہیں خط لکھا کہ چند گندے انڈے پورے آزاد کشمیر کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان کے دفتر سے آئی جی اے جے کے کو خط لکھا گیا۔ ملک خدا بخش جا چکے تھے۔ نئے آئی جی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔
آج تھانہ گولڑہ کی ایف آئی آر نمبر 119 مورخہ 19 مئی 2010ء چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہے کہ میرا کیا بنا اور ڈاکو اٹھ مقام کی پہاڑی پر بیٹھے گنگنا رہے ہوں گے: جب سیاں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved