دنیا کا ہر انسان کامیاب زندگی بسر کرسکتا ہے‘ مگر یہ ایسا آسان نہیں کہ کہہ دیا اور ہوگیا۔ زندگی کو حقیقی معنوں میں کامیابی سے ہم کنار کرنے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے‘ بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ کامیابی انسان سے ایثار چاہتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے لیے بھی ایثار لازم ہے۔ ہم میں سے کون ہے‘ جو زندگی بھر بھرپور کامیابی کیلئے کوشاں نہیں رہتا؟ یا کم از کم خواہش تو رکھتا ہی ہے‘ مگر کیا محض خواہش کرلینے سے ہمارا بھلا ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ کائنات کا ہر اصول ہم پر اطلاق پذیر ہے۔ یہ کائنات دو اور دو چار کے اصول کی بنیاد پر قائم ہے اور کام بھی اسی اصول کی بنیاد پر کر رہی ہے؛ اگر ہم کائنات کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کردیں‘ تو کسی بھی حوالے سے قابلِ رشک کامیابی یقینی بنانا ممکن نہیں ہوسکتا۔
ہم میں سے بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ زندگی بھر غیر معمولی کامیابی سے ہم کنار ہونے کی کوشش تو کرتے ہیں ‘مگر کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا سبب ہے کہ دن رات محنت کرنے پر بھی لوگ وہ کامیابی یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے جس کا خواب وہ دیکھتے آئے ہوں؟ ایسی کون سی کسر رہ جاتی ہے‘ جس کے باعث سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے؟
کامیابی یقینی بنانے کیلئے انسان کو جن چند باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑتا ہے‘ اُن میں صلاحیت‘ سکت اور کام کرنے کی لگن نمایاں ہیں؛ اگر کسی میں صلاحیت ہو ‘مگر کام کرنے کی طاقت نہ رہی ہو تو وہ زیادہ دور نہیں جاسکتا۔ کام کرنے کی صلاحیت بھی ہو اور سکت بھی پائی جاتی ہو‘ مگر کام کرنے کی لگن نہ ہو‘ تب بھی انسان کچھ نہیں کر پاتا۔ کام کرنے کی لگن پیدا کرنے کا کوئی طے شدہ فارمولا ہمارے پاس نہیں۔ کچھ لوگ کام کرنے کے ایسے عادی ہوتے ہیں کہ رفتہ رفتہ اُنہیں کام کرنے کی لَت سی پڑ جاتی ہے۔ لَت چاہے کسی بھی چیز کی ہو‘ نقصان دہ ہوتی ہے۔ کام کرنے کی لَت البتہ تھوڑی سی منفرد ہے۔ یہ لَت انسان کو بہت سے حسین لمحات سے محروم رکھتی ہے‘ مگر جیب بھری رکھنے میں کلیدی کردار بھی تو ادا کرتی ہے! جیب بھری ہو تو انسان دیگر معاملات میں رہ جانے والی کمی یا خامی کو دور کرنے کی لگن بھی اپنے اندر پیدا کر ہی لیتا ہے۔ کسی بھی اور لَت کے مقابلے میں کام کرنے کی لَت انسان کو بہت خوش رکھتی ہے۔
خیر‘ بات ہو رہی تھی کامیابی یقینی بنانے کے طریق کی۔ صلاحیت‘ سکت اور لگن ؛ یہ تینوں صفات‘ جس انسان میں یکجا ہوں وہ بہت کچھ کرسکتا ہے‘ مگر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ان تینوں صفات سے مزیّن ہونے پر بھی زندگی کے خاکے میں کامیابی کا رنگ نہیں بھر پاتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کسی بھی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں بھرپور کامیابی تو لازمی قرار پانی چاہیے‘ پھر کیا سبب ہے کہ کچھ لوگ باصلاحیت‘ باسکت اور محنتی ہونے کے باوجود کامیابی کی راہ پر زیادہ دور تک چل نہیں پاتے؟
صلاحیت‘ سکت اور لگن کے باوجود ناکامی کے ہاتھ لگنے کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک تو ہے انسان کی طرزِ فکر و عمل اور دوسرے نمبر پر ہے تعلق‘ نسبت یا مطابقت۔ کچھ باصلاحیت لوگ بہت محنت کرتے ہیں‘ مگر اپنی طرزِ فکر و عمل کو درست رکھنے پر غور نہیں کرتے۔ سوچ میں پیدا ہونے والی کجی اُن کے عمل کو بھی ٹیڑھا کردیتی ہے؛ اگر سوچ کی سمت درست نہ ہو تو کام کرنے کی صلاحیت اور سکت بھی زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوتیں۔
کسی بھی معاملے کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے میں ربط‘ تعلق اور مطابقت کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ ہم عمومی سطح پر یہ حقیقت نظر انداز کردیتے ہیں۔ بہت سے لوگ باصلاحیت بھی ہوتے ہیں اور محنت بھی بہت کرتے ہیں‘ مگر مطابقت کا خیال نہیں رکھتے۔ جب جب جو کچھ کرنا ہوتا ہے ‘تب تب وہ لوگ ویسا نہیں کرتے۔ اس کے نتیجے میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور محنت رائیگاں چلی جاتی ہے‘ جس وقت انسان کو جہاں ہونا چاہیے‘ اس وقت وہاں ہی ہونا چاہیے‘ کہیں اور نہیں؛ اگر کسی نے سال بھر دل لگاکر پڑھا ہو‘ بہت کچھ سیکھا ہو اور لکھنے کی بھی خوب مشق کی ہو تب بھی کامیابی اسی وقت ہاتھ لگے گی‘ جب وہ کمرۂ امتحان میں بیٹھے گا اور وہاں ذہن کو حالت ِ قرار میں رکھتے ہوئے بھرپور محنت کرے گا۔ سال بھر کی جانے والی مشق؛ اگر کمرۂ امتحان میں دم توڑ دے یا ڈھیلی پڑ جائے تو؟
فرانس کے معروف حکمران نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ کسی بھی معرکہ آرائی کیلئے خوب تیاری کیجیے‘ خوب سوچئے‘ مگر جب لڑائی کیلئے میدان میں داخل ہونے کا وقت آجائے تب سوچنے کا عمل ترک کرکے ہتھیار اٹھائیے‘یعنی جس وقت جو کچھ کرنا ہے‘ اُس وقت وہی کچھ کرنا ہے۔ اسی کو مطابقت کہتے ہیں۔ ہم زندگی بھر صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھاتے ہیں‘ سکت میں اضافے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور محنت کرنے لگن کو بھی توانا رکھنے پر متوجہ رہتے ہیں‘ مگر مطابقت کا خاطر خواہ حد تک خیال نہیں رکھتے۔ بھرپور زندگی کیلئے بہت کچھ یا سب کچھ سیکھنا لازم نہیں۔ کامیابی کیلئے جو کچھ سیکھنا لازم ہو وہی کچھ سیکھنا ہے۔ بہت سی صلاحیتیں اپنے آپ میں غیر معمولی اور وقیع ہونے کے باوجود رفتہ رفتہ obsolete ہوتی چلی جاتی ہیں‘ یعنی اُن کی نسبتی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ دنیا کو جس صلاحیت کی ضرورت ہے‘ وہی صلاحیت اپنائیے۔ کسی بھی شعبے میں بعض مہارتیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم اہم ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے ‘جب ان مہارتوں کی برائے نام بھی وقعت باقی نہیں رہتی‘ پھر بھی اگر کوئی ان مہارتوں کو اہم گردانے اور انہی میں گم رہے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ ایسے کسی بھی انسان کو سادہ لوح کہنے پر اکتفا نہیں کیا جائے گا ‘بلکہ اس سے ایک قدم آگے جاکر بے وقوف ہی کہا جائے گا...!
ہم جس ماحول کا حصہ ہوں‘ اُس سے بے تعلق ہوکر ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ کچھ لوگوں سے ہمیں تعلقات استوار رکھنا پڑتے ہیں اور ماحول سے مطابقت رکھنے والے کام کرنے پڑتے ہیں۔ یہ تو ہوا معاشرتی امور کا معاملہ۔ زندگی کے معاشی پہلو پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہی لوگ زیادہ کامیاب رہتے ہیں‘ جو ماحول سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اپناتے ہیں۔ جو کچھ ماحول کو درکار ہو وہی کچھ ہمیں دینا پڑتا ہے؛ اگر ہم اس اصول کا خیال نہیں رکھیں گے تو غیر متعلق ہوکر رہ جائیں گے۔ معاشرہ کسی بھی غیر متعلق فرد کو دل سے قبول نہیں کرتا اور آپ خود بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ جو آپ کے کام کا نہ ہو‘ وہ کب آپ کی نظر میں پسندیدہ اور قابلِ قبول ٹھہرتا ہے؛ اگر آپ بھرپور کامیابی چاہتے ہیں تو ماحول سے‘ معاشرے سے مطابقت پیدا کرنا پڑے گی۔ غیر متعلق ہوکر جینے والے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ نکتہ ایسا گہرا نہیں کہ سمجھنے کے لیے بہت غور کرنا پڑے۔ ہمیں زندگی بھر تعلق‘ نسبت‘ ربط اور مطابقت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ تعلق اور مطابقت ہی کی بنیاد پر اہم قرار پاتا ہے۔ جیسے ہی مطابقت ختم ہوتی ہے‘ معاملات کس کام کے نہیں رہتے؛ اگر کچھ بننا اور کچھ کرنا ہے‘ تو بے تعلق یا غیر متعلق ہوکر جینے سے گریز کیجیے۔