تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     20-05-2019

’’میں کسمبڑا چُن چُن ہاری‘‘

ایوب خان کی حکومت کے اولین سال تھے۔ مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کے لگ بھگ ہو گی۔ تمام تر وسائل کے باوجود ملک میں گندم کی پیداوار ناکافی تھی۔ امریکہ سے امداد کے طور پر گندم پنجاب کے اضلاع میں تقسیم ہوتی، لیکن مفت نہیں، بلکہ مقامی بیوپاری ٹرک خرید کر لاتے، اور کسی بھی خاندان کو ایک ماہ میں بیس کلو سے زائد کا راشن فروخت نہیں ہوتا تھا۔ مقدار پر سختی اتنی کہ ہر خریدار کا نام لکھا جاتا، دستخط کرائے جاتے یا انگوٹھے کا نشان ثبت کیا جاتا۔ میں اس وقت غالباً پانچویں کا طالب علم تھا۔ اپنے والد صاحب کے منشی کے طور پر یہ ریکارڈ بناتا۔
ضلع راجن پور میں آج کی نسبت بہت کم آبادی تھی، لیکن وہ علاقہ گندم اور دیگر اجناس میں خود کفیل نہ تھا۔ نہری نظام محدود، اور زیادہ تر زمینیں بنجر تھیں۔ پنجاب کے مرکزی اضلاع کے علاوہ دوسرے زیادہ تر علاقوں میں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ شہر میں آموں کے چند باغ تھے، جو اب رہائشی علاقوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ صرف میرے ہم عصروں کو ہی شاید یاد ہو کہ آم کے باغوں میں گھرا ایک چھوٹا سا قصبہ کتنا بھلا لگتا تھا۔ شہروں کا عفریت اب ہر سو پھیلتا جا رہا ہے۔ اُس وقت دیہات میں آموں کے باغات لگانے کا اتنا رواج نہ تھا۔ آج جو انواع و اقسام کے پھل پاکستان کے کونے کونے میں دستیاب ہیں، ہم نے صرف درسی کتابوں میں رنگین تصاویر کی صورت دیکھے تھے۔ سوچتے تھے کہ وہ کون سے علاقے ہوں گے جہاں یہ پھل پیدا ہوتے ہیں، یا کون سے لوگ ہوں گے جنہیں یہ پھل میسر ہیں؟ میرا اپنا ذہن تو امیر لوگوں یا ولایت میں بسنے والے گوروں کی طرف جاتا۔ میرا گائوں، جو آج ایک پھیلتا ہوا قصبہ ہے، میں آم کا صرف ایک درخت تھا۔ ہر مقامی شخص اُسے رشک بھری نظروں سے دیکھتا۔ ہم طالب علمی کے زمانے میں اس تاک میں ہوتے کہ موقع پاتے ہی اس کی کیریاں کسی طریقے سے اتاری جائیں۔
عجیب بات تھی کہ زیادہ تر مقامی لوگ سبزیاں بھی کاشت نہیں کرتے تھے۔ علاقے بھر میں چند لو گ ہی سبزیوں کی کاشت کے لیے مشہور تھے، جن میں میرے نانا، اسحاق بھی شامل تھے۔ سبزیاں اُگانا بہت مشکل کام تھا۔ راہٹ سے پانی نکالنا ہوتا تھا۔ اس میں دو بیل جوتے جاتے اور کئی گھنٹے کی مشقت کے بعد سبزی یا چارے کی آبیاری ہو پاتی۔ بچپن کے دن یاد میں نقش ہیں، جب میں نانا جی کو سبزیوں کے پودوں کی گوڈی کرتے دیکھتا، اور اُن کے ساتھ رہتا۔ یہ سبزیاں صرف اپنے گھر کی ضرورت کے لیے ہی ہوتی تھیں، یا پھر کچھ دوستوں‘ رشتے داروں کو تحفے میں بھیجی جاتی تھیں۔ سبزیوں کی پیداوار اتنی نہیں تھی کہ شہر لے جا کر فروخت کی جاتیں۔ ہاں کچھ کاشت کار ایسے بھی تھے جو سبزیاں شہر لے جا کر فروخت کرتے تھے، لیکن بہت محدود پیمانے پر۔
نصف صدی پہلے پنجاب میں کسی چیز کی پیداوار کثرت سے نہ تھی۔ کاشت کاری کفالتی تھی، یعنی جو اُگایا، وہ کھا لیا۔ وسیع و عریض رقبوں کے مالک، بڑے بڑے زمیندار مزارعوں سے اپنا مناسب حصہ وصول کرتے۔ لوٹ مار یا زیادتی نہیں ہوتی تھی۔ ٹریکٹر نہیں تھے، مزارعین بیلوں سے کھیت میں ہل چلاتے۔ کسی نے کیمیائی کھادوں یا کرم کش ادویات کا نام تک نہ سنا تھا۔ وہ سو فیصد نامیاتی کاشت کاری تھی۔ اس کا دستور صدیوں سے چلا آ رہا تھا۔ ایک اور بات، سبزیوں، گندم‘ چاول اور دوسری کئی اجناس کے بیج دیسی تھے۔ اُن کا ذائقہ، رنگت اور غذائیت منفرد ہوتی، لیکن پیداوار محدود اور نا کافی تھی۔ زراعت سے بمشکل گزارہ ہوتا۔ لوگ محنتی، لیکن غریب تھے۔ 
یہ درست ہے کہ ایوب خان نے پاکستان میں صنعتی اور زرعی ترقی کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ میں ایوب کے طرزِ حکومت یا آئینی حیثیت کا کبھی قائل نہیں رہا، لیکن اُنھوں نے سبز انقلاب کو ایسی جہت دی، اور ایسی اساس پر تعمیر کیا‘ جس نے مزید کئی انقلابوں کی کھڑکی کھول دی۔ یقینا ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے زرعی شعبے سے وہ کچھ حاصل نہیںکر پا رہے جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ درمیان کے چالیس سال کی سیاست بہت کچھ کھا گئی۔ ہر شعبۂ زندگی کے اجڑنے کی ایک ہی کہانی ہے۔ اس کے گھنائونے کردار سب کے سامنے ہیں۔ ایوب خان کے بعد زرعی میدان میں بہت کم ادارے وجود میں آئے۔ ایوب نے جن اداروں کو بنایا، اُنہیں بھی فعال رکھنا مشکل ہو گیا، کیونکہ بعد میں آنے والوں کی توجہ کہیں اور تھی، مفادات باہر تھے اور یہاں انہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ سادہ لوح عوام اُن کے دل فریب نعروں، وعدوں اور سیاسی ڈرامے بازی کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ عوام کی سوچ اور توقعات گلی، سڑک اور بجلی کی فراہمی تک محدود ہو گئی۔ ضلعی انتظامیہ پر اثر انداز ہونے کی کھلی چھٹی نے مقامی آبادیوں کو روایتی سیاسی گھرانوں کا محتاج بنا دیا۔ انصاف، برابری اور حقوق کا مطالبہ کرنے کا شعور ہی نہ آ سکا۔ حکومتی ادارے، پولیس سے لے کر زراعت تک، عام آدمی کی زندگی کو آسودہ کرنے میں ناکام رہے۔ 
کاشت کاروں نے کئی دہائیوں سے زرعی پیداوار بڑھانے میں جو محنت کی، اُس کا ثمر آج سارا پاکستان، بلکہ کئی ہمسایہ ممالک بھی کھا رہے ہیں۔ قدیمی بنجر زمینیں آباد کیں، اور اپنے ذاتی تجربے اور دیگر کاشتکاروںکے تجربے سے مستفید ہوئے، لیکن جو کردار ہندوستان میں زرعی شعبے نے کاشتکاروں کی رہنمائی میں ادا کیا، وہ ہمارے ہاں دیکھنے میں نہ آیا۔ وہی نوکر شاہی، دفتری ٹھاٹ باٹ، لیکن سوائے با اثر زمینداروںکے ، عام آدمی کی اُن تک رسائی نا ممکن رہی ۔ میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ کاشت کار بھی سرکاری زرعی اہل کاروں پر اعتماد نہیں کرتا۔ وہ اُن کے علم اور تجربے کو ناقص سمجھتا ہے۔ اس میں کاشت کاروں کی اپنی لا علمی کے ساتھ ساتھ زرعی ماہرین کی غفلت بھی شامل ہے۔ وہ استاد اور ماہر کا درجہ حاصل کرنے میں نا کام رہے۔ جدید زرعی علم ابھی تک کاشتکار کی رسائی سے باہر ہے۔ کاشت کار کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے زرعی ماہرین کی علمی اور عملی استعداد کو بڑھانا ہو گا۔ 
دوسرا بڑا مسئلہ ناقص اور جعلی بیجوں اور زرعی ادویات کی فروخت کا ہے۔ نجی شعبے میں کچھ اچھی کمپنیاں ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے نام سے دو نمبر ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ استعمال کے وقت معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اصلی ہے یا جعلی۔ جب فصل تباہ ہو جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ادویات اور بیج ٹھیک نہیں تھے۔ ہر فصل کاشت کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔ بہت کم کاشت کار ہوں گے جو ایک فصل کا نقصان مالی طور پر برداشت کر سکیں۔ نقصان کی صورت میں کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ 
کاشت کاروںکے لیے ایک بڑا مسئلہ زرعی قرضوں کا حصول ہے۔ بینک صرف بڑے زمین داروں کے لیے ہیں۔ چھوٹا کاشت کار سود خوروں کا سہارا لیتا ہے، اور یہ عمل اُسے آخرکار دیوالیہ بنا دیتا ہے۔ ہر سال ہزارہا خاندان تباہ ہو رہے ہیں، لیکن سود خوروں کا محاسبہ کرنے والا کوئی نہیں۔ کاشت کار جو کچھ کماتا ہے، سود خوروں کی نذر کر دیتا ہے تاکہ کسی صورت اُس کی گلوخلاصی ہو‘ لیکن جو بقایا رہ جاتا ہے، وہ کچھ دیر بعد پھر اصل میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اُس پر پھر اُسے دس فیصد ماہانہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ کہاں جائیں، کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟
سبزی، پھل اور اجناس جب فروخت کے لیے منڈی میں لائی جاتی ہیں تو وہاں آڑھتی اور بڑے سیٹھوں کی ملی بھگت سے کاشت کار لٹ جاتے ہیں۔ یہ سنی سنائی باتیں نہیں، ذاتی تجربہ ہے۔ میں بھی کاشت کار ہوں۔ تعلیم و تدریس سے جو وقت بچتا ہے، وہ میں باغوں اور کھیتوں میں بسر کرتا ہوں۔ جو آم آپ دو سو روپے کلو خریدتے ہیں، وہ فارم گیٹ پر تیس روپے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ایک سال ستر ہزار کلو آم بیچے۔ بچت کتنی ہوئی؟ صرف چھ لاکھ روپے۔ سب کی کہانی ایسی ہی ہے۔ ہر پھل، ہر جنس اور فصل پر کاشت کاروں نے کمال محنت کی، لیکن اس کا فائدہ کسی اور کو ہوا۔ ہمارے اس دکھ کو کئی صدیاں پہلے صرف بلھے شاہ نے ہی محسوس کیا تھا۔۔۔ ''میں کسمبڑا چُن چُن ہاری‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved