تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     28-04-2013

ایوری ڈے گریٹ نیس

کتابیں بھی انسانوں کی طرح ہوتی ہیں، ان کا اپنا چہرہ مہرہ ہوتا ہے، اپنے خدوخال اور اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ جیسے ہرانسان ملنے والے پر اپنا ایک تاثر چھوڑتا ہے اسی طرح کتابیں بھی اپنے پڑھنے والوں پر ایک مخصوص اثر چھوڑتی ہیں۔ جیسے کچھ لوگوں سے آپ کا بار بار ملنے کو جی چاہتا ہے اسی طرح کچھ کتابیں پڑھ کر بھی ایسا لگتا ہے کہ انہیں بار بار پڑھنا چاہیے ۔ کیونکہ ہربار ہم اس میں سے کچھ نئی بات دریافت کرتے ہیں۔ ایوری ڈے گریٹ نیس (Every Day Greatness)بھی مجھے ایسی ہی کتاب لگی جسے ہم بار بار پڑھنا چاہیں۔ کبھی زندگی بہت بوجھل لگے‘ مسائل زیادہ لگیں، حالات میں اندھیرے بڑھنے لگیں تو ایسی کتابیں پھر سے زندگی میں امید، لگن، توانائی، اور خوشی بھر دیتی ہیں ۔ انسپریشنل بکس کی یہی ایک خوبی انہیں دنیا بھر میں کتاب پڑھنے والوں میں مقبول بنادیتی ہے۔ ’’ایوری ڈے گریٹ نیس‘‘ بھی، زندگی میں امید، خوشی، اور شکر کی تحریک دینے والی ایسی ہی موٹی ویشنل (Motivational) کتاب ہے‘ جسے ممتاز عالمی ماہنامہ ریڈرزڈائجسٹ نے شائع کیا۔ اس میں زندگی کے حقیقی کرداروں کی حقیقی کہانیاں ہیں کہ مشکل اور کٹھن حالات میں انہوں نے زندگی کو کیسے برتا۔ اندھیروں سے روشنی کیسے کشیدکی اور ناامیدکی سنگلاخ چٹانوں سے امید کے چشمے کیسے نکالے۔ اس کتاب میں بے شمار ایسے کردار ہیں، جو عظمتِ کردار کے خوب صورت اظہار کے ساتھ یاد رہ جانے والے ہیں۔ اس کتاب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں ہرواقعے کے ساتھ شہرہ آفاق موٹی ویشنل مصنف سٹیفن آرکووے کے خیالات بھی درج ہیں۔ وہی سٹیفن آرکو وے جس کی تحریر کردہ کتابوں نے دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو بدلا اور لوگوں میں اس کی کتاب، \"Seven habits of highly effective people\" آج بھی مقبول ترین ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ بھی سٹیفن آرکووے کا تحریر کردہ ہے۔ دیباچے میں وہ تحریر کرتا ہے کہ مہربانی اور عظمتِ کردار کے سادہ اور چھوٹے چھوٹے اظہار زندگی میں زیادہ اہم ہیں‘ بہ نسبت اس کے کہ ہم یہی سوچتے رہیں کہ اپنے اردگرد کے انسانوں کے لیے کوئی عظیم کام سرانجام دیں۔ ایک ایسی دنیا میں‘ جہاں جنگ‘ بدامنی‘ قدرتی آفات‘ بیماریاں اور بددیانتی کے اندھیرے موجود ہیں‘ ایسے لوگوں سے ملنا کسی نعمت سے کم نہیں جو اپنی عظمتِ کردار سے اس دنیا کو خوب صورت بنادیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ عظمتِ کردار کا تعلق شہرت، دولت یا اونچے سٹیٹس سے نہیں ہوتا۔ ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ہمیں معاشرتی اور سماجی مرتبے میں بظاہر کم اور چھوٹے کاموں پر مامور لوگوں میں بڑے عظیم اور اعلیٰ کردار کے لوگ نظر آئیں گے اور دولت اور سٹیٹس کے اعتبار سے اونچے اونچے لوگوں میں بہت پست کردار افراد دکھائی دیں گے۔ مجھے بھی ایک ایسا ہی کردار یاد آرہا ہے جو آج بھی اپوا گرلز کالج اینڈ ہوسٹل میں صفائی پر مامور ہے۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والا‘ جسے تمام لڑکیاں عزت سے انکل شریف کہا کرتی تھیں۔ وہاں کچھ عرصہ قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ محض تین یا چار ہزار تنخواہ میں شریف ہمہ وقت کالج اور ہوسٹل کا کونا کونا چمکانے میں مصروف رہتا تھا۔ اپنے کام سے محبت‘ لگن اور دیانت موجود تھی۔ ہرملازمت کے کچھ نظام الاوقات ہوتے ہیں‘ لیکن کم ازکم میں نے تو ہمیشہ انکل شریف کو جاب آورز کے علاوہ بھی کام ہی کرتے دیکھا۔ اپنے اضافی کام کے عوض وہ کبھی کچھ طلب نہیں کرتے تھے۔ ایک خاکروب ہونے کے باوجود اپنے اچھے کردار اور دیانت داری کی وجہ سے انکل شریف نے وہاں کی طالبات اور ہوسٹل میں رہنے والی ورکنگ ویمن کے دلوں میں اپنا احترام اور عزت بنائی۔ ہم نے یہی دیکھا کہ بڑے اعلیٰ عہدوں پر موجود افراد جب اپنے ماتحتوں کے لیے زندگی مشکل بنادیتے ہیں اور ان کی عزتِ نفس کا خیال نہیں کرتے تو لوگ صرف ان کے منہ پر ان کے عہدے کی وجہ سے عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان کی غیرحاضری میں اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے بددعائیں دیتے ہیں۔ اسلام کا پورا فلسفہ بھی یہی ہے کہ اپنے جیسے انسانوں کے لیے زندگی کو سہل بنایا جائے۔ ہمدردی، ایثار، قربانی، صلہ رحمی، اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ اس دنیا کے لوگوں کے لیے زندگی کو خوب صورت بنایا جائے۔ ایک حدیث قدسیؐ کا مفہوم یہی ہے کہ تم اس وقت مسلمان نہیں ہوتے جب تک تمہارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس شخص کا اجر اور مرتبہ بہت بلند ہے جوکسی دوسرے انسان کی تنگدستی اور تنگی میں اسے آسانی دیتا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر کوئی تنگدست آپ کا مقروض ہوتو اسے قرض کی ادائیگی میں سہولت اور زیادہ وقت دینے والے کو صدقے کا ثواب ملتا ہے۔ صلہ رحمی کی صورت میں پورا فلسفۂ زندگی سمجھا دیا گیا ہے۔ صلۂ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے عزیزوں ، دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ ایک حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو۔ اس پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ اس کے لیے کتنے بڑے ظرف کی ضرورت ہے۔ اس درجے پر جانے کے لیے غلطیوں کو معاف کرنا اور آپس کی معذرتوں کو قبول کرنے کا ہنر اور ظرف چاہیے۔ انسان اس سطح تک آجاتا ہے تو وہ اپنی زندگی میں میسر نعمتوں ، سہولتوں کا دائرہ کم وسیلہ لوگوں تک پھیلانے کی کوشش ضرور کرتا ہے اور یہی ہے ’’ایوری ڈے گریٹ نیس‘‘ عظمتِ کردار کا ’’سمال اور سمپل‘‘ اظہار ہی دنیا کو رہنے کے قابل خوبصورت جگہ بناتا ہے۔ ’’ایوری ڈے گریٹ نیس‘‘ کتاب میں ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جوٹرین میں مزدوری کرنے والے ایک ذہین کم سن طالب علم کی ضرورت جان کر اسے ایک مخصوص رقم تعلیمی وظیفے کے طورپر اس کے سکول کے پرنسپل کو بھجواتارہتا ہے کہ وہ طالب علم کو دے دے مگر اپنا نام ظاہر نہیں کرتا۔ وہ کم وسیلہ طالب علم جب اپنی تعلیم مکمل کرلیتا ہے تو پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے والا عظیم شخص کون ہے۔ اس کی نم آنکھیں اور اس کا دل اس شخص کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہے‘ جواپنا نام ظاہر کیے بغیر، اس کی زندگی کا مسیحا بنا۔ اسلام کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ تم ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ کیونکہ انسان کی عزتِ نفس کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔ اگرچہ موضوعات تو اور بھی بہت سے تھے، مثلاً دہشت گردی سے لہولہان انتخابی ماحول اور سیاست کی گرما گرمی مگر میں نے سوچا کہ آج ایسے موضوع پر لکھا جائے جس سے ہمارا اپنی ذات پر اور انسانیت پر اعتماد بحال ہو۔ ہمارا یقین مضبوط ہو کہ اگر ہم کسی کی زندگی سے اندھیرا کم کرنے کو ایک دیا جلائیں گے تو کہیں کوئی چراغ ہمارے لیے بھی ضرور روشن ہوگا۔ احمد فراز نے بھی خوب کہا ہے کہ ۔ شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved