بدھ 15 مئی کو پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے عید کے بعد حکومت کے خلاف ''بھرپور تحریک‘‘ چلانے کا اعلان کیا۔ مولانا فضل الرحمان بھی اسلام آباد کی طرف مارچ کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن تحریکیں ایسی باتوں، نعروں اور پارٹیوں سے نہیں ابھرا کرتیں۔ تحریکوں کے پھوٹنے، آگے بڑھنے اور ان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار بہت سے عوامل پہ ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد جو کہرام مچا ہے اس کے عام لوگوں کی زندگیوں اور نفسیات پر اذیت ناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مقتدر سرکاری حلقوں اور موجودہ حکومت کے ''ایک پیج‘‘ پر آنے کا بہت واویلا کیا جا رہا ہے‘ لیکن اس حکومت کے دور میں بے انتہا مہنگائی، نجکاری اور بیروزگاری کے خلاف عام آدمی کا غم و غصہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک بڑی تحریک کے پھوٹ پڑنے کے امکانات بھی ابھر رہے ہیں۔ نرسوں سے لے کے اساتذہ تک‘ ملک کے مختلف محکموں اور حصوں میں ہڑتالیں جاری ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنما (جن کا اپنا تعلق بھی اسی حکمران طبقات سے ہے) بھی کسی بڑی تحریک کی پیش گوئی کر رہے ہیں اور اس کو ایک محتاط انداز سے مہمیز دینے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن وہ جہاں حکومت کو ڈرا رہے ہیں وہاں خود بھی اندر سے ڈر رہے ہیں۔
موجودہ حکومت خود شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں آمریتیں‘ کمزور سویلین حکومتیں اور آدھا تیتر آدھا بٹیر قسم کے نیم فوجی نیم سویلین سیٹ اپ بھی آتے جاتے رہے ہیں۔ یہ تمام ڈھانچے پاکستان کے حکمران طبقات اور سامراجی قوتیں‘ دونوں اپنے مفادات کے مطابق مینوفیکچر کرتے رہے ہیں۔ سب کے سب کوئی دور رس ترقی اور کوئی پائیدار استحکام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ تجربات اور ان کی ناکامیاں بنیادی طور پہ پاکستان کی سرمایہ داری کی تاریخی ناکامی کی غمازی کرتی ہیں۔
آج کل بظاہر عمران خان صاحب کی قیادت میں موجودہ سیٹ اپ اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔ پالیسیاں بن رہی ہیں اور منصوبے تشکیل دئیے جا رہے ہیں۔ لیکن اتنی سختی کے ساتھ ان پالیسیوں کو مسلط کرنے کے باوجود بھی حکمرانوں کو خوف لاحق ہے کہ کہیں کوئی ایسی تحریک نہ پھوٹ پڑے جس سے نہ صرف یہ مصنوعی سیاسی ڈھانچے زمین بوس ہو جائیں بلکہ معیشت، سیاست اور ریاست سمیت سارا نظام ہی خطرے میں پڑ جائے۔
17 مئی کو بلوچستان کی صوبائی اپوزیشن اور انجمن تاجران نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے خلاف شٹر ڈائون ہڑتال کی کال دی۔ 18 مئی کی خبروں کے مطابق کوئٹہ شہر میں زیادہ تر دکانیں بند رہیں اور ٹریفک معمول سے خاصی کم رہی۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنما بھی تحریک چلانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن پیسے کی اِس سیاست کی حزب اختلاف صرف حکومت کی تبدیلی چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لیڈر بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اس نظام کو بچانا چاہتے ہیں۔ یعنی ان کی تحریک نظام گرانے کے لئے نہیں بچانے کے لئے ہو گی۔ اس کے معنی صاف ظاہر ہیں: یہ بحران زدہ استحصالی معیشت بھی باقی رہے گی اور ناگزیر طور پہ آئی ایم ایف کا جبر بھی قائم رہے گا۔
دراصل پی ٹی آئی کی حکومت کے تحت اس قدر افراتفری اور غیر یقینی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ مقتدر قوتوں کے کچھ دھڑے اب سنجیدگی سے 'تبدیلی‘ کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ لیکن اپوزیشن کی ایجی ٹیشن کی مفاد پرستانہ روش کا اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ مہنگائی و بیروزگاری کے خاتمے کا کوئی انقلابی پروگرام تو درکنار سرمایہ دارانہ اصلاحات کی کوئی ٹھوس پالیسی بھی پیش نہیں کی گئی ہے۔ اور اُن کی اپنی حکومتوں میں بھی حالات کوئی اتنے سہل نہیں تھے کہ اب وہ احتجاج کی کال دیں تو لوگ دوڑے چلے آئیں گے۔
محنت کشوں کا طبقہ روز روز تحریکیں برپا نہیں کرتا۔ ان کے لئے یہ ایک سنجیدہ ایشو ہوتا ہے۔ بلکہ زندگی موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ملک میں ٹریڈ یونینوں کی خستہ حالی اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ اس وقت ایک فیصد سے بھی کم محنت کش کسی یونین میں شامل ہیں۔ پچھلی تقریباً چار دہائیوں کی فوجی و جمہوری حکومتوں نے ٹھیکیداری نظام لاگو کر کر کے جہاں محنت کش طبقے کے استحصال کو انتہائوں تک پہنچا دیا ہے وہاں ان کی انجمن سازی کے اداروں کو بھی براہِ راست یا بالواسطہ طریقوں سے کچلا گیا ہے۔ اور مروجہ سیاست اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ عام آدمی کا اس میں داخلہ ویسے ہی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
بائیں بازو کے حلقوں میں یہ بات بہت دہرائی جاتی ہے کہ کوئی بڑی ٹریڈ یونین یا انقلابی پارٹی نہیں ہے جو تحریک برپا کر سکے (یا اس کی قیادت کر سکے) لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انقلابی پارٹیوں اور قیادتوں کی عدم موجودگی میں بھی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں اور انقلابات معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے رہے ہیں۔ دہائیوں پرانی آمریتوں کو چند دنوں میں اکھاڑنے والی الجزائر اور سوڈان جیسی تحریکیں، جو تا دمِ تحریر جاری ہیں، سب کے سامنے ہیں۔
انقلابی تحریکیں کئی معاشی، سیاسی، ثقافتی و سماجی عوامل کے مخصوص امتزاج سے ابھرتی ہیں۔ لازمی نہیں کہ غربت اور بھوک انقلابات کو جنم دیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ نسبتاً بہتر حالات اور بظاہر استحکام کے ادوار میں کوئی تحریک نہ ابھر سکے۔ 1968ء کا سال عالمی سرمایہ داری کے معاشی عروج کی انتہا تھی‘ لیکن پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں انتہائی جارحانہ انقلابی تحریکیں ابھریں۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں کوئی تحریک استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ اسے وقتی مطالبات مان کے زائل کر دیا جاتا ہے، تھکا تھکا کے مار دیا جاتا ہے یا موقع ملنے پہ کچل دیا جاتا ہے۔
آج پاکستان میں بہت بڑے نہ سہی لیکن بائیں بازو کے کئی اصلاح پسند رجحانات موجود ہیں۔ بہت زیادہ قوتیں نہ ہونے کے باوجود انقلابی سوشلزم کا رجحان بھی ایک ملک گیر تنظیم کا حامل ہے۔ انقلابی تنظیموں کی کمزوری کی صورت میں اچانک اور خود رو انداز میں بھی تحریک ابھر سکتی ہے‘ جو شروعات سے ہی بہت وسیع حجم کی حامل ہو سکتی ہے یا بعض اوقات چھوٹی تحریکیں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کے ایک بڑی تحریک میں بدل جاتی ہیں اور تبدیلی لاتی ہیں۔ ایسی تحریکوں میں مداخلت کرتے ہوئے انہیں منظم کرنا اور ان کے فوری مطالبات کو انقلابی پروگرام سے جوڑنا انقلابیوں کا فریضہ ہوتا ہے۔ اسی عمل سے انقلابی قوتیں آگے بڑھ سکتی ہیں اور حکمران طبقے کی کسی شعبدہ باز پارٹی یا شخصیت کو اسے ہائی جیک کرنے سے روک سکتی ہیں۔
لیکن بالعموم کوئی تحریک جتنی تکالیف اور جبر کو چیر کے ابھرتی ہے اس کی قوت کا معیارِ اثر (مومینٹم) اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ مروجہ سیاست سمیت اِس نظام کے تمام ادارے اور شخصیات جس قدر بے نقاب ہو چکے ہیں اس کے پیش نظر نیچے سے ابھرنے والی کسی بڑی تحریک کے ان کی گرفت میں آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر ایسی کوئی تحریک کچھ ہفتے یا کچھ دن بھی جاری رہتی ہے اور وسعت اختیار کرتی ہے تو وہ معاشی مطالبات سے سیاسی مطالبات تک کا سفر بہت تیزی سے طے کرے گی۔ اس کا طبقاتی کردار بھی بہت جلد نکھر کے سامنے آئے گا۔ ان حالات میں انقلابی قوتوں کی تیز بڑھوتری اور تحریک کی قیادت میں آنے کے راستے ہموار ہوں گے۔
لینن نے اس موضوع پہ لکھا تھا کہ ''چند ہزار انقلابی کارکنان کی پارٹی بھی تحریک میں سرگرم ہو کے محنت کش طبقے اور وسیع تر عوام تک اپنا پیغام پہنچا سکتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جب عوام کا شعور بلند اور ہمت جوان ہوتی ہے اور انہیں انقلابی پروگرام پہ جیتا جا سکتا ہے‘‘۔
ایسی تحریک شاید بہت سے پرانے انقلابیوں کو بھی جوان کر دے۔