عثمان بزدار صاحب سے رمضان بازار تک سبھی کچھ عوام کی ضروریات اور توقعات کے برعکس محسوس ہوتا ہے۔ بس چلے جا رہے ہیں‘ خدا کے سہارے۔ یہ اعجاز ہے کپتانی کا۔ کپتانی کھیل کے میدان کی ہو یا حکومت پاکستان کی۔ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ جو مزاج میں آیا کر ڈالا۔ نتائج سے بے پروا کبھی منصور اختر کو کھلانے اور چلانے کی خواہش کو ضد بنا ڈالا اور کبھی استاد جیسے بڑے بھائی پیڈ پہن کے میدان میں جانے کے لیے تیار بیٹھے ماجد خان کو عین وقت پر میدان کے بجائے گھر بھجوانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ مزاج پانیوں جیسا ٹھہرا۔ کسی کی پیاس بجھائی تو کسی کو ڈبو ڈالا۔
خیر! پون سال گزر چکا ہے۔ طرز حکمرانی کے نتائج اور خمیازے چلتے پھرتے نظر آ رہے ہیں۔ مہنگائی اور گرانی‘ آفتِ ناگہانی بن کر عوام پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ نڈھال اور بدحال عوام گورننس کے نام پر بوئے سلطانی کے ایسے ایسے شاہکار نمونے دیکھ رہے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ صوبائی دارالحکومت میں اگر یہ کچھ ہو رہا ہے تو باقی صوبے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ضلعی انتظامیہ سے لے کر شہری سہولیات تک... امن و امان سے لے کر جان کی امان تک عوام ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ حکومتی رٹ، گورننس اور مفاد عامہ جیسے الفاظ بے معنی، کھوکھلے اور غیر متعلقہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جو جہاں جس حال میں بیٹھا ہے... مست بلکہ بدمست ہے۔ احساس ذمہ داری اور جواب دہی کے خوف سے عاری۔ نہ کسی کو جواب دہ۔ نہ کسی کو حساب دہ۔ البتہ حساب کتاب، بندر بانٹ اور حصے بخرے کا رواج زندہ اور پائندہ ہے۔
محکمہ مال‘ مال بنانے پر مامور۔ شہر کی صفائی کے ذمہ داران‘ ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا چکے ہیں۔ رمضان بازار اور شہری سہولیات کی آڑ میں ضلعی انتظامیہ تو گل کھلا رہی ہے‘ بہت سے دوسرے بھی گل و گلزار ہیں۔ یہ سستے بازار عوام اور سرکار کو کب تک اور کتنے مہنگے پڑیں گے؟ کیسی کیسی واردات... وہ بھی راتوں رات۔ وارداتیے دن کی روشنی میں کس طرح عوامی خدمت کا ڈھونگ اور فوٹو سیشن کرواتے نظر آتے ہیں۔ اوپر سب کچھ چلے گا تو ''چوپڑا‘‘ بھی چوپڑی اور دو دو ضرور کھائے گا۔ اسی طرح ''تمنا‘‘ کی تمنائیں تو رکنے میں ہی نہیں آ رہیں۔ اس کی تمنائیں پوری کرنے کے لیے عوام اور سرکار کو کتنی قیمت اور چکانا ہو گی؟ سرکار تو ساکھ گنوا کر قیمت چکا رہی ہے۔ عوام کے پاس تو گنوانے کے لیے بھی کچھ نہیں رہ گیا۔
امن و امان سے لے کر صحت عامہ تک‘ کہیں کوئی سنجیدگی‘ اخلاص اور دردِ دل نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ امن و امان‘ الامان الامان‘ تو صحت عامہ کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ تازہ ترین اور توجہ طلب معاملہ پیش خدمت ہے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگی میں سزا یافتہ ایک ڈاکٹر صاحب کو اسی ہسپتال کے بورڈ آف مینجمنٹ کا ممبر نامزد کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے کا پس منظر کچھ یوں ہے: مذکورہ ڈاکٹر اسی ہسپتال میں بطور اے ایم ایس کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگی ثابت ہونے پر سزا یافتہ ہے۔ موصوف نے مارکیٹ کے مقابلے میں مہنگے دھاگے خریدے اور اس پر ستم یہ کہ رجسٹرڈ اور مستندکمپنیوں کے دھاگے مسترد کر کے غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ دھاگوں کی خریداری کی گئی‘ جس کی انکوائری ہوئی اور الزام ثابت ہونے کے بعد موصوف کو دسمبر 2018ء میں اتھارٹی‘ عثمان بزدار کے حکم پر سزاوار قرار دیا گیا‘ جس کے تحت دو سال کے لیے ان کی پنشن کی ضبطی اور پانچ فیصد کٹوتی کی سزا دی گئی۔ اس واردات کے مرکزی کردار اور چند ماہ پہلے سزا پانے والے ڈاکٹر کو اسی ہسپتال میں بورڈ آف مینجمنٹ کا رکن تعینات کر کے حکومت نے گورننس اور میرٹ کو چار چاند لگا دیے ہیں‘ جبکہ پولیو، ہیپاٹائٹس اور ٹی بی جیسے امراض کا وائرس بھی کسی حکومتی رٹ اور گورننس کو ماننے سے انکاری اور شہر بھر میں دندناتا پھر رہا ہے۔
لگتا ہے کہ وطن عزیز میں بیوروکریسی کو پہلی مرتبہ پوری آزادی کے ساتھ کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ وہ نہ تو کسی کو جوابدہ ہیں اور نہ ہی کوئی ان سے جواب طلب کرنے کی صلاحیت اور جرأت رکھتا ہے۔ بڑی سے بڑی واردات، بڑی سے بڑی بدعنوانی، بڑی سے بڑی بے ضابطگی اور بد انتظامی کی خبروں کو سنی ان سنی کرنے کی بے نیازانہ پالیسی بھی اسی دور حکومت میں متعارف کروائی گئی ہے۔ حکومتی موقف اور بیانیے کی تشہیر اور موثر ترجمانی پر مامور چیمپئنز سوائے اپنے کام کے سب کچھ کرتے نظر آ رہے ہیں‘ جبکہ بعض مقامات پر تو گورننس اور طرزِ حکمرانی دیکھ کر لگتا ہے کہ قوال کو حال چڑھ گئے ہیں۔
اس حوالے سے علامہ اقبال سے متعلق ایک واقعہ بطور استعارہ پیش خدمت ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ آپ پوری دنیا کو عمل و حرکت کا درس دیتے ہیں‘ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں چیزیں آپ کی ذاتی زندگی میں اس درجے پر نظر نہیں آتی ہیں۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ علامہ اقبال اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے... حقے کی نے کو ایک طرف کیا اور بولے ''میاں اگر قوال کو حال چڑھ جائے تو قوالی کون کرے گا؟‘‘ یہاں پر بد قسمتی سے حکومتی قوالوں کی بے سری قوالی عوام کی سماعت پر اتنے برے اثرات ڈال رہی ہے کہ وہ حال کے بجائے نڈھال اور بد حال ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومتی ٹیم کے لیے علامہ اقبال کا مذکورہ واقعہ سبق آموز اور حسب حال ہے۔ انہیں بھی ایسے اقدام اور طرز حکمرانی سے بچنا چاہیے کہ جس سے قطعی یہ تاثر ملے کہ قوال کو حال چڑھ گئے ہیں۔ خیر! علامہ کی تو بات ہی کیا۔ ان کی شخصیت، افکار، فلسفہ، علم و تدبر اور فہم آج بھی حکومت سمیت سب کے لیے کھلی کتاب ہے۔ ضرورت صرف پڑھنے اور عمل کرنے کی ہے۔
میرٹ اور گورننس کا ایک تازہ ترین اور شاہکار سوشل میڈیا پر حکومتی دعووں، وعدوں اور شعلہ بیانیوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی کے بھتیجے کو نادرا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں گریڈ 18 پر بھرتی کرنے کے بعد دو ماہ میں ہی گریڈ 19 میں ترقی دے کر کراچی روانہ کر دیا گیا ہے۔ ترقی کی اس سپیڈ اور میرٹ کی سر بلندی کو یہ منظر دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ جلد ہی اگلا گریڈ لے کر لاہور یا پشاور جا پہنچیں گے۔ مذکورہ مشیر کا نام جاننے کے خواہشمند قارئین یہ معمہ انتہائی آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی اس میں اچنبھے اور حیرت کی کیا بات... بنا ہے شاہ کا مصاحب تو پھر اتنا تو بنتا ہے... اور بھتیجا بھی اپنا ہے۔
ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے واقعہ سے شہرت پانے والے ایک کردارکے بارے میں تو سبھی جان چکے ہیں کہ وہ پنجاب پولیس میں خصوصی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ان کی پسند ناپسند کا خمیازہ کافی بھگتا جا چکا ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی یک نہ شد دو شد والا ہے۔ موصوف کی بیگم لاہور سمیت کئی اضلاع کی اعلیٰ انتظامیہ کی وجۂ تقرری بتائی جاتی ہیں۔ جبکہ مذکورہ اضلاع میں ناقص کارکردگی، بد انتظامی، بد عنوانی، اقربا پروری، بندر بانٹ اور دیگر شکایات کے باوجود کسی قسم کی حکومتی کارروائی اور نوٹس کی راہ میں بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔ ان زمینی حقائق کی موجودگی میں بزدار سرکار کی بے بسی اور ناقص کارکردگی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
فردوس عاشق اعوان وفاق سمیت پنجاب کا امیج ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھائے دوڑ بھاگ کر رہی ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کردار سازی، حکومتی اقدامات کی موثر تشہیر اور ترجمانی کے لیے سابقہ سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور کو بھی میدان میں لایا جا چکا ہے۔ ان کی چند دن کی کارکردگی میں ہی مستقبل کی جھلک نظر آنا شروع ہو چکی ہے۔ اگر بزدار سرکار انہیں رائی فراہم کرے تو وہ رائی کا پہاڑ بنانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ مسئلہ صرف رائی کا ہے۔ دیکھتے ہیں بزدار سرکار رائی کے کتنے دانے۔ کتنے دنوں میں اکٹھے کرتی ہے۔ مٹھی بھر دانے کارکردگی کے پہاڑ کا منظر پیش کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی محنتی اور قابل لوگوں کا میسر آنا نصیب اور انہیں سنبھالنا اور مستفید ہونا ہنر مندی کہلاتا ہے۔