تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     20-05-2019

جو وقت نہیں آنا چاہیے تھا‘ آ چکا

کیسے تہی داماں ہوگئے ہم کہ کوئی ہماری بات پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں۔لاکھ روتے پیٹتے رہتے ہیں‘ اپنی بے گناہیوں کی صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں‘ لیکن مجال ہے کہ کوئی ہماری بات پر کان دھرے‘ یعنی جو وقت نہیں آنا چاہیے تھا ‘ آچکا۔
سیاحت کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور سری لنکاکچھ65ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔یہ چھوٹا سا ملک سالانہ 4.4بلین ڈالر سیاحت سے کماتا ہے‘ جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا پانچ فیصد بنتا ہے۔22اپریل کو ایسٹر کے موقع پر ہونے والے دھماکوں کے بعد اس ملک میںسیاحت کی صنعت تقریبا دم توڑ گئی۔ان دھماکوں میں قریباً تین سو کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔تب سے اب تک یہ چھوٹا سا ملک مسلسل فسادات کی زدمیں ہے۔ سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔ہوٹل کی بکنگز میں 186فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے‘ تو متعدد ائیرلائنز نے اس ملک کیلئے اپنی پروازوں کی تعداد میں کمی کردی ہے۔ بم دھماکوں کے بعد سری لنکا کی معیشت کو پہنچنے والے دھچکوں نے وہاں کے شہریوں کیلئے بے شمار مشکلات پیدا کردی ہیں‘ جس کے باعث اُن میں شدید غصہ پیدا ہورہا ہے ۔ افسوس کہ اس غصے کا نشانہ یہاں بھی مسلمان ہی بن رہے ہیں۔ مسلمانوں کی املاک جلائی جارہی ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اب تک قریباً16 مساجد کو نشانہ بنایا جا چکا۔بات صرف سری لنکا میں بسنے والوں مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہی‘ بلکہ یہاں سیاسی پناہ کیلئے آئے ہوئے مسلمانوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑ چکی ہیں۔
افسوس کہ ان میں بھی سب سے زیادہ تعداد پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔وہ پاکستانی جنہیں اکثریت سے تعلق رکھنے والوں نے اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے کی بنا پر اتنا تنگ کیا کہ وہ پناہ لینے کیلئے سری لنکا جیسے ملک میں چلے گئے ۔ اب سری لنکن حکومت ان کی حفاظت کے بارے میں بھی فکر مند ہے۔ سری لنکا کی حکومت حالات سے نمٹنے کی کوشش تو کررہی ہے ‘لیکن عوامی سطح پر پائے جانے والے غصے سے نمٹنا اُس کیلئے کافی مشکل ثابت ہورہا ہے۔ نفرت پھیلتی اور محبت سمٹتی جارہی ہے۔اندازہ لگائیے کہ دھماکوں کے بعد ایک انتہائی مالدار سعودی کی بکنگ یہ کہہ کر منسوخ کردی گئی کہ ہم آپ کو اپنے ہوٹل میں جگہ نہیں دے سکتے‘ کیو نکہ آپ مسلمان ہیں۔ ایک چھوٹے سے ملک کے معمولی سے ہوٹل کی طرف سے انتہائی مالدار سعودی کو دئیے جانے والے جواب کے پیچھے کیا پیغام پنہاں ہے؟ وہ ہم سب جانتے ہیں‘ لیکن سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ہم نہیں سمجھنا چاہتے کہ دنیا کو باتوں سے نہیں عمل سے غرض ہوتی ہے۔ زبانی کلامی ہم جتنا بھی امن کا پرچار کرتے رہیں‘ جب تک اُس پر عمل کرکے نہیں دکھائیں گے‘ کوئی نہیں مانے گا۔
دوکروڑ ‘ ستائیس لاکھ کی آبادی کے حامل ملک سری لنکا نے 26 سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے۔1983ء میں ملک کی تامل آبادی سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع کی ۔طویل اور انتہائی خونریز خانہ جنگی بالآخر 2009ء میں اپنے اختتام کو پہنچی جب حکومت نے باغیوں پر مکمل فتح حاصل کرلی۔اس دوران ایک لاکھ سے زائد سری لنکنز اپنی جانوں سے گئے۔ پورے ملک میں ہرجگہ تباہی و بربادی کے آثار جا بجا دکھائی دیتے تھے۔باغیوں کو شکست دینے کے بعد اس چھوٹے سے ملک نے ایک مرتبہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد شروع کی اور اس میں کافی حدتک کامیابی بھی حاصل کی۔اس دوران ہم ہمیشہ یہی سنتے رہے کہ سری لنکن فورسز کی باغیوں کے خلاف فتح میں پاکستان کا کردار کلیدی رہا۔ اس جنگ کے دوران پاکستان نے سری لنکا کی ہرممکن مدد کی اور اسی کی بدولت باغیوں کو شکست ہوئی۔پاکستان کی اس مدد کی وجہ سے اس چھوٹے سے ملک میںپاکستانیوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہرجگہ اُن کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ یہ سن کر بہت خوشی بھی ہوتی تھی ۔ ویسے بھی دنیا میں دوچار ممالک ہی تو ہیں‘ جن کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہاں پاکستانیوں کو آج بھی اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اب شاید‘ جو اپنے گھر میں ہی عزت کے قابل نہ رہے‘ تو اُسے دوسرے کہاں سے عزت دیں گے؟ہم تو جیسے خودہی خود کو بے قدر کرانے کی ٹھان ہی رکھی ہے۔ جھوٹ تو جیسے ہماری گٹھی میں پڑا ہے۔خدا کی پناہ کہ دعویٰ ‘پھر بھی یہی ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ کاش! اپنے اندر حقیقت حال کو تسلیم کرنے کی ہمت بھی پیدا کرلیں۔بات سے بات نکلتی ہے تو پھر نکلتی چلی جاتی ہیں کہ سری لنکا سے بات کہاں تک جاپہنچی۔باغیوں کے خلاف کامیابی کے بعد یہاں کی حکومتوں اورعوام نے ملک میں ہرممکن حد تک بھائی چارے اور آشتی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ وہ بے پناہ تباہی اور بربادی دیکھ چکے تھے اور وہ یہ تاریخ دوبارہ نہیں دہرانا چاہتے تھے‘ لیکن آج وہاں کے حالات یکسر مختلف دکھائی دیتے ہیں۔
بغلیں تو خوب بجائی گئی تھیں کہ سری لنکا میں دہشت گردی کرنے والوں کے ڈانڈے بھارت سے ملتے ہیں ‘لیکن انتقام کا نشانہ بہرحال مسلمان بن رہے ہیں۔اہل اسلام کے ساتھ اس چھوٹے سے ملک کے باشندوں کی نفرت ہمیں بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کررہی ہے۔یہاں کے بدلے ہوئے حالات ہمیں غوروفکر کی دعوت بھی دے رہے ہیں ۔ اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کیوں آج دنیا بھر میں ہمارا تاثر اتنا برا ہوچکا کہ ہمیں ہرجگہ دھتکارا جاتا ہے۔دنیا بھر میں ارزاں بھی خون ِمسلمان ہے ؛فلسطین‘ کشمیر‘ میانمار ہرجگہ اہل اسلام کا خون بہایا جارہا ہے‘ لیکن پھر بھی یہ ظالم ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو تو اہل ِاسلام اوران سے زیادہ اہل پاکستان کے دل دھڑکنا شروع ہوجاتے ہیں کہ الٰہی خیر‘ کہیں اس میں کوئی مسلمان ملوث نہ ہو۔
کوئی مانے یا نہ مانے ‘ طریقے دو ہی ہیں کہ یا تو ہم امن پسندی کا اپنا روایتی موقف الاپتے رہیں یا پھر حقیقت کو تسلیم کرکے ‘ حالات میں بہتری کیلئے نیک نیتی سے کوششوں کا آغاز کریں۔ہربرے کام کیلئے ہروقت دوسروں کو مورد الزام ٹہراتے رہنے سے بہتر ہوگا کہ ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ یقین جانیے کہ اپنے ہی جھوٹ اور کہہ مکرنیوں پر دل اس قدر جلتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہم جا کس طرف رہے ہیں۔ اتنا جھوٹ ‘ اتنا جھوٹ کہ خدا کی پناہ‘ لیکن پھر بھی شرم نام کو نہیں۔ ہماری انگلیاں ہروقت دوسروں کی طرف ہی اُٹھی رہتی ہیں‘ لیکن مجال ہے ‘جو کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت بھی گواراہ کریں۔ ہمیشہ یہی رونا کہ دوسرے یہ کرتے ہیں‘ دوسرے وہ کرتے ہیں ‘لیکن کبھی یہ بتانے کی زحمت گوارہ نہیں کریں گے کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ کرپشن ہماری رگوں میں بس چکی‘ لیکن جس سے بھی بات کریں تو ایسے ہی محسوس ہوگا‘ جیسے اُس سے بڑاایماندار یہاںپر کوئی دوسرا نہیں۔دوستو! جب یہ حالات ہو جائیں ‘تو پھر اپنی بے قدری کیلئے کسی دوسرے سے گلہ نہیں کرنا چاہیے۔ بس‘ جان لیجئے کہ جو وقت نہیں آنا چاہیے ‘جو آچکا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved