خدا ایک ڈیزائنر ہے ‘ مصور ہے ۔ تو وہ کیسا مصور ہے؟ کیسا ڈیزائنر ہے ؟ اس بات پر غور کرنے کے لیے انسان ‘جب اپنے اردگرد دیکھتا ہے ‘تووہ حیرت میں ڈوب جاتاہے ۔
مثال کے طور پر مخلوقات کا نر اور مادہ کی صورت میں دو جنسوں میں پیدا ہونا‘ پھر نر اور مادہ میں ایک دوسرے کے لیے دلچسپی اور پھر ان کا ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ ‘ پھر اولاد کی پیدائش اور اس اولاد میں اس قدر خوبصورتی اور معصومیت کہ انسان اپنے بچّے کی طرف سے پیش آنے والی تمام تر تکالیف نظر انداز کر دیتاہے ۔ آج کل تو ایسے سافٹ وئیر آگئے ہیں کہ آپ کسی بھی مرد کی تصویر میں ایڈیٹنگ کر کے اسے عورت میں بدل سکتے ہیں ۔ ذرا سی تبدیلیوں سے انسان کیا سے کیا بن جاتاہے ۔
آپ نے بہت سے بہن بھائی دیکھے ہوں گے ‘ جن کی شکلیں آپس میں بہت زیادہ ملتی ہوں گی۔ کبھی آپ غور کریں ‘تو آواز میں تبدیلی اور بال لمبے ہونے کے ساتھ ہی نسوانی خوبصورتی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ با ل کی شکل میں خدا نے اپنی تخلیق کی خوبصورتی کو آخری ٹچ دیا ہے ۔ ورنہ بالوں کے بغیر بھی مخلوقات پیدا کی جا سکتی تھیں ۔ جب آپ بال لگانے والے سرجن سے پوچھیں تو وہ بتاتا ہے کہ سر اور ڈاڑھی میں ہر بال کا ایک رخ ہوتاہے ؛ حتیٰ کہ سر کے درمیان والے حصے (Crown)میں تو ہر سینٹی میٹر کے بعد بالوں کا رخ بدل جاتاہے ۔ یہ سب ڈیزائننگ ہے ۔ سرجن یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم جب بال لگاتے ہیں ‘توہم سر پہ موجود بچے کھچے بالوں کی سمت کی پیروی ہی تو کرتے ہیں کہ perfection‘اسی سمت میں ہے ‘ جو خدا نے ڈیزائن کی ہے ۔ بال کی صورت میں خدا نے ایک ایسی چیز تخلیق کی ہے کہ انسان اسے دیکھ کر دنگ رہ جاتاہے۔ ان کا رخ موڑ دینے سے شکل بدل کے رہ جاتی ہے ۔ ان کا رنگ بدل جانے سے انسان کیا سے کیا ہو جاتاہے ۔
آپ بالوں پر غور کیجیے ۔ بال لچکدار ہوتے ہیں ۔ انہیں کاٹنے سے تکلیف نہیں ہوتی ؛حالانکہ بال اور ناخن کے علاوہ ہمارے جسم کے کسی بھی خلیے کو کاٹیں تو شدید درد ہوتاہے ۔ جو بال لگانے والے ماہرین ہیں ‘ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم دوچار ہزار بال لگا کر گنج پن چھپانے کی کوشش توکر سکتے ہیں‘ لیکن اس طرح سے پورے سر پہ ایک لاکھ بال اگا دینا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ گو کہ وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ سٹیم سیلز کی مدد سے بال تو کیا‘ کٹی ہوئی ٹانگ اور ٹوٹا ہوا دانت بھی دوبارہ اگا لیا جائے گا ؛حتیٰ کہ ریڑھ کی ٹوٹی ہوئی ہڈی بھی جوڑ دی جائے گی ۔ان بالوں سے خدا نے کیا کیا کام لیا۔ اسے جاننے کیلئے آپ صرف اپنی بھنویں اور پلکیں منڈوا کر دیکھیں تو انسان کی شکل کیا سے کیا ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح مناسب فاصلے پر دو آنکھوں کی جگہ ماتھے کے درمیان میں ایک بڑی آنکھ کا ماڈل کمپیوٹر میں بنا کر دیکھیے ‘ اچھلا بھلا خوبصورت انسان بھوت نظر آنے لگے گا‘ پھر عجیب و غریب بات یہ کہ عورتوں کے بال لمبے کر دیے اور اس سے ان کی خوبصورت میں اضافہ کر دیا ۔ خال ہی کوئی عورت گنج پن کا شکار ہوتی ہے ‘ جب کہ مردوں میں تو یہ عام ہے ۔
ہر چیز ڈیزائن کے مطابق ہے ۔ دنیا میں اس وقت سات ارب مختلف انسانی چہرے موجود ہیں ۔ ہر چہرہ منفرد ہے۔ ہم اس سب کو for grantedلیتے ہیں۔ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ چہرے کی جلد کے نیچے چودہ عدد ہڈیاں ہیں ؛ اگر ان ہڈیوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیا جائے‘ تو شکل بھیانک ہوجاتی ہے ۔ کسی rareڈس آرڈر کی وجہ سے کسی بچّے میں یہ ہڈیاں ٹھیک نہ بن پائیں تو شکل بہت خوفناک ہو جاتی ہے ۔ ان میں سے ایک ایک ہڈی کی لمبائی چوڑائی‘ اس کی موٹائی پیمائش کے تحت تیار کی گئی ہے ‘ پھر اس پہ گوشت چڑھایا گیا ہے اور اس گوشت کے اندر سے نروز اور خون کی نالیاں گزاری گئی ہیں ‘ پھراس کے اوپر خوبصورتی کو آخری ٹچ دینے کیلئے جلد بنائی گئی ہے ۔
اسی طرح مرد اور عورت کی آواز میں فرق پر غو رکریں ۔تخلیق کرنے والا اتنا بڑا ڈیزائنر تھا کہ اس نے کہیں کوئی کسر چھوڑی نہیں ۔ تخلیق کرنے والا اتنا بڑ اڈیزائنر تھا کہ اس کے پاس ڈیزائنز کی کوئی کمی نہیں تھی ۔ اس وقت دنیا میں سات ارب انسان زندہ ہیں ۔ سب کی انگلیوں کے نشان ایک دوسرے سے مختلف ہیں ‘ پھر وہ کہتاہے کہ تم سوال کرتے ہوکہ ہڈیوں جب بوسیدہ ہو جائیں گی تو ان میں جان کیسے ڈالی جائے گی ؟ ہم تو تمہاری پور پور‘ تمہاری انگلیوں کے نشان بھی دوبارہ درست کر دیں گے ۔ اسی طرح سے ہم تو نہیں پہچان سکتے‘ لیکن ہر سپیشیز میں ہر جانور ‘ ہر پرندے اور ہر سانپ کی شکل دوسرے سے مختلف ہے۔ ہم تو نہیں پہچان سکتے‘ لیکن وہ ایک دوسرے کو بخوبی پہچانتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور دوسروں کی پکار کا جواب دیتے ہیں ۔
یہاں سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ تخلیق کرنے والا اتنا بڑا ڈیزائنر تھا کہ اس کے پاس infiniteڈیزائنز موجود ہیں ۔اس کے پاس resourcesکی بھی کوئی کمی نہیں ۔ اس لیے کہ یہاں اس زمین پر تو ہم وسائل کی کمی کارونا روتے ہیں‘ لیکن ایک ایک سیارے میں لوہے‘ کوئلے اور سونے کے بے شمار ذخائر موجود ہیں اور انہیں کوئی استعمال کرنے والا نہیں ۔ خود‘ اگر ہم اس قابل ہوتے کہ اپنے سورج کے اندر جا کر قیمتی عناصر اٹھا کر لا سکتے تو دنیا کا ہر بندہ اور اس کی آنے والی سات سو نسلیں کھرب پتی ہوتیں۔
کبھی کبھی انسان سوچتاہے کہ کائنات اتنی وسیع کیوں ہے ؟ ایک سورج ہوتا اور اس کے گرد آٹھ زمینیں گردش کرتیں ‘ کیا یہ کافی نہیں تھا؟ ہو یہ رہا ہے کہ ایک کہکشاں میں سور ارب سورج ہیں اور ان کے گرد سو ارب زمینیں ہیں ۔ کہکشائیں بھی سینکڑوں ارب ہیں ۔ لگتا ایسا ہے کہ تخلیق کرنے والے نے اپنا جاہ و جلال دکھایا ہے ‘ اپنی تخلیقی قوت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے ایک بہت بڑے مصور کو کہا جائے کہ بچوں کے سکول میں نمائش کے لیے ایک عام سی پینٹنگ کی ضرورت ہے ۔ اب ایک عظیم مصور یا ایک عظیم مصنف جتنا بھی عام سطح پر اترنا چاہے‘ اس کا قلم اور اس کا برش اس کی عظمت کا نشان ضرور چھوڑ جائے گا ۔ شاید یہی کائنات بنانے کے دوران ہو اہے کہ جانداروں کو تو ایک زمین ہی کافی تھی ‘لیکن تخلیق کرنے والے نے تو وہ کچھ بنا دیا ‘ جس کہ دیکھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں اور یہ سب صرف اور صرف انسان کے لیے تخلیق کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ وہ انہیں دیکھ کر خالق کی قوت کا اندازہ لگا سکے ۔ اس کے پاس موجود لامحدود وسائل کا اندازہ لگا سکے ۔اگر کائنات لا محدود ہے تو اس کا جائزہ لینے والا انسانی دماغ بھی لامحدود ہی ہے ناں!
اگر انسان کبھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ کائنات کی وسعتوں پہ غور کرے تو خود ہی اندازہ ہونے لگتاہے کہ جنت خدا کس چیز کوکہتاہے اور اس کی وسعتیں کیا ہوں گی ۔
مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ انسان short termمیں سوچتاہے ۔ اس کی سوئی اپنے پانچ مرلے کے پلاٹ پہ اٹکی ہوتی ہے ‘ وہ کہاں لا محدود کائنات کا جائزہ لیتا پھرے !