تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     21-05-2019

سولہواں پارہ

سولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے میں جناب موسیٰ ں کی جناب خضرں سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام جناب خضر  کے کشتی میں سوراخ کرنے کے بعد ایک خوبصورت بچے کے قتل پر بھی بالکل مطمئن نہ تھے۔ اس لیے آپ نے اس پر بھی اعتراض کیا تھا ۔جناب خضر ں نے جناب موسیٰ ں کو کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ جناب موسیٰ ں نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب ‘اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنے سے علیحد ہ کردیجئے گا۔ جناب خضر ںاور موسیٰ ں اکٹھے آگے بڑھتے ہیں؛ حتیٰ کہ ایک بستی میں جا پہنچتے ہیں۔ بستی کے لوگ بڑے بے مروت تھے‘ انہوں نے دو معزز مہمانوںکی کوئی خاطر تواضع نہ کی ۔ اس بستی میں ایک جگہ ایک دیوار گر چکی تھی۔ جناب خضر ں اس کی تعمیر نو شروع کر دیتے ہیں ۔جب دیوار مکمل ہو گئی اور جناب خضرں نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا تو جناب موسیٰ ں نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کا معاوضہ بھی وصول کر سکتے تھے۔ جناب خضر ںنے کہا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آپہنچا ہے‘ میں آپ کو ان تمام کاموں کی تعبیر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں‘ جن پر آپ صبر نہیں کر سکے ۔ حضرت خضر ں نے جناب موسیٰں کو بتلایا کہ کشتی میں میرے سوراخ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جس ساحل پر جاکر کشتی رکی تھی‘ وہاں پر ایک غاصب بادشاہ کی حکومت تھی ‘جو ہر بے عیب کشتی پر جبراً قبضہ کیے جا رہا تھا۔ میں نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا‘ تا کہ کشتی کے مسکین مالک‘ بادشاہ کے ظلم سے بچ جائیں‘جس خوبصورت بچے کو میں نے قتل کیا‘ وہ بڑا ہو کر اپنے والدین کے ایمان کے لیے خطرہ بننے والا تھا‘ اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے والدین کو ایک صالح بچہ عطا فرمانے والے ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے ‘دیوار کی تعمیر نو کا‘ تو وہ دیوار ایک ایسے گھر کی تھی‘ جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا ‘ جن کا باپ نیک آدمی تھا اور ان کے گھر کے نیچے خزانہ دفن تھا اور مالک کائنات چاہتے تھے کہ بچے جوان ہو جائیں اور بڑے ہوکر اپنے خزانے کو نکال لیں اور جو کچھ بھی میں نے کیا اپنی مرضی سے نہیں‘ بلکہ اللہ کے حکم پر کیا ۔یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکمل علم ‘اللہ کی ذات کے پاس ہے اور وہ جتنا کسی کو دینا چاہتا ہے‘ دے دیتا ہے؛ اگر چہ جناب موسیٰں اولوالعزم رسول تھے ‘لیکن اللہ نے بعض معاملات کا علم ‘خضر ں کو عطا فرما دیا ‘جن سے جناب موسیٰں واقف نہ تھے۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توانائیوں کو دنیا کی زیب و زینت کے لیے وقف اور صرف کرنے والے لوگوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا‘ جبکہ وہ گمان کرتے ہیںکہ ہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے۔ 
سورہ کہف کے بعد سورہ مریم ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰں کی معجزاتی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ جناب زکریاں جناب مریم کے کفیل اور خالوتھے ۔جب انہوں نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںدعا مانگی‘ اے پروردگار تو مجھے بھی صالح اولاد عطا فرمادے ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب زکریا ں کی فریاد کو سن کر انہیں بڑھاپے میں یحییٰں سے نواز دیا ‘اسی طرح جناب مریم سلام اللہ علیہا کے پاس جناب جبرائیل ں آتے ہیںاور ان کو ایک صالح بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کہتی ہیں کیا میرے گھر بیٹا پیدا ہو گا ؟جبکہ میں نے تو کسی مرد کی خلوت کو بھی اختیار نہیں کیا ۔ جبرائیل امین ں کہتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو پھر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے۔ وہ کُن کہتے ہیں تو چیزیں رونما ہو جاتی ہیں۔ جب عیسیٰں پیدا ہوتے ہیں تو سیدہ مریم لو گوں کے طعن و تشنیع کے خوف سے بے قرار ہو جاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کے دل کو مضبوط فرماتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب آپ کی ملاقات کسی انسان سے ہو تو آپ نے کہنا ہے کہ میںنے رحمن کیلئے روزہ رکھا ہوا ہے‘ اس لیے میں کسی کے ساتھ کلام نہیں کروں گی ۔جب آپ بستی میں داخل ہوتی ہیں تو بستی کے لوگ آپ کی جھو لی میں بچے کو دیکھ کر کہتے ہیں اے ہارون کی بہن‘ اے عمران کی بیٹی نہ تو آپ کا باپ برا آدمی تھا اور نہ آپ کی ماں نے خیانت کی تھی‘ یہ آپ نے کیا کر دیا ؟جناب عیسیٰںنے مریم سلام اللہ علیہا کی گود سے آواز دی: میں اللہ کا بندہ ہوں ‘اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ گود میں لیٹے ہوئے بچے کی آواز سن کر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں ۔
سورہ مریم کے بعد سورہ طٰہٰ ہے۔سور ہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ ںکی کوہ طور پر اپنے ساتھ ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ موسیٰ ں آ پ کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ جناب موسیٰںنے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ ں کو اپنی چھڑی زمین پر گرانے کا حکم دیا۔ چھڑی زمین پر گرتے ہی اژدھے کی شکل اختیار کر گئی‘ جسے دیکھ کر جناب موسیٰ ں خوف زدہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰں کو عصا اٹھانے کا حکم دیا اور کہاکہ یہ دوبارہ اپنی شکل میں واپس آجائے گی ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ ں کو 
فرعون کے سامنے جا کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کھول دے ‘میرے معاملے کو آسان کر دے‘ میری زبان سے گرہ کو دور کردے‘ تاکہ لوگ میری بات کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور میرے اہل خانہ میں سے ہارون ں کو میرا وزیر بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ ں کی دعا کو قبول کیا اور ہارون ں کو آپ کا نائب بنا دیا۔ آ پ ‘دربارِفرعون میں آئے تو فرعون نے اپنی قوم کی حمایت حاصل کرنے کیلئے آپ سے سوال کیا کہ میری قوم کے وہ لوگ جو ہم سے پہلے مر چکے ہیں‘ آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جناب موسیٰںکا ذہن علم و حکمت سے پُر تھا آپ نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ہے اور میرا پروردگار نہ کبھی بھولا ہے اور نہ کبھی گمراہ ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرعون کو تباہ و برباد کردیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰں کو اپنی ملاقات کے لیے بلایا ۔جب جناب موسیٰںاللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو رہے تھے تو قوم ِموسیٰ نے ان کی عدم موجودگی میں سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔موسیٰںجب واپس پلٹے تو اپنی قوم کو شرک کی دلدل میں اترا ہوا دیکھ کر انتہائی غضبناک ہوئے اور جناب ہارونں سے پوچھا کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کی ۔جناب ہارون ں نے کہا کہ میں نے ان پر سختی اس لیے نہیں کی کہ کہیں یہ لوگ منتشر نہ ہوجائیں۔
جناب موسیٰ ںکا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو آگ لگا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہا دیا اورا س جھوٹے معبود کی بے بسی اور بے وقعتی کو بنی اسرائیل پر ثابت کردیا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید میں مذکور واقعات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔(آمین)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved