تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-05-2019

پھر چُھپ کیوں رہے ہیں ؟

اگر آپ نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی؛ اگر آپ بے گناہ ہیں؛ اگر آپ کو سیا سی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو آزاد عدلیہ پر مکمل بھروسہ بھی ہے‘ تو پھر اپنی بے گناہی کا شور مچانے والے یہ لوگ نیب کا سامنا کرنے کی بجائے اس سے بھاگتے ہوئے جگہ جگہ چھپنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے چیئر مین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے19 مئی کو ایک نجی ٹی وی اینکر کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نیب من گھڑت الزامات لگا رہا ہے اور اس کے پاس آپ کی کسی بھی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں‘ تو پھر کسی کو نیب سے ڈرنے یا ڈر کر روپوش ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘ بلکہ ڈٹ کر الزامات کا سامنا کرتے ہوئے میڈیا اور عوام کے سامنے کٹہرے میںکھڑے ہو کر جواب دینا چاہیے۔
چیئر مین نیب یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ فالودے والے یا پنکچر لگانے والے سے آپ کے کروڑوں روپے کے کاروباری تعلقات کب اور کیوں قائم ہوئے ؟ آپ کے برسوں سے چلے آ رہے‘ دفتری نائب قاصد اور مال روڈ کے سامنے پاپڑ بیچنے والے سے اربوں روپے کی تجارت کیوں ہوتی رہی؟ یہ مدلل جوابات سر آنکھوں پر‘ لیکن کوئی ہمیں یہ بھی تو بتائے کہ ڈالرز کی اڑان کے مرتکب لوگوں پر کب ہاتھ ڈالا جائے گا؟ ڈالر سے یاد آیا کہ ڈالر گرل ایان علی کے خلاف مقدمے کی فائلوں کوزمین کھا گئی ہے یا آسمان؟ ایان علی کو گرفتار کرنے والے کسٹم انسپکٹر کو تو اس کے انجام تک پہنچا دیا گیا‘ اسے تو اس کی گستاخی کی سزا دیتے ہوئے منظورِ نظر کو پیغام دے دیا گیا کہ تمہارا بدلہ لے لیا ہے‘ لیکن یہ بدلہ لیا تو آخر ریا ست کے اندر ہی لیا گیا‘ تو پھر قانون ان قاتلوں سے خوف زدہ کیوں ہے؟ کسٹم انسپکٹر کے بچے پوچھ رہے ہیں کہ نہ جانے کون خالد شہنشاہ کی طرح ان کے باپ کو بھی قتل کر کے ایسا روپوش ہواکہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی طرح اس کا سر پیر نہیں مل رہا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل نیب پنجاب شہزاد سلیم‘ جنہیں اپوزیشن سمیت بہت سے سرکاری افسران اور میڈیا کے کچھ حلقوں کی جانب سے سب سے زیا دہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ سے ایک مرتبہ اپوزیشن کے لگائے جانے والے الزامات پر پوچھا تو وہ کہنے لگے :سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھئے کہ ہمارے لئے کوئی بھی اپوزیشن اور حکمران نہیں‘ چیئر مین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے دور میں حکمران اور اپوزیشن کا تصور مٹ چکا ۔نیب‘ اب ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کررہا ہے ۔اس لیے یہ کہنا کہ نیب اپو زیشن لیڈروں سے انتقامی کارروائیاں کر رہا ہے‘ انتہائی نا مناسب بات ہے۔ ہمارے لئے پاکستان کا ہر شہری قابل ِاحترام ہے اور لکھ لیجئے کہ جب تک ہم کسی بھی شخص کے خلاف ملنے والی شکایات کی اپنے طور پر عمیق نظروں سے تفتیش نہ کرلیں ‘کبھی اس کے خلاف مقدمہ قائم نہیں کرتے اور نہ ہی اسے گرفتار کرتے ہیں ‘جب ہمارے پورے بورڈ کے سامنے مکمل ثبوت آجاتے ہیں‘ تو پھر اس کی گرفتاری یا ریفرنس تیار کر تے ہوئے احتساب عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ان کی یہ ساری باتیں درست ہیں ۔
ایک نیب کے چیئر مین اور دوسرے ذمہ داروں کو اپوزیشن جماعتوں کے اس تاثر کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کرنا ہو گی‘ جس سے عوام میں یہ تاثر پھیلا کہ نیب محض انتقامی کاروائیاں کر رہا ہے۔ اس کیلئے انہیں صرف اس شخص کو پکڑ میں لانا چاہیے‘ جس کے خلاف ان کے پاس ناقابل ِتردید کرپشن کے شواہد ہوں اور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے پاس سیا ستدانوں کے علا وہ ‘اگر کرپشن کے ثبوت ہوں ‘تو وہ اس لئے گرفت میں نہ لائے جائیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں‘جس طرح سیا ستدانوں کو نیب اپنی پکڑ میں لا رہا ہے‘ اسی طرح سول سروسز کے افراد کی ایک فہرست‘ وطن ِ عزیز کے کئی ملین ڈالر لوٹ کر اندرون اور بیرون ملک بے نامی اکائونٹس میں ڈال چکی ہے ‘ان کی تلاش کوئی مشکل نہیں۔ یہ فہرست‘ احد چیمہ اور فواد حسن فوا دپر ہی ختم نہیں ہو جاتی‘کیونکہ پاکستان کو برباد کرنے والوں میں؛ اگر سیاستدانوں نے بے رحمی سے کام لیا ہے‘ تو کچھ بیورو کریٹس نے بھی انتہائی ڈھٹائی سے ا س ملک کو لوٹا ہے۔
گزشتہ دنوں جب آصف علی زرداری نے جیسے ہی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اب یا تو نیب رہے گا یا معیشت ‘ تو ان کے اس لگائے گئے نعرے کے چند گھنٹوں بعد اسے اتفاق کہئے یا کچھ اور کہ ڈالر پاکستان کی مارکیٹ سے اس طرح غائب ہونا شروع ہو اکہ یہ کرنسی نایاب ہو کر رہ گئی اور اس کی تلاش کیلئے منہ مانگی قیمت اس طرح دی جانے لگی کہ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ہر جانب ڈالر گرل ایان علی کے پھیرے شروع ہو گئے ہیں۔ نیب یا معیشت کی دھمکی کے بعد کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ملک کی تمام خفیہ اور تفتیشی ایجنسیاں ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں یا ان سے خوف زدہ ہو کر کہیں چھپ کر بیٹھ گئی ہیں؟ایسا ہر گز نہیں ہے۔19 مئی کو اسلام آباد کے بلاول ہائوس میں جب اپوزیشن جماعتوں کے اعزاز میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا جا رہا تھا‘ تو ویٹرز کی وردی پہنے ہمارے استاد گوگا دانشور بڑے اہتمام سے 65 کے قریب رہنمائوں کی خصوصی افطاری کیلئے انواع و اقسام کے کھانے بڑی بڑی میزوں پر سجا رہے تھے ‘تو بھنے ہوئے تیتروں کی بیش قیمت ٹرے دیکھتے ہوئے سوچنا شروع ہو گئے کہ ایف آئی اے کی جعلی اکائونٹس کیس میں کی جانے والی ان رپورٹس میں نہ جانے کتنی سچائی ہے کہ بلاول ہائوس کراچی کے روزانہ کے اخراجات کی ادائیگیاں انہی جعلی اکائونٹس سے کی جاتی تھیں۔
چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا یہ کہنا کہ جمہوریت احتساب نہیں‘ اعمال کی وجہ سے خطرے میں آتی ہے ‘کروڑوں کی ٹرانزکشن پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ احتساب جمہوری نظام کو معتبر اور شفاف بناتا ہے۔ نیب نے سرکاری خزانہ کی لوٹ مار کی تحقیقات کا آغاز شروع کیا‘ تو پیپلز پارٹی نے نیب پر تنقید شروع کر دی اور 29اپریل کو آصف علی زرداری نے کہا کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘ بعض حلقے سٹاک مارکیٹس کے کریش کرنے اور موجودہ معاشی بحران کی وجہ بھی کرپٹ سیاسی اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کو قرار دیتے ہیں۔ چیئرمین نیب کا یہ کہنا مبنی برحقیقت ہے کہ احتساب اور معیشت تو ساتھ چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے‘ مگر نیب اور کرپشن ساتھ نہیں چل سکتے۔ بہتر ہو گا کہ حکومت احتسابی عمل میں نا صرف نیب سے بھر پور تعاون کرے‘ بلکہ چیئرمین نیب کے نیب زدہ افراد کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات نہ کرنے کے مشورہ پر بھی خلوص دل سے عمل کرے‘ تاکہ ملک کریش کے عفریت کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved