سوشل میڈیا پر چلنے والے ایک ویڈیو کلپ میں دکھایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں ارکان پارلیمنٹ ایوان کے اندر کس طرح ایک دوسرے کی درگت بناتے ہیں۔ اپنی مخالف جماعت کے ارکان پر کرسیاں اور فائلیں تک پھینکی جاتی ہیں۔ اسی طرح کی سرگرمیاں ہمیں پاکستان میں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان ایوان کے اندر اپنی مخالف جماعت کے لیڈروں کے بارے میں ہتک آمیز بیانات دیتے ہیں۔ یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ اپوزیشن ارکان سپیکر کے پوڈیم کے سامنے جا کر شدید نعرے بازی کرتے ہیں یا احتجاجی پوسٹرز لہرا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ دوسرے ارکان کو مداخلت کر کے ہاتھا پائی کو روکنا پڑتا ہے۔
اگر اپنے ماضی میں جھانکیں تو ہم اس سے بھی زیادہ ناخوشگوار صورت حال کا سامنا کر چکے ہیں۔ ستمبر 1958ء میں مشرقی پاکستان صوبائی اسمبلی میں سنگین تشدد اور ہلڑ بازی دیکھنے میں آئی تھی۔ اجلاس کے دوران ارکان اسمبلی ایک دوسرے کے خلاف تشدد پر اتر آئے جس میں مائیکرو فون اور کرسیوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ ڈپٹی سپیکر‘ جو اس وقت اجلاس کی صدارت کر رہے تھے‘ سمیت کئی ارکان اسمبلی زخمی ہو گئے۔ انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا تھا‘ جہاں ڈپٹی سپیکر زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کر گئے تھے۔
1988-99ء کے دوران ارکان اسمبلی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے سالانہ خطاب کا یا تو ہمیشہ بائیکاٹ کیا یا ان کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی کی۔ اس ساری صورت حال کا کیا مطلب ہے؟ جمہوریت محض الیکشن کروا دینے یا اسمبلیوں کے وجود کا نام نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک حقیقی جذبے کے ساتھ کسی ادارے کو چلانا ہی جمہوری عمل کہلاتا ہے۔ جمہوریت کی کامیابی یا ناکامی میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جمہوریت ہم سے پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی تقاریر اور بیانات کے دوران تحمل اور باہمی احترام، سیاسی برداشت اور ڈیکورم قائم رکھنے کا تقاضا کرتی ہے۔
جمہوریت کی کامیابی میں ایک اہم فیکٹر یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ صرف حکمرانوں، اشرافیہ اور معاشرے کے متمول طبقے کی باندی بن کر نہ رہ جائے۔ اسے چاہئے کہ عام آدمی کا ترجیحی بنیادوں پر خیال رکھے، اس کے سیاسی اور سماجی مسائل پر توجہ دے۔ اسے مستقبل کے حوالے سے عوام کو امید اور حوصلہ دینا چاہئے اور قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف کی فراہمی کے لئے کام کرنا چاہئے۔
اگر وقت گزرنے کے ساتھ عوام کو یہ احساس ہونے لگے کہ ان کی منتخب کردہ حکومت یا پارلیمنٹ ان کی سماجی اور معاشی حالت بہتر بنانے سے قاصر ہے یا وہ بہتری لانا ہی نہیں چاہتی تو ان کا سیاسی نظام سے اعتماد اور اعتقاد اٹھ جاتا ہے؛ چنانچہ عوام کے غیر جمہوری نظریات اور گروہوں کے چنگل میں پھنسنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر عوام کو یہ احساس ہونا شروع ہو جائے کہ یہ سیاسی عمل اور سیاسی ادارے محض حکمرانوں اور معاشرے کے بالائی طبقات کے مفادات کا ہی تحفظ کرتے ہیں اور ان کے معاشی اور سماجی حالات میں کبھی بہتری نہیں آئے گی تو وہ کبھی جمہوریت کے تحفظ کیلئے کھڑے نہیں ہوتے۔ جس معاشرے میں غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہو رہا ہو وہاں جمہوریت کبھی محفوظ نہیں ہوتی۔
اگر کوئی سیاسی نظام اپنی کارکردگی کی ساکھ سے محروم ہو جائے تو وہ کبھی فوج اور افسر شاہی کی طرف سے آنے والا دبائو برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ دونوں بہت منظم ہوتے ہیں۔ فوج ہمیشہ ٹائم ٹیبل کے تابع کام کرتی ہے اور اس کو اپنی ذمہ داری تیزی اور مؤثر طریقے سے مکمل کرنے کی تربیت ملی ہوتی ہے۔ اگر ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر سکیورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہو تو اس کا کردار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ انہی عوامل کی بنا پر ان اداروں میں سیاسی مہم جوئی کا جواز پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان کو ایک جمہوری ملک کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں جمہوریت کا انفراسٹرکچر اور پروسیس موجود ہے اور کام بھی کر رہا ہے۔ جمہوریت ان ممالک میں کارگر ثابت ہوتی ہے جن کی آبادی زیادہ اور متنوع ہوتی ہے۔ اگر جمہوریت اپنے اصولوں کی روشنی میں مؤثر انداز میں کام کرتی ہے تو اس میں کلچرل، ریجنل اور نسلی تنوع کی قبولیت کے لئے گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں ایک ایسا فریم ورک وضع ہو جاتا ہے جس میں آپ تنوع کو مسترد کرنے کے بجائے اس کے لئے گنجائش پیدا کر کے باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے لئے اہم مسئلہ اس کی ابتر کوالٹی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے بنیادی اصولوں مثلاً آئین پسندی، قانون کی حکمرانی، سول اور سیاسی حقوق، سماجی اور معاشی انصاف پر عمل نہیں کیا جاتا۔ سیاسی نظام صرف اشرافیہ اور مقتدر طبقات کے مفادات کا ہی خیال رکھتا ہے۔ صحت عامہ، تعلیم، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور دیگر شہری ضروریات کے لئے ریاست کا رویہ اور رجحان انتہائی کمزور ہوتا ہے۔
منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی ناقص کارکردگی کے باوجود عوام کا نمائندہ حکومت پر اعتماد مضبوط ہے۔ وہ پُر امید رہنے کے ساتھ ساتھ یہ دعائیں بھی کر رہے ہیں کہ جمہوریت انہیں بنیادی سماجی خدمات ضرور فراہم کرے گی؛ تاہم اگر عوام کی امنگوں اور آرزوئوں کو طویل عرصے تک نظر انداز کیا گیا تو سیاسی نظام سے وابستہ عوامی وفاداری کا رجحان کمزور بھی پڑ سکتا ہے۔
اگر سیاسی اور سماجی رہنما جمہوری کلچر کو فروغ دیں تو پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ مغربی جمہوریتوں کے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جمہوریت اسی وقت مستحکم ہوتی ہے جب سیاسی و سماجی اشرافیہ اور سیاسی طور پر متحرک حلقے جمہوری اقدار اور کلچر کو زندگی کے عمومی چلن کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ عوام کی اکثریت کو اپنی روزمرہ زندگی اور معمولات میں جمہوری کلچر پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عوام ایک عادت کے طور پر قانون کا احترام اور اس پر عمل کرتے ہیں اور اپنے باہمی تعامل میں تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اختلاف رائے کا احترام کئے جانے کی ضرورت ہے۔
صرف عوام اس وقت تک جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھا سکتے جب تک ایک طرف ریاست اور حکومت اور دوسری طرف سیاسی اور سماجی رہنما جمہوری کلچر پر مبنی جمہوری ریاستی نظام کی تشکیل کے لئے مل کر کام نہیں کرتے۔ ایک جمہوری حکومت‘ جو اپنے شہریوں کے مستقبل کو تابندہ کرنے کے لئے اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوتی ہے‘ ہی جمہوری اقدار اور کلچر کو استحکام بخش سکتی ہے۔ حکومت کو قانون کی حکمرانی، ذات پات، نسل، مذہب اور صنفی امتیاز سے قطع نظر تمام شہریوں کے ساتھ مساوات پر مبنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے اور اپنے عوام کو ریاستی مشینری، دوسرے شہریوں اور ان کے گروہوں کے جبر و استبداد سے تحفظ فراہم کرنا چاہئے۔ اسے کلچرل، مذہبی اور سماجی عدم برداشت کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنی چاہئے اور شدت پسند گروہوں کی جانب سے اخلاقیات کی نگرانی پر بھی چیک رکھنا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو بھی اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ اگر وہ جمہوری فریم ورک کے اندر رہ کر کام نہیں کریں گے اور جمہوری اقدار کی پاسداری نہیں کریں گے تو وہ بھی جمہوریت کو نقصان پہنچائیں گے۔
پاکستان کی جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ کو اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ ایک جمہوری نظام بھی عوام کو سماجی خدمات کی فراہمی کا ذریعہ بنتا ہے اور غربت، پسماندگی اور نوجوانوں کی بیروزگاری جیسے مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان میں یہ عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آئین کی حکمرانی اور نمائندہ حکومت کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہئے اور توقع بھی یہی ہے کہ یہ سسٹم کام کرتا رہے گا؛ تاہم داخلی اور خارجی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس کی جڑیں اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتیں جب تک سیاسی اشرافیہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جمہوری کلچر پر عمل پیرا نہیں ہوتی‘ اور اپنے حقیقی جمہوری رویے کی عمدہ مثالیں قائم کر کے معاشرے میں ان اقدار کو پروان نہیں چڑھاتی۔