اپوزیشن نے بھی کیا کمال کیا ہے۔ عید سے پہلے عید کا سماں پیدا کر دیا۔ چند ہفتوں سے جو آنیاں جانیاں لگی ہوئی تھیں اُن کی بدولت: ع
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
کا سماں پیدا ہوا‘ جو بالآخر روٹھے ہوؤں کو من جانے اور بچھڑے ہوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی تحریک دینے کا باعث بنا۔ اپوزیشن کی سرکردہ جماعتوں نے میٹھی عید کے بعد حکومت کے منہ کا مزا خراب کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد ن لیگ نے بھی حکومت مخالف تحریک چلان کا اعلان کردیا ہے۔ ن لیگ کے قائد محمد نواز شریف گرین سگنل دے چکے ہیں۔ بلاول بھٹو کے افطار ڈنر میں مریم نواز کی شرکت اس امر پر مہر ِ تصدیق ثبت کرنے کیلئے کافی ہے کہ حکومت کے خلاف ایک ہونے کی تیاری کی جارہی ہے۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ نتائج ہمیشہ مختلف رہے ہیں۔ نتائج مختلف تو ہونے ہی تھے‘ کیونکہ حالات بھی مختلف تھے۔ اب کے بھی معاملات کچھ اور ہیں۔ مقصد ؛البتہ ایک ہے۔ یہ کہ حکومت کا ناطقہ بند کردیا جائے‘ مگر یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ وہ تین چار سال پہلے کی تمام باتیں بھول جائیں۔ ن لیگ کی حکومت کا ناطقہ بند کرنے میں‘ اُنہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ کنٹینر کی سیاست کے زمانے میں اُنہوں نے جو کچھ کیا تھا‘ بہت حد تک اب اُسی کا خمیازہ اُنہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ع
اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
خیر گزری ہے کہ اپوزیشن نے اب تک ہلکا ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ حکومت‘ جس انداز سے بھنڈ پر بھنڈ کرتی جارہی ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر ن لیگ یا پی پی پی کی حکومت ہوتی تو اپوزیشن ایسے لتے لیتی کہ دنیا دیکھتی۔ سات آٹھ ماہ تک تماشادیکھنے اور تمام امکانات کا جائزہ لینے کے بعد اب اپوزیشن نے طے کیا ہے کہ حکومت کو مزید رعایتی نمبر نہ دیئے جائیں۔ یہ فیصلہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ دکھ کی بات ضرور ہے کیونکہ ملک اب سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہم سیاسی محاذ آرائی کے متحمل تو خیر کبھی نہیں ہوسکتے تھے۔ جب بھی یہ میلہ سجا ہے ہمیں پریشانیاں ہی ملی ہیں۔
عمران خان کیلئے یہ خاصی مشکل گھڑی ہے۔ سخت‘ بلکہ سخت تر فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں اور قوم ایسے فیصلوں کیلئے تیار نہیں۔ ہو بھی کیوں؟ جھیلنے کی بھی کوئی حد تو ہوتی ہی ہے۔ میر حسنؔ برمحل یاد آئے۔ ؎
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے تِرے
ہم کہاں تک تِرے پہلو سے سَرکتے جاویں
قوم اپنے سوالوں کے جواب اور مسائل کے حل چاہتی ہے۔ کوئی جواب مل رہا ہے نہ حل‘ پھر بھلا مایوسی کیوں نہ پھیلے‘ ارادوں پژ مردگی سی کیوں نہ چھائے؟
گزشتہ دور حکومت‘ کم و بیش پورا کا پورا‘ احتجاج سے عبارت تھا۔ عمران خان اور اُن کی ٹیم نے ''کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کے اصول کی بنیاد پر طے کرلیا تھا کہ معاملات کو چلنے نہیں دیا جائے گا اور چلنے نہیں دیا گیا۔ ساری دھماچوکڑی صرف اس بات کیلئے تھی کہ کسی نہ کسی طور حکومت کو چلتا کیا جائے اور معاملات اپنے ہاتھ میں لیے جائیں اور پھر ایسا ہو بھی گیا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق‘ معاملات عمران خان اور اُن کی ٹیم کے ہاتھ میں آچکے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ جو کچھ سوچا تھا وہ ہو جانے پر بھی معاملات کے درست ہونے کی کوئی سبیل نکل نہیں پارہی۔ حکومت کو اب تک معاملات کا سِرا ہی نہیں مل پارہا۔ ایسا نہیں ہے کہ اب تک حکومت کرنے والے کسی اور جہان سے آئے تھے اور انہوں نے کچھ ایسا انوکھا کیا ہے ‘جو سمجھ ہی میں نہ آسکے۔ معاملات کی پیچیدگی ہر دور میں رہی ہے۔ سیاست میں طاقت کے حصول کی کشمکش کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی؛ اگر سسٹم الجھا ہوا ہے‘ تو اس کے ذمہ دار تنہا سیاست دان نہیں۔ سارا ملبہ منتخب نمائندوں پر گرادینا کسی طور قرین ِ انصاف نہیں۔ ہاں! کوتاہیاں اور خامیاں رہی ہیں۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
عمران خان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ڈالر نے کھڑا کردیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدر نے معاملات کو اُن کے لیے مزید الجھا دیا ہے۔ ایسے میں ان کا اور ان کی ٹیم کا تھوڑا بہت بدحواس ہونا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہی تو اُن کا اور ان کی ٹیم کا امتحان ہے۔ اب انہیں ثابت کرنا ہے کہ وہ ملک کو چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اقتدار کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوا کرتا اور موجودہ حکومت کے لیے تو ابتداء ہی کانٹوں سے ہوئی ہے۔
اپوزیشن بظاہر متحد ہے۔ اس کا متحد ہونا بہت حد تک اس بات کا مظہر بھی ہے کہ حکومت اپنی کمزوریوں کو چھپانے میں زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ جمہوریت کا حسن ہے اختلافِ رائے۔ محض مخالفت کی سطح سے بلند ہوکر اگر اختلافِ رائے کی فضاء کو پروان چڑھایا جائے یا چڑھنے دیا جائے تو کچھ نہ کچھ بہتری پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اختلاف برائے اختلاف کی روایت زیادہ توانا رہی ہے۔ اختلافِ رائے کی بجائے صریح اور بے لگام مخالفت کو سیاسی سکہ رائج الوقت کا درجہ حاصل رہا ہے۔ یہ ساری خرابیاں اسی رجحان یا فیشن کی پیدا کردہ ہیں۔ قوم اپنے مسائل کے حل کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار آجائے ‘وہ کسی کو کچھ گردانتے نہیں اور جو اقتدار کے حصول کے لیے سرگرداں ہوں انہیں کسی اور بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔ جن کے نام پر حکومت مانگی اور کی جاتی ہے وہ بے چارے تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ان کے نام پر ہونے والی آنیاں جانیاں صرف اقتدار کے لیے ہوتی ہیں اور اقتدار کے ایوان تک ہی محدود رہتی ہیں۔
عمران خان کا نصیب کہ انہیں بہت نازک موقع پر ملک چلانے کو ملا ہے۔ سی پیک کی نزاکتیں بھی ہیں۔ علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں افغانستان و ایران سے معاملات بھی بہتر رکھنے ہیں۔ تیسری سمت سے بھارت دباؤ بڑھا رہا ہے۔ دوست ممالک بھی یہ دیکھنے کیلئے بے تاب ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو کسی نازک صورتِ حال کی طرف لڑھکنے سے کیسے بچاتے ہیں؟ خان صاحب کی صلاحیتوں کے اظہار ہی پر بہت کچھ منحصر ہے۔ دوست ممالک اُسی وقت مزید آگے بڑھیں گے‘ جب خان صاحب سب کچھ آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر قربان نہ کریں اور مستقبل میں ڈھنگ سے پنپنے کی تھوڑی بہت گنجائش رہنے دیں۔
یہ وقت بیان بازی کا‘ کھیل کود کا اور تماشے لگانے کا نہیں۔ قوم کیلئے سب کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ سنجیدہ ہوئے بغیر بات بنے گی نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان روایتی انداز کی محاذ آرائی سے ملک کیلئے پریشانیاں بڑھیں گی اور ظاہر ہے کہ قوم بھی پریشان ہی ہوگی۔ اپوزیشن نے جو کچھ سوچا ہے ‘اُس پر نظر ثانی کرے۔ حکومت بھی معاملات کو سنجیدگی سے نمٹانے کی کوشش کرے۔ سب سے بڑا چیلنج معیشت کو گڑھے سے نکالنے کا ہے۔ دنیا تو کوشش کر رہی ہے کہ یہ گڑھا اور گہرا ہو جائے۔ گڑھے کو ختم کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ‘مگر گڑھے میں گرنے سے بچنے کی کوشش کرنا ہمارے بس کی بات اور فرض ہے اور یہ تو ہمیں کرنا ہی پڑے گا۔ اپوزیشن نے طے کرلیا ہے کہ ملتے ہیں ‘بریک کے بعد۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بریک کے بعد کس کے تھیلے سے ملک کے لیے کون سی بلی برآمد ہوتی ہے۔