تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     24-05-2019

راجہ گِدھ ثانی……(آخری حصہ)

جبلِ علی پر اُٹھنے والا دھواں ہم سے پہلے بلدیہ دبئی تک پہنچ چکا تھا کیونکہ جبلِ علی متحدہ عرب امارات کا جیوئل کہلاتا ہے۔ ایشیا کا بہت بڑا ٹریڈنگ حَب۔ دبئی کی رونقوں کا اصل سورس بھی یہیں پوشیدہ ہے۔
جبلِ علی کے تہلکہ خیز ''اقامے‘‘ دُنیا بھر میں چھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لیے اقامہ کا نام ہی کافی ہے۔ دبئی بلدیہ کے انچارج ہمارے دوست ہیں۔ پچھلے سال مجھے ملنے اسلام آباد بھی آئے۔ اس سے بھی پچھلے سال میں دبئی گیا تھا۔ دبئی واک کی ایک سے بڑھ کر ایک، کریک اور ٹریک سے تعارف A.K.B نے کروایا۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے مشہور ہالی وُڈ ہیرو ٹام کروز کی فلم مِشن امپاسِبل کا سیکوئل دبئی اور برج خلیفہ میں شوٹ ہوا تھا۔ دبئی بلدیہ کی طرف سے اس شوٹنگ کے سارے انتظامات A.K.B کے ذمے تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے‘ یہ گورا صاحب ہیں کون؟ یہ ہیں ہمارے پنجاب کے عبدالکریم باجوہ صاحب جنہیں صرف میں ہی A.K.B لکھتا اور بلاتا ہوں۔
آئیے جبلِ علی کے دھویں کے ذرا قریب چلتے ہیں۔حقیقت میں یہ دھواں پاکستانی لنڈے کو جلانے کا نکلا۔ تب لیدر پراڈکٹس کی ایکسپورٹ پر برآمدکنندہ کو ٹیکس ریبیٹ ملتا تھا۔ پاکستان میں فرضی ٹیکس ریبیٹ ہتھیانے کے لیے ٹیکس بیت المال کو جمع کرنے کے ذمہ داروں سے مِل ملا کر (Value Added) لیدر پراڈکٹس کی بجائے لنڈا ایکسپورٹ ہوتا رہا‘ جسے جبلِ علی لے جا کر ایک ویئر ہائوس میں جلایا گیا۔ رپورٹ شدہ یہ واردات غریب قوم کو اربوں، کھربوں روپے میں پڑی۔ اس بستی میں اربوں‘ کھربوں روپے ایسے ہی سمجھے جاتے ہیں‘ جیسے کسی ٹرک ڈرائیور، چینی والا، چوکیدارے والا، پاپڑ والا یا فالودے والا کے بینک اکائونٹس۔ ان بے نامی بینک اکائونٹس سے ان دنوں ایک نئی ڈیبیٹ نے جنم لے رکھا ہے۔ اور وہ یہ کہ ساری دنیا میں اسی طرح کے بزنس اکائونٹس روٹین میں کھلتے رہتے ہیں۔ یہ مباحثہ ایک سیدھے سوال کو جنم دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے وہ شہری جن کے بیرونِ ملک اکائونٹس ہیں یا بزنس موجود ہیں‘ ان میں سے کوئی شیر دل اس طرح کا ایک بھی اکائونٹ یورپ، امریکہ میں کھلوا کر دکھا سکتا ہے جس میں کسی ایک کا مال و زر کسی دوسرے کے اکائونٹ میں جائے اور قانون اسے بزنس ٹرانزیکشن مان لے‘ منی لانڈرنگ نہ کہے؟ 8 لاکھ 57 ہزار ٹیکس دینے والوں کے ملک کی کل آبادی 20 کروڑ 50 لاکھ ہے۔ اس عجائبستان کی ایک اور گلی میں جھانکتے ہیں‘ جہاں پٹرول پمپ، سروس ایریاز، گیس سٹیشن اور سروس سٹیشن قائم ہیں۔ ان کے ساتھ ٹَک شاپس، دکانیں اور نہ جانے کمائی کے کون کون سے مزید کائونٹر کھلے پڑے ہیں۔ ان کی تعداد ملک کی ساری شاہراہوں، سڑکوں، ذیلی سڑکوں، شہروں، قصبوں، دیہات اور محلوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے۔ جہاں روزانہ سینکڑوں کی نہیں ہزاروں، لاکھوں کی سِیل ہوتی ہے۔ 15/20 ملازم ایسے ہر سٹیشن پر 24 گھنٹے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ یہ سٹیشن دن رات کُھلتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا‘ یہاں جتنی پرچیاں کٹتی ہیں‘ اتنا ٹیکس خزانے میں کیوں جمع نہیں ہوتا۔ یہی حال ساتھ والے محلے کا بھی ہے‘ جس میں کلینک، میٹرنٹی ہوم، ہسپتال، شِفا خانے، گئی جوانی واپس لانے کے ماہر خاندانی حکیم، فارمیسی، میڈیکل سٹور سب ملا کر لاکھوں سے کیا کم ہوں گے‘ جن کی روزانہ کی سیلز بھی لاکھوں میں ہی ہیں۔ یہاں لاکھوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو 24 گھنٹے بجلی نہ جلاتا ہو۔ کیا ان سب کی ریاست ماں ان کے منافعے میں شریک ہے؟ المیہ یہ ہے کہ اس کا جواب بھی نفی میں ہی مِل سکتا ہے۔
اب آئیے ذرا ملک کے بڑے فی میل برانڈز کی چکا چوند دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ اگلے دن ایک اچھی فیملی کی ایک خاتون قانونی مشورے کے لیے آئیں۔ ذرا ان کا مقدمہ سن لیجئے۔ خاتون نے شہر کے 10/12 بڑے برانڈز سٹورز کے نام لیے جو خواتین کے عروسی ملبوسات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ خاتون نے فیملی میں ایک شادی کے آرڈرز دینے تھے۔ عروسی جوڑوں کے ریٹ طے ہوئے۔ خاتون نے اپنے بینک کا کریڈٹ کارڈ نکالا اور شاپنگ کی رقم ادا کرنے کے لیے کہا۔ خاتون کو سارے سٹورز نے ایک ہی جواب دیا: ہمارے ہاں نئی کسٹمرز پالیسی آ گئی ہے‘ جس کے تحت اب کریڈٹ کارڈ نہیں چلتے‘ ہم کیش لیتے ہیں۔ میں نے معزز خاتون کو اسلام آباد کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 1995ء کا بتلایا اور انہیں کنزیومر کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ ذرا غور کیجئے! اس نرالی بستی پر‘ جو اَب ایک پوری انڈسٹری ہے‘ جس کے پے رول پر ریمپس، فن کار، گلوکار اور اداکار ہیں۔ کیٹ واکس (زنانہ اور مردانہ)۔ من مرضی کے ریٹس۔ منہ مانگے دام۔ جیسی گاڑی پر گاہک آیا‘ ویسی ہی پرائس ڈیمانڈ۔ اس سب کے باوجود ایسے لگتا ہے، جیسے ٹیکس چوری جرم نہیں باقاعدہ فن کاری ہے یا انڈسٹری‘ جس میں منظم ترین سلیبس پڑھایا جا رہا ہے۔ ٹیکس چوری کا سلیبس۔ اور پھر ہماری کچہریاں رول آف لاء کے بالا خانے ہیں۔ اگلے روز کسی نے بتایا: یہاں لگاتار اے سی چلتے ہیں مگر بِل دینے کا کوئی روادار نہیں۔ یوں لگتا ہے ان بالا خانوں کے مکین بجلی کو آسمانی بجلی سمجھتے ہیں‘ جس کی مرضی وہ جہاں چاہے گِر جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ گِرا۔
مودی نے بھارت میں راتوں رات کرنسی نوٹ بند کر دیے تھے۔ اس کی قوم کو پریشانی ضرور ہوئی ہو گی‘ مگر تہہ خانوں، ٹینکروں، ٹائلوں اور بِیڈ روموں میں چھپایا ہوا کالا دھن فوراً باہر نکل آیا۔ سعودی ولی عہد M.B.S کا آپریشن کلین اَپ اس سے بھی تازہ واقعہ ہے۔ سارے شہزادے گردن سے پکڑ کر بند کر دیے گئے۔ کِک بیک‘ کمیشن اور کرپشن سے کمائے گئے اربوں ڈالر خزانے کو واپس مل گئے۔ اگر اپنے ہاں ایک خاص تاریخ دے کر اس کے بعد ڈالر سِیل کرنے والے کو 50 فیصد جرمانہ لگا دیا جائے تو پرسوں صبح ہی ڈالروں کے انبار باہر نکل آئیں گے۔ یقین جانیے راجہ گِدھ ڈالر چھپا تو سکتے ہیں‘ کھا نہیں سکتے۔ اس کے باوجود بھی کہ گِدھ کے مقدر میں ازل سے مُردار کھانا لکھا گیا۔ وہ وطن کی مٹی میں محبت کی خوشبو کیسے محسوس کر سکتا ہے۔ راجہ گِدھ کو سڑاند والی اوجھڑی، گلی ہوئی انتڑیاں گُلاب، مُوتیے اور گیندے سے بھلی لگتی ہیں۔ رومیِٔ پوٹھوہار حضرت میاں محمد بخشؒ نے سچ کہا:
قدر پُھلاّں دا بُلبل جانڑے صاف دِماغاں والی
قدر پُھلّاں دا گرج کی جانڑے، مُردے کھاون والی
اکنامک بحران کی بارات میں واردات کے 2 حصے ہیں۔ پہلا ڈالرگیم اور دوسرا منی لانڈرنگ کا کیموفلاج۔ ڈالر 90 فیصد سے زیادہ لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ غیرملکی آئٹمز منگوانے والے اور پھر ان چیزوں کے خریدار کو ڈالر چاہیے یا بیرونِ ملک سفر، بچے کی سمندر پار تعلیم کے لیے مڈل کلاس کا چھوٹا سا حصہ ڈالر ڈھونڈتا ہے۔ دبئی، لندن، امریکہ کی پراپرٹی کی قسِطیں دینے والے روپے میں رقم نہیں بھیج سکتے۔ اسے ڈالر میں تبدیل کرتے ہیں۔ مگر ہمارے محلے کے وَڈّے حاجی صاحب دی ہَٹی کو کس کی نظر لگ گئی۔ دالیں، مرغی، آٹا، چینی، سبزیاں سب پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کو ذخیرہ کرنے والا، مہنگا کرنے والے اور اس کا پروپیگنڈا کرنے والے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگا سکتے۔
کیا ترکی اور ایران ڈالر کے سہارے زندہ ہیں۔ یا قومی تفاخر کی وجہ سے؟؟
کچھ علاجِ وحشتِ اہلِ نظر بھی چاہیے
ایک پتھر بر دُکانِ شیشہ گر بھی چاہیے
ہوں نہ ساغر جس میں سنگ و میل کی پابندیاں
منزلوں تک ایک ایسی رہ گزر بھی چاہیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved