بلاول بھٹو زرداری کا افطار ڈنر ایک اہم پولیٹیکل ایونٹ تھا، جسے حکومت اور پی ٹی آئی کے ردِ عمل نے اہم تر بنا دیا تھا۔ کہتے ہیں، سیاست اعصاب کی جنگ ہے، بلاول کے اس افطار ڈنر کو حکومت نے اپنے سر پر سوار کر لیا تھا اور اعصاب باختگی کی کیفیت چھپائے نہ چھپتی تھی۔ مہمانوں میں مریم نواز بھی تھیں اور یہی چیز اس کا اہم ترین حصہ بن گئی تھی۔ بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد باپ بیٹی نے سیاسی معاملات پر سکوت کی چادر اوڑھ لی تھی۔ کچھ قانونی مصلحتیں بھی ہوں گی لیکن زندگی کے سنگین ترین المیے پر سوگ کی یہ کیفیت فطری تھی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے میاں صاحب کی ڈیڑھ ماہ کی رہائی سات مئی کو ختم ہو رہی تھی( سپریم کورٹ نے توسیع کی درخواست مسترد کر دی تھی) اس سے دو روز قبل مسلم لیگ (ن) کی تنظیمِ نو میں، سولہ نائب صدور میں ایک مریم بھی تھیں۔ تنظیم نو کی فہرست منظر عام پر آئی تو تجزیہ کاروں کی اکثریت کا کہنا تھا، یہ تو معزول وزیر اعظم کے بیانیے کے علم برداروں کی فہرست ہے، تو کیا مسلم لیگ (ن) واپس جی ٹی روڈ والے بیانیے کی طرف جا رہی تھی؟ ''ڈیل‘‘ یا ''ڈھیل‘‘ کے الفاظ بے بنیاد قصے کہانیوں کا عنوان بن گئے تھے۔ سات مئی کی شب جاتی امرا سے کوٹ لکھپت کے زنداں تک کا سفر پرانی منزل کی طرف مسلم لیگ (ن) کے نئے سفر کا آغاز تھا‘ جس میں مریم بہت نمایاں تھیں۔ اب بلاول کے ڈنر میں بھی وہی مرکز نگاہ تھیں۔ ڈنر میں اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر شریک نہ ہو سکے‘ لیکن ان کی پارٹیوں کی نمائندگی بھرپور تھی۔ اسفند یار کی اے این پی اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اپوزیشن کا باقاعدہ حصہ ہیں، سردار اختر مینگل کی بی این پی حکومت میں حصہ دار نہیں؛ البتہ جناب عمران خان، جن چار ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہوئے، ان میں بی این پی کے ووٹ بھی تھے لیکن بی این پی جس چھ نکاتی معاہدے کے ساتھ اس ارینجمنٹ کا حصہ بنی، سردار مینگل اس پر عملدرآمد کے حوالے سے شدید عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بعض مسائل پر، ان کی جماعت اپوزیشن کی ہم نوا بھی ہوتی ہے اور اپوزیشن کے واک آئوٹ میں شامل ہونے سے گریز بھی نہیں کرتی۔
جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے بلاول کا ٹیلی فون پر شکریہ ادا کیا‘ لیکن بعض ''ناگزیر مصروفیات‘‘ کے باعث شرکت سے معذرت کرلی؛ تاہم جماعت اسلامی کی نمائندگی کے لیے لیاقت بلوچ موجود تھے، جو آٹھ سال تک جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل رہے۔
بلاول کے اس افطار ڈنر، کے حوالے سے جو خبر بنی، وہ عیدالفطر کے بعد اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی ہے، جس کی میزبانی مولانا فضل الرحمن کے حصے میں آئے گی۔ کیا یہ کانفرنس کسی باضابطہ ''سیاسی اتحاد‘‘ پر منتبح ہو گی؟ اس اتحاد(؟) کا حتمی ہدف کیا ہو گا؟ کیا نوبت ''عمران خان اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ تک پہنچ جائے گی؟ اور اس کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی؟ (1999ء میں جی ڈی اے کا ون پوائنٹ ایجنڈا نواز شریف ہٹائو تھا تب عمران خان بھی اس اتحاد میں شامل تھے، بے نظیر صاحبہ ایک بار پھر خود ساختہ جلا وطن تھیں؛ البتہ ان کی پیپلز پارٹی اس اتحاد میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر موجود تھی۔ ''نوازشریف اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ جی ڈی اے کی ٹیپ کا بند تھا)۔ جماعت اسلامی نے ایسے کسی اتحاد کا حصہ بننے (اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی ہم سفری) سے معذرت کر لی ہے؛ البتہ 15 جون کو فیصل آباد سے حکومت کے خلاف لانگ مارچ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نواب زادہ صاحب یاد آئے، زندہ ہوتے تو جماعت کی اس تنہا پرواز پر کسی منفی تبصرے کی بجائے شاید یہ شعر پڑھ دیتے۔
سبو اپنا اپنا ہے، جام اپنا اپنا
کئے جائو میخوارو کام اپنا اپنا
بلاول کے افطار ڈنر سے اگلے روز، اسلام آباد میں اپنی جماعت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت، مریم کی ایک اور اہم سیاسی سرگرمی تھی اور اس کے بعد بہاولپور جا کر بلیغ الرحمن سے ان کی اہلیہ اور صاحبزادے کی حادثاتی موت پر تعزیت‘ جہاں انہوں نے اسلام آباد میں 11 سالہ فرشتہ کے سانحہ کے ساتھ ساتھ، جناب قمر زمان کائرہ کے جواں سال صاحبزادے (اور اس کے دوست) کی ناگہانی موت کا بھی ذکر کیا۔ مریم کی آمد، کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی تھی؛ چنانچہ جناب بلیغ الرحمن کے ساتھ تعزیت کی رسم کے بعد سیاسی گفتگو بھی فطری تھی۔ اپنی تندوتیز تقریر میں انہوں نے وزیر اعظم کو نالائقِ اعظم قرار دیا ''جس کے 10 ماہ میں قوم کو ایک بھی خوشخبری نہیں ملی‘‘۔ سعودی عرب سے (تاخیر کے ساتھ ادائیگی پر) سالانہ 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کے تیل کی فراہمی، اس شام مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی زبانی، موجودہ بحران میں ایک اہم خوشخبری تھی لیکن یہ پرانی بات تھی، مشیر خزانہ اسے سعودی ولی عہد کے گزشتہ دورہ اسلام آباد کا حاصل قرار دے رہے تھے (یہ دورہ فروری کے اواخر میں ہوا تھا) لیکن ہمیں تو یاد پڑتا ہے کہ پاکستانی خزانے میں رکھنے کے لیے تین بلین ڈالر کی ''امداد‘‘ اور 3 سال تک، سالانہ تین بلین ڈالر کے تیل کی (تاخیر سے ادائیگی کے ساتھ) فراہمی کا معاملہ تو وزیر اعظم عمران خان کے دوسرے دورۂ سعودی عرب (اکتوبر 2018ئ) میں طے پا گیا تھا۔
سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد اور اس میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے گزشتہ دو کالموں پر احباب کی بڑی تعداد کا ردِ عمل ہماری توقعات سے بڑھ کر تھا۔ سیاسی حالات و واقعات کی ہماہمی اور گرما گرمی میں سیاسی کالم نگاروں کے لیے لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ایسے میں یہ کالم ایک طرح سے پرانے زمانوں کا راگ تھا‘ لیکن پاپ میوزک کے دور میں بھی، کلاسیکل میوزک کی گنجائش موجود رہتی ہے اور یہ کالم تو ہماری شاندار تاریخ کے گمشدہ اوراق کی بازیابی کی کاوش تھے۔ احباب میں کچھ ایسے بھی تھے، جو طنز کیے بغیر نہ رہے، آئین کی کارفرمائی، منتخب پارلیمنٹ کی بالا دستی اور جمہور کی حکمرانی کے دعووں کے ساتھ، ایک ڈکٹیٹر کی تعریف و تحسین؟ یہ واقعی ایک نازک معاملہ ہے۔ ہمارے خیال میں ہوا یہ کہ جنرل پرویز مشرف کے ملبے تلے ضیاء الحق بھی دب گیا۔ ایک ڈکٹیٹر کی مذمت کرتے ہوئے دوسرے ڈکٹیٹر کے لیے کلمۂ خیر بہت مشکل ہے، چاہے دونوں کی ''آمد‘‘ کتنی ہی مختلف اور ان کے مزاج، کردار، اطوار، اہداف اور حکمرانی میں کتنا ہی فرق ہو۔ خیر، یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔ آئین کی کارفرمائی، پارلیمنٹ کی بالا دستی اور جمہور کی حکمرانی ہماری ''ایمانیات‘‘ کا حصہ ہے کہ جمہوریت پاکستان کے لیے محض ایک سیاسی عیاشی نہیں، وفاق پاکستان کے استحکام کا لازمی تقاضا بھی ہے۔
ان کالموں پر احباب نے واٹس ایپ، ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے جو تبصرے کئے، ان سب کا بیان ممکن نہیں۔ ان میں ایک مختصر تبصرہ ڈاکٹر شفیق چودھری کا ہے۔ ان دنوں بزنس کے سلسلے میں بغداد میں ہیں۔ وہاں سے کالموں پر پسندیدگی کے ساتھ دعائوں کا گلدستہ بھی ارسال کیا۔ ایک اور خط میاں خالد صاحب کا ہے۔ میاں صاحب ایک صاحبِ نظر پاکستانی ہیں، مطالعہ کے بے حد شوقین۔ سینیٹر طارق چودھری کے بڑے بھائی ہیں۔ ضیاء الحق سے ذاتی رسم و راہ تھی، غلام اسحاق خاں سے بھی ارادت رہی۔ جدہ میں سعودی عرب کی ایک بہت بڑی کمپنی میں جنرل منیجر کے عہدے پر فائز رہے۔ اپنے سیاسی نظریات سے قطع نظر پاکستانی کمیونٹی کے تمام حلقوں میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے؛ چنانچہ برسوں جدہ میں کشمیر کمیٹی کی صدارت پر فائز رہے۔ ان دنوں لاہور میں ہوتے ہیں۔ میاں خالد کا کہنا ہے کہ پہلے چار سال تک، افغان جہاد افغانوں کی روایتی بندوقوں کے علاوہ روسی رائفلوں سے لڑا گیا، جو ضیاء الحق نے مصر سے خریدی تھیں۔ پاکستانی اسلحہ استعمال کرنے سے اس لیے گریز کیا گیا کہ یہ اسلحہ پکڑے جانے کی صورت میں روسی اسے پاکستان کے خلاف بطور ثبوت پیش کر سکتے تھے۔ ادھر امریکیوں کا یہ حال تھا کہ صدر کارٹر نے صرف اس اعلان پر اکتفا کیا کہ اگلے سال ماسکو میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں امریکی کھلاڑی شریک نہیں ہوں گے۔ معروف دست شناس ایم اے ملک کی کتاب (مطبوعہ فیروز سنز) میں ضیاء الحق کی ہتھیلی کا عکس بھی ہے جس میں ایک تل کا نشان ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ایسے شخص کے کارنامے اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ منکشف ہوتے ہیں، تو لوگ اس کا بے حد احترام کرتے ہیں۔