ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی تو ایک چراغ ہے جو سرِ رہگزر رکھا ہے۔ سیاست کے مسافر چاہیں تو اپنے راستے کو روشن کر سکتے ہیں۔میں نے جب بھی اُن سے رجوع کیا،نہال ہوگیا۔وہ رائے عامہ کی تصویر ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ ہماری آرزو کچھ اورہو یاہمارا تجزیہ ان سے مختلف ہو۔غلطی سے مبرّا ہونے کا دعویٰ انہوں نے بھی نہیں کیا۔ تاہم ان کی ذہانت اور دیانت، دونوں غیر مشتبہ ہیں مگر یہ کہ کوئی حُسنِ ظن کا لفظ اپنی لغت سے کھرچ ڈالے۔یہ حادثہ ایک بار گزر جائے توپھر اٹھارہ کروڑ میں کتنے ہیں جن پر نظر ٹھہرتی ہے؟وہ جو بوجوہ، ہمارے ممدوح ہیں یاپھر وہ،ہم جن کے ممدوح ہیں۔من ترا حاجی بگویم تو مراحاجی بگو! انتخابات سے پہلے،عوامی رحجانات کو جاننے کے لیے گیلپ نے صرف ایک سروے کیا، مارچ 2013ء میں۔اس میں کسی جماعت کی یقینی کامیابی کے لیے کوئی پیش گوئی نہیں کی گئی۔سروے کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے امکانات کی ایک دنیا سامنے آتی ہے۔ن لیگ ہو یا تحریکِ انصاف،جو چاہے ان امکانات کو اپنے حق میں بدل کر انتخابی معرکہ جیت سکتی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ یہ ایک چراغ ہے، سرِ رہگزر۔بے علمی اور بدگمانی کا مگر کوئی علاج نہیں۔ گیلپ سروے پانچ باتوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔یہ باتیں مئی 2013ء کے انتخابات کو پاکستان کے سب سے منفرداوردلچسپ انتخابات بنا دیتے ہیں۔پہلی بات:یہ ایسے انتخابات ہیں، جن کے نتائج کے بارے میں 11 مئی سے پہلے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔انتخابی دوڑمیںایک جماعت وہ ہے جو تیز تر(Runner) ہے۔ دوسری تیز (Runner-up)۔ دوسری بات:کوئی ایک جماعت ایسی نہیں جو ملک کے تمام حصوںمیں یکساں طور پربرتری لیے ہوئے ہے۔ کہیں ن لیگ بہتر ہے ،کہیں پیپلز پارٹی اور کہیں تحریکِ انصاف۔تیسری بات:بالعموم قبل از انتخابات جو فضا قائم ہوتی ہے،ا نتخابی مہم اس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی لیکن اس بار ایسا نہیں ہوگا۔اس کابنیادی سبب ایک ہے: ’ عمران خان فیکٹر‘۔وہ اگر چہ اکثریت کا پہلا انتخاب(first choice) نہیں ہے لیکن غیر معمولی تعداد کا دوسرا انتخاب(second choice) ضرور ہے۔عمران خان کی مقبولیت میں اُتار چڑھاؤ ہے۔چوتھی بات:عمران خان کا ووٹ بینک تین حصوں پر مشتمل ہے:نئے ووٹر، پیپلزپارٹی سے آنے والے، نون لیگ سے آنے والے۔نون لیگ سے آنے والے اکثر واپس لوٹ گئے لیکن عمران بدستور اُن کا دوسرا انتخاب ہے۔کیاایک بار پھر عمران خان اُن کا پہلا انتخاب بن سکتا ہے؟اس سوال کا جواب انتخابی مہم سے ملے گا۔یہ دونوں کا امتحان ہے۔ن لیگ اس ووٹ بینک کو اپنے ساتھ وابستہ رکھ پائے گی یا کیا عمران خان اُ ن کو دوبارہ ساتھ ملانے میں کامیاب رہیں گے؟ووٹرز کے اس حصے کا کردار نتائج میں فیصلہ کن ہوگا۔پانچویں بات:سروے کے نتائج حتمی نہیں لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے:حکومت کسی ایک جماعت کی نہیں،بہت سی جماعتوں کے اشتراک (coalition)سے بنے گی۔اس کا سبب محض عددی نہیں ہوگا کہ کسی ایک جماعت کو واضح برتری نہیں ملے گی بلکہ اس کا ایک سبب تمام صوبوںکی نمائندگی ہے۔ اگر ایک جماعت پنجاب میں عدوی برتری کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن جاتی ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ تنہا حکومت بنائے اور باقی صوبوں کی مر کز میں نمائندگی نہ ہو۔ سروے میں وہ تمام اعداد وشمار موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ نتائج مرتب کیے گئے ہیں۔اس کا سب سے اہم حصہ ’عمران خان فیکٹر‘ہے۔جو لوگ تحریک ِ انصاف کے ساتھ ہیں،اُن میں سے29فی صد وہ ہیں جو نئے ووٹر ہیں۔42فی صد پیپلزپارٹی چھوڑ کر آئے ہیں۔24 فی صد وہ ہیں جو مسلم لیگ ن یا ق کے ساتھ تھے۔گویا تحریکِ انصاف نے سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچایاہے۔یہ اس عمومی تصور کے برخلاف ہے کہ تحریکِ انصاف ن لیگ کو زیادہ متاثر کر رہی ہے۔’عمران خان فیکٹر‘ کو اب ایک دوسرے پہلو سے دیکھیے۔اس سروے کے مطابق جو مارچ میں سامنے آیا، پنجاب میں 59 فیصد لوگ ن لیگ کے ساتھ ہیں اور۱۴ فی صد تحریکِ انصاف کے ساتھ لیکن یہ پوری بات نہیں ہے۔گزشتہ بیس سال میں،پنجاب کا اوسطاً35 فیصد ووٹر مسلم لیگ کے ساتھ تھا اور 29 فیصد پیپلزپارٹی کے ساتھ۔ اب پیپلزپارٹی کا ووٹ10 فی صد ہے۔باقی ووٹر تحریکِ انصاف سے مل گیا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج 30 فی صد ووٹر وہ ہے جس کا دوسرا انتخاب عمران خان ہے۔ اگر انتخابی مہم کے نتیجے میں عمران خان اُس کا پہلا انتخاب بنتا ہے تو پنجاب میں تحریکِ انصاف 44فیصد ہوگی۔ان ووٹرز کی اکثریت کا اِس وقت پہلا انتخاب نواز شریف ہے۔اگر یہ عمران خان کی طرف منتقل ہوتے ہیں تو ن لیگ کو ووٹ 59 فیصد سے کہیں کم ہو جا ئے گا۔ اس صورت میں تحریکِ انصاف پنجاب کی سب سے بڑی جماعت بن سکتی ہے۔اب آئیے سندھ کی طرف۔سندھ میں اس وقت پیپلزپارٹی 37فیصد، ایم کیو ایم19 فیصد اور تحریکِ انصاف 7 فیصد ہے۔12فی صد وہ ہیں جن کا دوسرا انتخاب تحریکِ انصاف ہے۔ اگر یہ ووٹرتحریکِ انصاف کو اپنا پہلا انتخاب قرار دے تو اس کا تناسب 19فیصد ہو جائے گا۔اس کا زیادہ اثر ایم کیو ایم پر پڑے گا جس کا ووٹ بینک اور کم ہو جائے گا۔ یوں تحریکِ انصاف سندھ کی دوسری اور شہری علاقے کی سب سے بڑی جماعت بن سکتی ہے۔ یہ صورت ِ حال بتا رہی ہے کہ 11 مئی تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے امکانات مو جود ہیں اگر وہ اپنی انتخابی مہم کو بہتر طور پر منظم کر لیتی ہے۔میرے نزدیک یہ سروے اگر کسی کے لیے سب سے زیادہ امکانات کے دروازے کھولتا ہے تو وہ تحریکِ انصاف ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ وہاں کسی نے اس کو تفصیل سے دیکھا ہے نہ اس کی رو شنی میں اپنی انتخابی حکمتِ عملی ترتیب دی ہے۔ن لیگ کا وہ ووٹر جو تحریکِ انصاف کو چھو ڑکر واپس لوٹ گیا ہے، اُسے آواز دی جاسکتی ہے۔اس کی واپسی ممکن ہے۔ن لیگ کی سعی و جہد یہ ہوگی کہ وہ اسے قابو میں رکھے۔اب انتخابی مہم ہی اس کا فیصلہ کرے گی۔ووٹرز کی تعداد نشستوں پر کس طرح اثر انداز ہوگی؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے ۔سروے اس کا احاطہ کرتا ہے لیکن میں سرِ دست اس سے صرفِ نظر کر رہا ہوں۔ سب سے اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ آنے والی حکومت لازماً اتحادی حکومت ہوگی۔ہر صوبے کو بہر صورت حصہ دینا ہوگا اور کوئی ایک جماعت شاید سب صوبوں کی نمائندگی نہ کر سکے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے مدِ مقابل کل ایک ساتھ حکومت میں بیٹھ سکتے ہیں۔گویا آج تلخیوں کو اتنی ہوا نہیں دینی چاہیے کہ کل اگر مل بیٹھنا پڑے تو مشکل ہو۔بد قسمتی سے اس وقت انتخابی مہم میں بہت تلخی در آئی ہے۔ اہلِ سیاست نے اگر ابھی سے بعد از انتخابات کے منظر نامے کو پیش ِنظر نہ رکھا تو انتخابی نتائج ملک و قوم کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کی یہ قومی خدمت ہے کہ انہوں نے ہمیں وقت سے پہلے خبردار کر دیا ہے۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ وہ ایک چراغ ہے جو سرِرہگزر رکھا ہے۔افسوس یہ ہے کہ ان کی بات سمجھے بغیر انہیں ہدف بنا لیا گیا ہے۔انہوں نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو جوا بی خط لکھ دیا ہے۔ایک شائستہ اورمہذب آ دمی یہی کر سکتا ہے۔اگر وہ منہ پھٹ اور بد لحاظ ہوتے تو آج کسی سیاسی جماعت کے سیکرٹری اطلاعات ہوتے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved