تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     25-05-2019

بی جے پی کے لیے توقع سے زیادہ

بی جے پی نے انتخابات سے پہلے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے کر جوکچھ حاصل کرناچاہا‘ اُسے شاید اُس سے بھی بڑھ کر ملا ہے۔ اتنا زیادہ کہ خود اُسے بھی اتنے کی توقع نہیں ہوگی۔تبھی تو نریندرمود ی نے انتخابات کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ابھی نندن کا بھی شکریہ ادا کیا‘وہ بھارتی پائلٹ جس کا طیارہ پاک فضائیہ نے آزاد کشمیر میں مار گرایا تھا اور ابھی نندن پاکستان کی قید میں آگیا تھا۔ گویا ابھی نندن کا شکریہ ادا کرنا پوری طرح سے واضح کرتا ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ جان بوجھ کر کشیدگی کو ہوا دی گئی ۔ نتیجے کے طور پربی جے پی کو انتخابات کے دوران بھرپور کامیابی حاصل کرنے میںمددملی۔ گو اتنی بڑی کامیابی کو صرف پاک بھارت کشیدگی سے ہی مشروط نہیں کیا جاسکتا‘ بہرحال اس عنصر نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
بھارتی لوک سبھا کی542نشستوں میں سے بیشتر پر بی جے پی کا قبضہ پکا ہوچکا ہے۔دہلی تخت پر بیٹھنے کے لیے کسی بھی جماعت کو 272نشستیں درکار ہوتی ہیں تو بی جے پی اپنے بل بوتے پر ہی سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکتی ہے ۔گویا اب نریندرمودی ایک مرتبہ پھر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم ہوں گے۔نریندرمودی نے بنارس کے ایک حلقے سے کچھ 70ہزار ووٹوں کی اکثریت سے اپنی سیٹ جیتی ۔ دوسری طرف کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کو اداکارہ سمرتی ایرانی نے چت کردیا‘ وہ بھی امیٹھی میں گاندھی خاندان کے آبائی حلقے سے۔ عام انتخابات میں شکست سے زیادہ اکیلے راہول کی شکست نے کانگریس کو ششدرکردیا ہے۔ کانگریس کی فتح کے آثار تو پہلے سے ہی واضح نہ تھے لیکن راہول کا ہار جانا سبھی کیلئے حیران کن رہا۔ یوں تو اداکارہ سمرتی ایرانی ایک عرصے سے اداکاری چھوڑ چکی ہیں لیکن اداکاری کے بعد بھی ان کا جادو میدان سیاست میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ساس بھی کبھی بہو تھی میں بطور بہو اُن کا کردار ایک عرصے تک برصغیر کی خواتین کے لیے رول ماڈل بنا رہا۔ سمرتی نے ماضی میں بھی انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن اس مرتبہ اُن کی کامیابی کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ آخر اس خاتون نے کانگریس کے سب سے مضبوط امیدوار کو شکست دی ہے۔ بہار‘ بنگال‘ اُترپردیش ‘ چھتیس گڑھ‘ مدھیہ پردیش ‘ مہاراشٹر اور متعدد دیگر ریاستوں میں بی جے پی نے مکمل طور پر اپنی گرفت ثابت کردی۔دہلی کی ساتوں کی ساتوں نشستیں بی جے پی کے قبضے میں آگئیں۔
بھارتی انتخابات کے نتائج کو اگر نر یندرمودی کے حوالے سے ریفرنڈم قرار دیا جائے تو شاید یہ غلط نہ ہوگا۔برسراقتدار آنے کے بعد اس شخص نے اپنا ووٹ بینک بڑھایا تو دوسری طرف اس پر بھارت میں لسانی تعصبات کو ہوا دینے کے بھی الزامات ہیںبلکہ یہ الزام تو مودی کا 2014ء کے انتخابات سے ہی پیچھا کررہا ہے کہ انہوں نے مذہبی منافرت کو ہوا دے کر اقتدار تک راہ ہموار کی اور پھر برسراقتدار آنے کے بعد بھی یہی پالیسی جاری رکھی۔اسی بنا پر مسلمانوں کے لیے بھارت میں زمین تنگ کردی گئی ۔ اس کے باوجود نریندر مودی کی جماعت نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔دراصل نریندرمودی اپنے عوام کو یہ یقین دلانے میں پوری طرح سے کامیاب رہا کہ وہ ملکی مفادات کا بھرپورتحفظ کرسکتا ہے۔اگرچہ وہ ملازمتوں اور دیگر حوالوں سے اپنے وعدے پورے نہیں کرسکا لیکن پھر بھی وہ ووٹرز کی بھرپورتوجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
بہرحال حالات و واقعات کچھ بھی رہے ہوں حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہمسائے میں ایک مرتبہ پھر بنیاد پرستوں کی حکومت آچکی ہے۔مودی ایک مرتبہ پھر وزیراعظم ہوں گے ۔اس حوالے سے ہمارے ہاں بھی کافی رپورٹس میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد نریندرمودی کو دنیا کا دوسر ا خراب ترین شخص ثابت کیا گیا مگریہ آواز بھارتی عوام کے کانوں تک نہ پہنچ سکی ‘ویسے ہی جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے ہماری باتوں پر امریکی عوام نے کان نہیں دھرا تھا۔ ہماری طرف سے بھارتی عوام کو سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی کہ نریندرمودی بہت ہی خراب شخص ہے۔ امریکی انتخابات سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بھی منفی آرا سامنے آتی رہیں ۔ قرار دیا جاتا رہا کہ اُن کی کامیابی دنیا میں امن کو غارت کردے گی لیکن وہ پھر بھی کامیاب ہوگئے۔اب نریندرمودی کے معاملے میں بھی یہی سب کچھ ہوا ہے ۔ اگرچہ ہمارے ہاں یہ تاثر بن چکا تھا کہ شاید بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرپائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بھارتی انتخابات کے حوالے سے اہم ترین بات یہ قرار دی جاسکی ہے کہ اپوزیشن نے انتخابات میں اپنی ہار کو تسلیم کرلیا ہے۔ اُن کی طرف سے نہ صرف نریندر مودی بلکہ کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کو ہرانے والی سمرتی ایرانی کو بھی مبارکباد پیش کی گئی۔اس حوالے سے ہمیں اپنے ہاں کے چلن پر تھوڑا سا شکوہ ہے۔ آپ دیکھئے کہ حالیہ بھارتی انتخابات کے دوران کچھ 90کروڑ کے قریب بھارتی شہری ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ ووٹرز کی اتنی بڑی تعدادہی بھارتی انتخابات کو سب سے بڑے انتخابات بناتی ہے ۔ اس مرتبہ یہ انتخابات سات مرحلوں میں مکمل ہوئے۔ انتخابات کی تکمیل کا اتنا طویل عرصہ دھاندلی کا شور مچانے کے بھی کافی مواقع فراہم کرتا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں کی نسبت وہاں دھاندلی کا شور قدرے کم ہی سننے میں آتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ عالم رہتا ہے کہ حکومتیں اپنی مدت پوری کرلیتی ہیں لیکن دھاندلی کے الزامات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ بالکل بجا کہ ہروقت خود کو اور اپنے ہی لوگوںکو تنقید کر نشانہ بناتے رہنا ہرگز اچھا رویہ نہیں ہے۔لیکن کیا کیا جائے کہ اب شاید ہماری خرابیوں کا پلڑا ہماری اچھائیوں سے کہیں زیادہ بھاری ہوچکا ہے۔پیپلزپارٹی کی حکومت برسراقتدارآئی ‘پانچ سال کی مدت پوری کرلی لیکن اس کے ووٹ چور ہونے کے الزامات ختم نہ ہوسکے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے قدم رنجہ فرمایا تو اس پر بھی انجینئرڈ انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے کے الزامات لگتے رہے۔اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تقریبا دس ماہ ہوچکے ہیں لیکن اس کے بارے میں بھی یہ تاثر بہت عام ہے کہ یہ حکومت آئی نہیں‘ لائی گئی ہے۔ اچھی بات تو یہی ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں بھی انتخابات دھاندلی کے شور سے پاک ہونے چاہیں لیکن بوجوہ ایسا ماضی میں ممکن ہوسکا اور امکان بظاہر یہی ہے کہ مستقبل قریب میں بھی یہ ممکن نہ ہوسکے گا۔ہمارے ہاں تو ایک ہی دن میں انتخابات کا عمل مکمل ہوجاتا ہے جبکہ بھارت میں یہ کئی ہفتوں پر محیط ہوتا ہے‘ لیکن دونوں ممالک میں پوسٹ الیکشن رویوں میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ بہرحال اگرپوسٹ الیکشن رویوں میں فرق موجود ہے تو اس کی خیر ہے‘دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے لیے رویوں میں بہتری آنی چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات نے خطے میں گویا کشیدگی کو مستقل صورت دے رکھی ہے‘ نتیجہ لامحالہ دونوں ممالک کے عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ متوقع طور پر انتخابات میں کامیابی اور وہ بھی توقع سے کہیں زیادہ کے بعد نئی بھارتی حکومت کا رویہ قدرے مثبت ہونے کی توقع رکھی جاسکتی ہے‘ اس کی ایک جھلک سشما سوراج کی طرف سے شاہ محمود قریشی کے لیے لائی جانے والی مٹھائی کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved