تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     27-05-2019

پاکستان میں حکومت مخالف تحریکیں

اگلے ماہ زرداری صاحب، مریم صفدر اور مولانا فضل الرحمن جمہوریت بچانے کے لئے سڑکوں پر آنے کا مصمم ارادہ کئے بیٹھے ہیں۔ ان کے مخالف اس آنے والی حکومت مخالف تحریک کو کرپشن بچاؤ تحریک کا نام دے رہے ہیں۔ اپوزیشن کی یہ پارٹیاں ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری سے پیدا ہونے والی عوامی فرسٹریشن کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ ان میں سب سے متحرک جمعیت علمائے اسلام ہے۔ مولانا پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ حتیٰ کہ جنرل مشرف کی حکومت میں بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور اب کہ اقتدار سے فراق کی شب شروع ہی ہوئی ہے تو نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ گویا قومی انتخابات بار بار کرانا بہت ہی آسان ہے۔ ان کے حلقۂ نیابت میں ووٹر نے ان کے خلاف ووٹ دیا ہے مگر وہ نتیجہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ہماری سیاسی لیڈر شپ میں جمہوری سوچ کا خاصا فقدان ہے۔ انہیں صرف وہ الیکشن نتائج قابل قبول ہیں جن میں وہ خود جیتے ہوں۔
آئیے ملک میں اب تک برپا ہونے والی تین بڑی حکومت مخالف تحریکوں کا معروضی جائزہ لیتے ہیں۔ ان میںاولین اور سب سے جامع تحریک صدر ایوب خان کے خلاف 1968 میں شروع ہوئی تھی۔ ہر بڑی تحریک کے لئے ایک چھوٹی سی چنگاری درکار ہوتی ہے۔ ایوب خان کے خلاف مظاہرے دو معمولی سی وجوہات پر شروع ہوئے۔پہلی وجہ‘ چینی دو آنے فی کلو مہنگی ہو گئی۔ دوسری وجہ‘ راولپنڈی پولی ٹیکنیک کی چند طلباء لنڈی کوتل شاپنگ کے لئے گئے تو خریدا ہوا سامان کسٹم والوں نے پکڑ لیا۔ طلباء نے پنڈی میں پشاور روڈ بلاک کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چنگاری پورے خرمن کو راکھ کر گئی۔
ایوب خان کے خلاف تحریک میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل تھیں‘ طالب علم بھی حکومت اور آمریت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اور پھر لیبر یونینز بھی اس ریلے میں شامل ہو گئیں۔ کراچی والوں کو ایوب خان سے شکوہ تھا کہ 1965 کے صدارتی الیکشن میں مادر ملت کو دھاندلی سے ہرایا گیا اور پھر گوہر ایوب کے وکٹری مارچ نے زخموں پر نمک پاشی کی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو گلہ تھا کہ 65 کی جنگ میں انہیں انڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ بائیں بازو والے کہہ رہے تھے کہ ملک کی تمام دولت بائیس خاندانوں کے پاس ہے۔
میرے خیال میں اقتصادی لحاظ سے ایوب خان کا دور پاکستان کا سنہری دور تھا۔ پاکستان میں بے شمار صنعتیں لگیں۔ منگلا اور تربیلا ڈیم بنے۔ زرعی پیداوار میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ پاکستان انڈسٹریل ملک بننے کی طرف جاری و ساری تھا۔ پاکستان کی شرح نمو انڈیا کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ یہ یقینا خوش حالی کا دور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم سوا سو روپے ماہانہ میں ہوسٹل میں رہ کر گورنمنٹ کالج لاہور جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کا پیٹ بھر جائے تو وہ سیاسی آزادی مانگتا ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں میڈیا آزاد نہیں تھا۔ جمہوریت کو فوجی آمر نے اپنے فائدے کے لئے بنیادی جمہوریت کی شکل دے دی تھی۔ عوام کے پاس دل کی بھڑاس نکالنے کے مواقع کم کم تھے۔ پھر جو برسوں کا رکا ہوا لاوا پھٹا تو اُس نے پورے نظام کو ہلا کے رکھ دیا۔
ایوب مخالف تحریک میں پہلے پہل ایئر مارشل اصغر خان پیش پیش تھے۔ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو ان سے زیادہ نمایاں ہو گئے۔ بھٹو کا زورِ خطابت ایئر مارشل سے بہتر تھا اور شعبدہ بازی بھی۔ ہر جلسے میں ایوب خان کو دھمکی دیتے کہ میں تاشقند معاہدے کے راز افشا کر دوں گا‘ لیکن وہ بلی کبھی تھیلے سے باہر نہ نکلی۔ اقتدار کے کھیل میں اخلاقیات مفادات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اقتصادیات کی جڑیں ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ جلسوں جلوسوں میں نعرے لگانے والے عوام مزید غریب ہو جاتے ہیں۔ 1969 میں نعرے ایوب خان کی آمریت کے خلاف لگ رہے تھے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کو یحییٰ خان جیسے حاکم کا تحفہ ملا۔ جمہوریت ہار گئی آمریت جیت گئی اور پھر جمہوریت کو الیکشن کے ذریعے دوبارہ لانے کی کوشش ہوئی تو الیکشن کے نتائج نہ یحییٰ خان نے تسلیم کئے اور نہ بھٹو صاحب نے۔ ملک دو لخت ہو گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں الیکشن کرائے تو اندھوں کو بھی دھاندلی صاف نظر آ رہی تھی حالانکہ اگر وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کراتے تو بھی جیت جاتے لیکن ہمارے سیاسی لیڈر زیادہ سے زیادہ پاور فل بننا چاہتے ہیں۔ بھٹو 1971 میں ایک پاپولر لیڈر کے طور پر ابھرے تھے۔ انہوں نے کئی اچھے اقدام کئے۔ شملہ معاہدے کے بعد انڈیا سے جنگی قیدی واپس آئے۔ بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ چین سے دوستی کو مضبوط بنایا۔ ہیوی انڈسٹری اور سٹیل مل لگائی۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کرائی۔ عرب ممالک سے روابط بڑھائے۔ بچے کھچے پاکستان کے مورال کو ٹھیک کیا۔
لیکن بھٹو سے کئی فاش قسم کی غلطیاں بھی ہوئیں۔ انہوں نے اپوزیشن کے کئی لیڈروں کی بہت توہین کی۔ انڈسٹری کو قومیانے پر آئے تو چھوٹی چھوٹی فلور ملیں بھی نہ بچ سکیں۔ الیکشن میں خوب دھاندلی کی۔ پشاور اور کوئٹہ میں نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی حکومتوں کی چھٹی کرا دی۔ بدنام زمانہ دلائی کیمپ بنایا جہاں سیاسی مخالفین کو ہر قسم کی اذیت دی جاتی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک ایسا لیڈر تھا جس سے لوگوں نے بے پناہ محبت بھی کی اور نفرت بھی۔
نیشنلائزیشن کی وجہ سے کاروباری طبقہ اور صنعت کار بھٹو صاحب کے بہت خلاف تھے۔ جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو دائیں بازو کی جماعتیں آگے آگے تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ مظاہرے ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر گئے اور اس تحریک کو نظام مصطفی کے لئے جدوجہد کا نام دیا گیا تاکہ عوام الناس میں ایک پاپولر نظریئے کے طور پر اجاگر ہو۔ بھٹو صاحب کے اپوزیشن لیڈروں سے مذاکرات جاری تھے۔ کئی سیٹوں پر وہ دوبارہ الیکشن کرانے کے لئے راضی تھے مگر جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء لگا کر اقتدار سنبھال لیا۔ اور پھر برسوں الیکشن نہ ہو سکے۔
جنرل ضیا الحق کے زمانے میں جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک چلی جو ایم آر ڈی یعنی موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی کے نام سے مشہور ہوئی لیکن فوجی حکومت نے اسے کنٹرول کر لیا۔
حکومت گرانے کے لئے آخری بڑی تحریک خود عمران خان نے چلائی جو 2014 میں کنٹینر پر خطابات سے شروع ہوئی۔ کپتان کی ان روزانہ تقریروں کا محور دو موضوعات تھے: 2013 کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی اور شریف خاندان کی کرپشن۔ خان صاحب حکومت تو نہ گرا سکے؛ البتہ کرپشن کو خاصا پاپولر موضوع بنا گئے۔ رہی سہی کسر پانامہ لیکس نے نکال دی۔ 2018 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ شریف خاندان ووٹ کی طاقت سے اقتدار سے الگ ہوا اور آج تک شکست کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ آمریت کے خلاف مہم چلانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں‘ مثلاً ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک دس سال بعد چلی لیکن منتخب حکومتوں کے خلاف چند ماہ میں ریشہ دوانیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ملک کا نظام غیر مستحکم رہتا ہے۔ اقتصادی شرح نمو نیچے آ جاتی ہے ۔ملک مالی طور پر کمزور ہو تو نہ وہ اچھا عسکری بجٹ بنا سکتا ہے اور نہ ہی اقوام عالم میں عزت پاتا ہے۔
انڈیا نے تو موروثی سیاست سے بڑی حد تک نجات حاصل کر لی ہے۔ اب ہمیں بھی زرداری اور خاندانِ شریفاں سے باہر نکلنا ہو گا۔ پاکستان کو صالح اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے دیں۔ اگر یہ ڈیلیور نہیں کرتے تو 2023 میں کسی اور کو ووٹ دیں۔ حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کا کھیل ختم ہونا چاہئے کہ اس کے نتائج کبھی بھی اچھے نہیں نکلے اور اکثر اقتدار کا ہما تحریک چلانے والوں کو چھوڑ کر کسی اور کے سر پر بیٹھ جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved