تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     27-05-2019

عدم تحفظ‘عوامی ردعمل کو ہوا دینے لگا

ہفتہ رفتہ کے دوران خیبر پختونخوا کی دو معصوم بچیوں کے زیادتی کے بعد قتل کے دردناک واقعات کو اگرچہ معاشرے کے مجموعی اخلاقی زوال کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے‘ لیکن فی الحقیقت ان انسانیت سوز جرائم کے ڈانڈے ہمارے قانونی نظام کی زبوں حالی سے جا ملتے ہیں۔اب تو بڑھتے ہوئے سماجی جرائم کے خلاف پولیس کا کمزور رسپانس ایسے اشتعال انگیز عوامی ردعمل کا محرک بن رہا ہے‘ جو بالآخر باغیانہ جذبات کو ہوا دیکر ریاست کی آئینی بنیادوںکو کمزور کر دے گا۔خاتون سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کی متنازعہ تقریر اسی رجحان کی دلخراش مثال ہے‘ لیکن ارباب ِاختیار اپنے غرور کی بنا پہ ان تباہ کن تغیرات سے بے خبر ہیں۔
پندرہ مئی کو پہلا واقعہ وفاقی دارالحکومت کے مضافاتی علاقہ چک شہزاد میں پیش آیا‘ جہاں مہمند ایجنسی کے غریب خاندان کی دس سالہ بچی فرشتہ کو کسی سفاک شخص نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا۔دوسرا کیس 20 مئی کو ضلع بونیر کے گاؤں ایلئی مشوانی میں رونما ہوا‘ جس میں انیس سالہ صنم علی صبح مدرسہ کیلئے گھر سے نکلی‘ لیکن دوپہر کو قریبی جنگل سے اس کی مسخ شدہ نعش ملی۔ملک بھر میں عورتوں اور بچوں کے خلاف جنسی زیادتیوں میں روزافزوں اضافہ فوجداری نظام کی شکست و ریخت کا غماض ہے ‘کیونکہ کرمینل جسٹس سسٹم کی ابتداء ایف آئی آر کے درست اندراج اورمقدمہ کا انجام تفتیشی افسر کی صلاحیتوں سے معلق رہتا ہے‘اسی لئے پولیس کی غفلت و نااہلی ہی فوجداری نظام انصاف کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا سبب بنتی ہے؛چنانچہ جزاو سزا کے اسی قانونی عمل کی ناکامی کے بعد ہی یہاں انسانیت کے خلاف ہولناک جرائم کا سیلاب امنڈ آیا۔
بچوں کے حقوق پہ کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق؛2017ء کی نسبت 2018ء میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں گیارہ فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔رپورٹ کے مطابق ''جنوری سے دسمبر 2017 ء تک چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد‘آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر بچوں سے زیادتی کے 3445 مقدمات رپورٹ ہوئے‘ لیکن گیارہ فیصد اضافہ کے ساتھ 2018ء میں بچوں سے زیادتی کے 3832 کیس ریکارڈ پہ آئے‘ تاہم ریلیز کردہ رپورٹ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے ان واقعات کو شامل نہیں کیا گیا‘ جنہیں ہماری سماجی اقدار کے پیش نظر پولیس ریکارڈ پہ نہیں لایا جاتا۔رپورٹ کے آخری تجزیہ میں بتایا گیاہے کہ پاکستانی معاشرہ میں ہر سال بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مجموعی طور پہ 33 فیصد اضافہ ہو رہاہے۔عموماً پانچ سے لیکر اٹھارہ سال کی لڑکیاں اورچھ سے پندرہ سال کے لڑکے جنسی درندوں کا آسان ہدف بنتے ہیں۔ہولناک جرائم صرف بچوں تک ہی محدود نہیں‘ بلکہ وسیع پیمانہ پہ قانون سازی اور کرائم فائٹنگ فورس کو غیرمعمولی مرعات اور لامحدود اختیارات تفویض کرنے کے باوجود عورتوں کے خلاف جنسی تشدد‘اغواء برائے تاوان‘ڈکیتی اور ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ پولیس مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔
رائٹ ٹو سروسز کمیشن خیبر پختونخوا کے چیف کمشنر مشتاق جدون کہتے ہیں ''سرکاری ادارے صرف ہائی پروفائل مقدمات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پہ کاروائی کرتے ہیں‘اگر سیاسی مدد اور میڈیا کی توجہ نہ ملے تو سنگین ترین کیس کو معمول کے مقدمہ جتنی اہمیت بھی نہیں ملتی‘ کیونکہ اب ادارے صرف اس وقت متحرک ہوتے ہیں‘جب عدالت ِعالیہ‘وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کیس کا نوٹس لیں‘‘۔ افسوس کہ جن مقدمات کو میڈیا پہ اچھالا جاتا ہے‘ وہ بھی کچھ دن بعد خاموشی کی دبیزدھند میں ڈوب جاتے ہیں۔مانسہرہ اور حویلیاں میں زیادہ کے بعد قتل کیسیز کا کیا بنا؟گزشتہ برس دسمبر میں مانسہرہ میں ایک نابالغ افغان بچی کو زیادتی کے بعد جوہڑ میں پھینک دیا گیا‘ لیکن عوامی ردعمل اور میڈیا کا دباؤ نہ ہونے کے باعث کیس پہ معمولی پیش رفت بھی نہ ہو سکی‘اکثر مقدمات میں تو پولیس عوامی دباو کو کم کرنے کی خاطر بے گناہوںکو پکڑ لیتی ہے‘جنہیں بعد میں ثبوتوں کی عدم دستیابی کے باعث عدالتیں بری کر دیتی ہیں(جیسے ہری پور میں 15 سالہ عبداللہ کے قتل کیس میں ہوا)۔ الغرض سماج کی ریاستی اداروں سے وابستہ امیدیں ٹوٹ رہی ہیں۔بدقسمتی سے ہم ہر روز اسی قسم کے مقدمات سے جڑی بریکنگ نیوز کے ساتھ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں‘ لیکن ان میں سے بہت کم ایسی ہوتی ہیں‘ جن کا کوئی منطقی انجام دیکھ پاتے ہیں‘‘۔ کوئی بھی زندہ ضمیر شخص‘ جس میں رتی برابر شرف ِآدمیت موجود ہو گا‘ وہ دس سالہ فرشتہ کا درد کئی دہائیوں تک اپنی روح میں محسوس کرتا رہے گا۔ذرا تصور کریں؛ اس باپ کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی اور اس خاندان کا اجتماعی دکھ کیسا عمیق ہو گا؟جنہوں نے اپنی عزیزترین متاع کھو دی‘لیکن جب وہ فریاد لیکر تھانہ پہنچے تو محافظوں نے انہیں زبردستی پولیس سٹیشن کی صفائی پہ لگا دیا۔اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس جواب دہی کے ہر احساس سے عاری ایک ایسی فورس بن چکی ‘ جو لامحدود اختیارات اور غیر معمولی مراعات وصول کرنا تو اپنا حق سمجھتی ہے‘ لیکن فرض کی ادائیگی کے تصور سے ناواقف ہے۔
قانون کی جبریت کا انداز دیکھئے کہ اب تو اس قسم کے معاملات میں ڈپٹی کمشنر کی مداخلت کو بھی پولیس آرڈیننس 2002 ء کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ اسلام آباد میں یہ آرڈیننس لاگو نہیں ‘ اس لیے یہ ممکن ہوا کہ انتظامیہ نے آگے بڑھ کے مظلوموں کی اشک شوئی کر کے ریاست کے خلاف نفرت اور غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی‘ورنہ پورے ملک میں تو سماج کو بھڑکانے والے اس قسم کے واقعات میں میئر‘ناظم ‘ممبران اسمبلی یا ڈپٹی کمشنر پولیس سے بات تک نہیں کر سکتا۔سماجی جرائم سے قطع نظر کراچی میں نقیب اللہ محسود‘انتظار حسین‘میڈیکل کالج کی طالبہ نمرہ اور دس سالہ ایمل عمر کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت جیسے کئی دلخراش سانحات نے ریاست کے خلاف نفرتوں کے بیج بوئے۔ساہیوال میں سی ٹی ڈی پولیس کی فائرنگ سے چار بیگناہوں کا قتل اورلاہور میں مبینہ مقابلہ میں ڈولفن فورس کے ہاتھوں نوجوان کی دردناک موت نے بائیس کروڑ لوگوں کو تڑپا کے رکھ دیا‘ لیکن سماج کے دکھوں کا مداوا کرنے کی بجائے چاروں صوبوں کے پولیس افسران پھر اکھٹے ہو کر پولیس کو سیاسی مداخلت(جواب دہی کے ہر عمل)سے آزاد‘ بلکہ خود مختار ادارہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے پچھلے دورِ حکومت کے آغاز میں اُس وقت کے آئی جی پی نے ''بدعنوانی‘‘ میں ملوث جن اہلکاروںکو ''سزائیں‘‘دیں ‘ان میں سے 99 فیصد دوبارہ اپنی ملازمتوں پہ بحال ہو چکے‘کیونکہ یہ مصنوعی مہم محکمۂ پولیس کو بدعنوانیوں سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں تھی‘ بلکہ حقیقی احتساب سے بچنے کی طویل المدت منصوبہ بندی تھی‘پولیس کا یہی طرزِ عمل سماج کے اندر ریاست کے خلاف نفرت و عداوت کی زہریلی فصل کاشت کررہاہے؛اگر سویلین فورس کو قانونی جوابدہی کے موثر نظام کے اندر نہ لایا گیا‘ تو بہت جلد معاشرہ بکھر جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved