ایران کی تاریخ‘ ثقافت‘ جغرافیہ اور سب سے بڑھ کر سلامتی پاکستان سے پیوستہ ہے۔ افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ اس خطے کے تمام ممالک ایک تہذیب اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر نوع کے رشتے‘ لوگوں کا میل جول‘ تجارت‘ زبانوں اور ثقافتوں کی گھل ملاہٹ کا سفر کئی صدیوں سے جاری ہے۔ ترکی‘ ایران اور پاکستان دنیائے عرب کے بیرونی کناروں پر منفرد سیاسی‘ جغرافیائی اور تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی زبان اور ثقافت کے مقامی رنگ عربوں سے مختلف ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں اُن کی جغرافیائی پٹی باسفورس سے لے کر بحیرۂ عرب تک کمیونزم کے خطرات روکنے کے لیے ایک حصار کی حیثیت اختیار کر گئی۔ سلامتی کے بیانیے‘ اسلحہ اور اقتصادی امداد کے علاوہ سرد جنگ کے محرک اور مرکزی تصور کے پیچھے امریکہ کارفرما تھا۔ باہمی طور پر‘ اور امریکہ کے ساتھ‘ یہ تینوں ممالک قریبی تعلقات استوار کرتے رہے۔ مگر حالات بدلے‘ اور ایران میں اسلامی انقلاب آ گیا۔ اس سے اس کی تزویراتی جہت تبدیل ہو گئی۔
انقلابوں کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ وہ ریاست اور قوم کا اندرونی نقشہ‘ سیاسی اور نظریاتی معروضات بدل دیتے ہیں۔ ایران میں بھی یہی ہوا‘ جو اس سے پہلے انقلابِ روس اور فرانس میں ہو چکا تھا۔ دیکھنے میں آیا کہ انقلابی نظریات ایک ملک یا جغرافیے تک محدود نہیں رہتے ۔ یہ ارد گرد کی ریاستوں‘ بلکہ تمام دنیا تک پھیل جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے نئے اتحادی بنتے ہیں‘ پرانے اتحادی ختم ہو جاتے ہیں‘ اور ہر انقلاب اپنے بقا اور جواز کے لیے ایک تزویراتی ساخت رکھتا ہے۔ اس کی تصدیق یا تائید کا دائرہ علاقائی ہو یا عالمگیر‘ انقلاب کی داعی اور بانی ریاستیں طاقت کا توازن قائم رکھنے یا بگاڑنے میں اپنا فطری حصہ تسلیم کراتی ہیں۔
انقلابِ ایران اسلامی جہت رکھنے کے حوالے سے تمام مسلم معاشروں اور ریاستوں کے لیے ایک نیا تصورِ سیاست اور معیشت پیش کرتا ہے۔ اس کا نعرہ ''نہ مشرق‘ نہ مغرب‘‘ اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں منزل ا ور راہوں کا تعلق تہذیب اور تاریخ سے ہوتا ہے مگر نظریاتی انقلاب ان دونوں اساسی تعلقات کو برہم کر دیتے ہیں۔ نئے معاشرے اور نئی تہذیب کے قیام کے بڑے خواب بُنے جاتے ہیں‘ موزے تنگ اور سٹالن نے کیا کچھ نہیں کیا‘ لیکن 70 سال بعد ہی انقلاب کا نشہ اتر گیا‘ اور معاشرے اپنی تہذیبی اور تاریخی اساس پر لوٹ آئے۔ ایران کا انقلاب اسلامی معاشروں کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے ایک ملک تک محدود کر دیا گیا۔ اس کی شناخت اسلامی سے زیادہ ایران اور ایک مخصوص فرقے کے ساتھ جوڑ دی گئی۔ میرے نزدیک ایرانی انقلاب نہ صرف اسلامی تھا بلکہ اسلامی نظریۂ ریاست اور اسلامی انقلاب کی تحریکوں کی ہی ایک کڑی تھا۔ ایسی ہی تحریکوں کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ حسن البنا اور سید قطب شہید ہیں۔ ایرانی نژاد امریکی پروفیسر آصف بعیت نے ایک پتے کی بات کی کہ اسلامی انقلاب ایران میں کامیاب ہوا‘ جہاں اسلامی انقلابی تحریک مفقود تھی‘ مگر پاکستان اور مصر‘ جہاں ان تحریکوں کا دورانیہ تقریباً ایک صدی پر محیط رہا‘ میں اس کے اثرات کامیاب نہ ہو سکے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان تحریکوں کا مقصد اقتدار پر قبضہ کرنا تھا یا اسلامی معاشرے کی اساس کو مضبوط کرنا؟ یہ سوالات میں آئندہ مضامین کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔
انقلابِ ایران کے بعد ان تحریکوں سے وابستہ لوگ جتھوں کی صورت میں ان ممالک کی طرف گئے‘ اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اسلامی انقلاب نہ صرف مغرب کے لیے‘ بلکہ اس کے علاقائی اتحادیوں کے لیے کوئی اچھا پیغام نہ تھا۔ بلکہ یوں کہیے کے اس نے ان کے لیے خطر ے کی گھنٹی بجا دی۔ یہ خو ف اب بھی موجود ہے کہ ورثے میں ملی ہوئی ریاستی طاقت‘ ٹھاٹ باٹ اور بعض ریاستوں میں نام نہاد جمہوری تجربات کہیں اس انقلاب کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔ جب تک ایران میں ولایت فقیہ موجود ہے‘ ملا کے اقتدار میں براہِ راست آنے کا خوف نہیں۔ جمہوریت کی ڈھال‘ اور اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے آئین کی طاقت اور ریاستی اداروں کی حمایت نے فکر مندی کا طوفان تھاما ہوا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے راستے میں بند باندھنا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی مشترکہ تزویراتی ضرورت تھی۔ سلامتی کا توازن جو امریکہ نے اس خطے میں قائم کیا تھا‘ اگر وہ ٹوٹا تو پھر کیا ہو گا؟
ایرانی کے انقلاب کے وقت امریکہ کو ایک اور مسئلے کا بھی سامنا تھا۔ اس کے دس ماہ بعد افغانستان میں روس نے فوجی مداخلت شروع کر دی تھی۔ اس کے بعد افغانستان کے عوام اور مجاہدین نے روس کی پشت پناہی رکھنے والے افغانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ نظریات کے ٹکرائو اور سلامتی کے معروضات کے حوالے سے یہ سرد جنگ کا دوسرا سب سے بڑا معرکہ تھا۔ اگر روس کامیاب ہو جاتا تو دنیا کا نقشہ ہی بدل جاتا۔ اس طرح امریکہ نے دو عظیم جنگیں بیک وقت لڑیں‘ لیکن عملی طور پر نہیں‘ اپنی پشت پناہی اور اتحادیوں کو آگے کر کے۔ اس نے ان جنگوں میں اپنا ایک فوجی بھی نہیں بھیجا۔ ایران کے خلاف عراق کو کھڑا کیا۔ عراق کے پیچھے اہم عرب ممالک کی دولت اور امریکہ کی عسکری معاونت تھی۔ اُدھر افغانستان میں پاکستان کے ذریعے مجاہدین کو ہتھیار فراہم کیے گئے۔ یہ حکمتِ عملی امریکہ کے دو تزویراتی مقاصد کی کامیابی کی ضمانت بنی۔ ایک طرف سوویت یونین بکھر گیا‘ دوسرے ایران کو محدود کر دیا گیا۔ یہاں امریکی حکمتِ عملی کا مقصد یہ تھا کہ اس کا انقلاب دیگر اسلامی ممالک لیے ایک نمونہ اور مثال نہ بننے پائے۔ عراق کے ذریعے لڑی گئی اس جنگ نے ایرانی انقلاب کی نظریاتی آتش کو مدہم کر دیا۔ صرف یہی نہیں‘ اس جنگ نے عرب اور فارس کی قدیمی قطبیت کو دوبارہ زندہ کر دیا۔
اس کے بعد سے امریکہ اور اس کے اتحادی گزشتہ چالیس برس سے ایران کے خلاف سرد جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس پر تجارتی پابندیاںہیں‘ اسے تنہا کرنے کی پالیسی جاری ہے۔ ایران نے اپنی دفاعی پالیسی کے طور پر علاقے میں اپنے ہم خیال گروہوں کو آگے رکھا‘ انہیں فنڈز‘ اسلحہ اور سیاسی تربیت فراہم کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران اپنی روایتی عسکری قوت بڑھانے‘ اور جوہری قوت حاصل کرنے کی سعی میں بھی رہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ‘ اسرائیل اور ان کے عرب اتحادیوں کا ایک نادیدہ گٹھ جوڑ ہے جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ غیر اعلانیہ اتحاد کسی صورت ایران کو جوہری طاقت بنتا نہیں دیکھ سکتا‘ کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔
ایران ایک نظریاتی ملک ضرور ہے‘ مگر قومی مفاد میں عملیت پسندی اور تزویراتی لچک کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بزدلی نہیں‘ زمانہ شناسی ہے۔ دورِ جدید میں سفارت کاری کا اہم جزو یہی زمانہ شناسی ہے۔ مغربی اقوام نے کئی سال تک ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کیے آخر کار 2015ء میں ایک جوہری معاہدہ ہوا‘ جس پر سلامتی کونسل کے تمام ارکان کے علاوہ یورپی یونین کے بھی دستخط ثبت ہیں۔ یہ معاہدہ اوبامہ کی خارجہ پالیسی کا شاندار کارنامہ کہلایا۔ دوسری طرف اسرائیل اور امریکہ کے عرب اتحادی معاہدے سے ناخوش تھے کیونکہ اس کی وجہ سے ایران سرد جنگ سے نکل رہا تھا۔ اس کی معیشت بحال ہو سکتی تھی‘ وہ تجارت اور ٹیکنالوجی کی طرف پیش رفت کر سکتا تھا‘ اس کی تین عشروں پر محیط عالمی تنہائی کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ ان معروضات کو دیکھتے ہوئے دائیں بازو کے حلقوں نے صدر ٹرمپ پر دبائو ڈالا اور انہوں نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔
تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران کا اثر و رسوخ وسیع تر علاقے پر ہے۔ یمن‘ لبنان‘ عراق اور شام میں اس کے اتحادی دھڑے موجود ہیں۔ یہ امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو برداشت نہیں۔ مزید پابندیوں کا مقصد ایران کو ''توسیع پسندی‘‘ سے باز رکھنا ہے۔ اب خدا نہ کرے نوبت جنگ تک پہنچ جائے۔ اس کے بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر امریکہ ایران میں فوجی مداخلت سے وہی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو افغانستان اور عراق میں کیا تو وہ جان لے کہ اس جنگ کا دائرہ ایران تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ آگ شعلے بھڑکانے والوں کو بھی بھسم کر سکتی ہے۔