تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     29-04-2013

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

پرویز مشرف نے جو کارنامے انجام دینے تھے وہ دے چکے۔ سزا دینے سے جرم مٹتا نہیں ؛البتہ خوف جنم پاتا اورمعاشرے کو خرابی سے بچاتا ہے ۔ 3نومبر 2007ء کو ججوں کو نظر بند کرنے اور پھر بے نظیر قتل کیس میں جنرل مشرف کو گرفتار کیا گیا۔ ججوں کی نظر بندی سے بڑ اجرم اسی روز آئین کو معطل کرنا تھاجس کی سزا موت ہے ۔غدّاری کیس کے بنچ میں جسٹس جواد ایس خواجہ پر اعتراضات اٹھانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ایک سخت گیر جج ہیں ، آخری حد تک ضابطے کے پابند۔نگران وفاقی حکومت مقدمہ درج کرانے سے منکر ہے اور کیوں نہ ہو‘ یہ حکومت پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی مرضی سے بنی ہے۔ پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کو پورے عزت و احترام سے رخصت کیا تھا ۔ تب بظاہر شور مچاتی نون لیگ، مخالفین کے طعنوں کے باوجود سابق صدر کے مواخذے کے متعلق ایک قرار داد بھی پیش نہ کر سکی۔ ایک سیاسی اجتماع بھی وہ پرویز مشرف کے خلاف کر نہ سکی؛حتیٰ کہ وہ بیرونِ ملک روانہ ہوگئے۔ 2007ء کے آخری چند ماہ پر نظر ڈالیے۔ کیسے وہ منصوبہ ناکام ہوا ، جس کے بانیوں میں امریکہ ،برطانیہ اور بعض عرب دوستوں سمیت بیک وقت آرمی چیف اور صدر کے عہدے رکھنے والے پرویز مشرف ،قاف لیگ اور پیپلز پارٹی شامل تھیں۔ سب اپنی اپنی چا ل چلتے رہے اور ایک دوسرے کو روند ڈالا۔ واقعی، خدا کے لشکروںکو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل جنرل پرویز مشرف، چیف جسٹس کو پچھاڑنے کی ایک ناکام کوشش کرچکے تھے مگر وہ عوامی حمایت سے لوٹ آئے‘ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر۔ 6اکتوبر2007ء کو صدارتی الیکشن ہونا تھا۔ وکلا کے صدارتی امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے باوردی پرویز مشرف کو نا اہل کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کے بعد سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ عدالت کے پاس ٹینک تھے او ر نہ سپاہی۔ لہٰذا ہر طاقت سے مسلح صدر کے خلاف وہ کرتی توکیا کرتی ؟ چیف جسٹس نے جنرل کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو حکم ہواکہ مقدمے کے فیصلے تک وہ نتائج کا اعلان نہیں کر سکتا۔عام انتخابات سر پہ تھے۔ بے نظیر مشرف مذاکرات جاری تھے اور فوجی سربراہ وردی اتارنے پر غور کر رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے جنرل کو سولی پہ لٹکا دیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے وہ معاملہ طے کر چکا تھا۔ 5اکتوبر 2007ء کو این آر او جاری ہوا ۔ جواباً6اکتوبر کے صدارتی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کی مدد کی لیکن نہایت چالاکی سے ۔ مخدوم امین فہیم کو صدارتی امیدوار بنا کے الیکشن کو ساکھ عطا کی گئی اور عین ووٹنگ کے وقت واک آئوٹ۔ ع رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنّت نہ گئی 8اکتوبر کو جنر ل کیانی وائس چیف آف آرمی سٹاف بنا دئیے گئے۔18اکتوبر کو بے نظیر بھٹو وطن واپس آگئیں ۔بظاہر سب ٹھیک ہوتے ہوئے بھی پرویز مشرف کا سانس حلق میں اٹکا تھا۔ سپریم کورٹ حالات سازگار پاتی تو اسے نا اہل قرار دے دیتی۔ اور کسے معلوم تھا کہ عام انتخابات کیا نتائج لاتے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں 3نومبر کی ایمرجنسی نافذ کی گئی اور جج نظر بند کر دیے گئے۔ عدلیہ پر یہ پرویز مشرف کا دوسرا وار تھا ۔ دوسری جانب 26نومبر 2007ء کو جناب نواز شریف بھی آگئے۔ پاکستان آ کر جناب نواز شریف ،پرویز مشرف کے خلاف دھیمے سروں میں بولتے رہے ۔فرمایا کہ ذاتی بدلہ انہوںنے معاف کر دیا ہے ۔ آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔ حالات بدلتے چلے گئے۔27دسمبر کو بے نظیر قتل ہو گئیں۔ انتخابات میں جنرل کیانی نے پرویز مشرف کی بجائے پاکستان سے وفا کی ۔ وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں نون لیگ فاتح تھی۔ آصف علی زرداری نے اب پرویز مشرف کو گھورنا شروع کیا۔ ریٹائرڈ جنرل ان کے کس کام کا تھا؟ جنرل مشرف کے پاس صرف ایک اختیار باقی تھا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر دیتا۔یہ اختیار سترھویں ترمیم کا مرہونِ منّت تھا۔ اسی ترمیم نے 1999ء کے مارشل لا کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔یہ وہی ترمیم ہے جس میں ہمارے مولانا حضرات نے اپنا حصہ رسدی ڈالا تھا ۔یہ وہ داغ ہے جوہمیشہ ان کے دامن پہ جلوہ گر رہے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا مطالبہ اب بھی یہی ہے کہ علماء کو پارلیمنٹ میں پہنچانا عوام کا فرض ہے۔ پرویز مشرف جیسا مہم جُو اسمبلی تحلیل کر ڈالتا ، کامیابی کا اگرایک فیصد امکان بھی ہوتا۔ جج رہا ہو چکے تھے اور ڈوگر عدالت کانپتی تھی۔ آمریت شکست خوردہ تھی ۔ نیا حکمران سرکاری خزانہ دیکھ کر زبان ہونٹوں پہ پھیرتا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی قتل کیس، قاتل کی تلاش میں ہیں۔ ایک لیڈر کا قتل بانجھ تونہیں ہوتا ۔بے نظیر کو جنرل نہیں، امریکہ نے قتل کیا تھا۔ اس کا جرم یہ ہے کہ سکیورٹی فراہم نہ کی ۔شواہد یہ ہیں کہ اکبر بگٹی قتل میں بھی پرویز مشرف ملوّث نہ تھے لیکن بڑ ہانکنے والے حکمران نے بلوچ سردار کو دھمکی ضرور دی تھی ۔ وہ حالات بھی اسی کے پیدا کردہ تھے، اکبر بگٹی جن میں جاں بحق ہوئے ۔اب لال مسجد کمیشن نے بے گناہوں کے قتل اور کتابِ مقدس کی بے حرمتی پرجنرل مشرف، شوکت عزیز اور کابینہ کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ شوکت عزیز اور ان کی کابینہ کس قدر با اختیار تھے ، یہ سبھی جانتے ہیں ۔ لال مسجد کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں جنرل مشرف پر قتل کے مزید مقدمات درج کرانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ کمانڈو صاحب اب فرار کا راستہ ڈھونڈ تے ہیں ۔حکومت کا بس چلے تو ایک اورگارڈ آف آنر پیش کر کے انہیں رخصت کرے لیکن معاملہ اب عدالت کے ہاتھ میں ہے ۔ وہی عدالت جو پچھلے پانچ برس مارشل لا نہ لگنے پر داد کی مستحق ہے۔ بعید نہیں کہ آنے والے دنوں کے ہنگاموں میں غیر ملکی‘ پرویز مشرف کو اچک لے جائیں ۔ خاص طور پر اگر نون لیگ کی حکومت بنی جس کے امکانات بہت کم ہیں۔ رہے نام اللہ کا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved