چلئے‘ وہ سب حضرات‘ جو خود کو لبرل اور ترقی پسندوں کے لیڈر سمجھتے ہیں اور اپنی صحافت اور سیا ست کے ذریعے ہمہ وقت ملکی سکیورٹی فورسز کا تمسخر اڑاتے رہتے ہیں‘ان کی یہ تکرار بھی درست مان لیتے ہیں کہ روسی فوجوں کی افغانستان پر قابض ہونے کے بعد کمیونزم کے خلاف مغرب اور امریکا کی پرائی جنگ میں کود کر امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے جنگ کے بدلے ڈالرز تو بٹور لئے‘ لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر جگہ جگہ گھس جانے والی دہشت گردی کی تباہ کاریوں سے اب تک ایک لاکھ کے قریب سول اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی قربانیوںکا ذمہ دار وہی حضرات ہیں ‘جو اب دہشت اور وحشت کے علامت بن کر قابو سے باہر ہو چکے ہیں اور اب ایسے ہی افراد بھارت کی ایجنسیوں کے بھاری سرمائے اور منہ مانگے دام کے بدلے مذموم مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں ۔
کس کس کا نام لیا جائے‘ بس اتنا اشارہ ہی کافی ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات کے صفحات گواہی دے رہے ہیں کہ کبھی ہیومن رائٹس تو کبھی مسنگ پرسنز کے حوالے سے ہمارے ملک کے نام نہاددانشوروں کا ٹولہ کوئی موقع ضائع کئے بغیر پاکستانی سکیورٹی اداروں کو کوستارہتا ہے کہ انہوں نے 1979 ء میں امریکی ڈالروں کے عوض افغانستان میں جہاد کے نام پر مجاہدین تیار کرکے انہیں امریکی ایجنڈے پر عمل کروانے کیلئے روس کے خلاف میدان ِجنگ میں اتارا ۔اس سلسلے میں؛ اگر ان میں سے کوئی صاحب ‘ایک دردمند پاکستانی محمد اسحاق کی سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹ کو تفصیل سے پڑھ لیں‘ تو اس حوالے سے سکیورٹی فورسز کے ناقدین کو سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملے گا ۔ان دو درجن سے زائد دانشوروں اور اینکرز حضرات سمیت انگریزی اور اردو اخبارات کے چند نامور قلم کاروں کے علا وہ بہت سے سیا ستدانوں کے تجزیئے‘ تبصرے اور ارشادات کے مطا بق؛ اسٹیبلشمنٹ‘ مجاہدین کوتیار کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے کیلئے بھیجتی رہی‘ اسے پہلے اپنے گھر کو تو صاف کرلینا چاہیے ۔
آج کی نئی نسل سے گزارش ہے کہ پاکستان بننے کے چند برس بعد روس نے پاکستان کو تباہ کہہ لیں یا دوسرے لفظوں میں دو لخت کرنے میں جو کردار ادا کیا‘ وہ زخم کبھی بھی نہیں بھلائے جا سکتے۔ روس نے بھارت اور افغانستان کے ذریعے کبھی آزاد بلوچستان اور پختونستان کیلئے مسلح بغاوت کرائی ‘تو کبھی مالی اور عسکری ا مداد دیتے ہوئے کے پی کے اور بلوچستان کے نو جوانوں کو ماسکو اور کابل میں بلا کر انہیں اپنی خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی میں دیتے ہوئے دہشت گردی اور گوریلا جنگ کیلئے تیار کیا۔ ان سب کو گوریلا جنگ کی سخت ترین تربیت دینے کے بعد بلوچستان میں بھیجا جاتا رہا۔ روس کی اس پوشیدہ اور کھلی جنگ کا ایک ایک ورق تاریخ اور دنیا بھر کے دفاعی اور سیا سی ماہرین کی کتابوں ‘ تجزیوںاور مضامین میں دیکھا جا سکتا ہے۔ خان ولی خان کے دست راست جمعہ خان صوفی کی لکھی گئی کتاب '' فریب ِنا تمام‘‘ پڑھیں تو روس اور بھارت کی کابل حکومت کے تعاون سے مارچ 1973ء میں پختون زلمے کا خونی کردار سامنے آتا ہے ‘جو ایک بار پھر بھیس بدلتے ہوئے اسی پختون زلمے کے سابق لیڈران اور ان کے پیرو کاروں پر مشتمل ٹولہ پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے افغانیہ نام کی ریاست کیلئے سر گرم عمل ہو چکے اور ان کا پہلا نشانہ بیروز گار اور تحریک طالبان پاکستان اور اس کی مختلف شاخوں کے وہ دہشت گرد ہیں‘ جو سکیورٹی فورسز کے آپریشن ضرب ِعضب اور رد الفساد سے شکست کھانے کے بعد مقامی آبادیوں میں پناہ لے چکے ۔
اس کتاب میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر بم دھماکے سے لے کر خیبر بازار‘ کراچی‘ راولپنڈی اور پشاور یونیورسٹی میں پی پی پی کے حیات محمد خان شیر پائو کی سٹیج کے نیچے ٹیپ ریکارڈر میں رکھے گئے بم دھماکے میں شہا دت سے لے کر افواج پاکستان کے ایک میجر اور جوانوں کی شہا دت کی ایک ایک تفصیل اور منصوبے کی جزئیات پوری تفصیلات سے بیان کی گئی ہیں۔ آج اس کتاب کو شائع ہوئے تین برس گزر چکے اور علی وزیر سمیت ولی خان ٹولہ اس کتاب کے ایک جزو کی بھی تردید نہیں کر سکا۔سب سے پہلے تو یہ درستی کر لی جائے کہ افغانستان کی پاکستان کے اندرمداخلت اور سازشیں1979 ء سے نہیں ‘بلکہ ستمبر 1947ء سے ہی اس وقت شروع گئی تھیں۔ جب پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے درخواست دی تو افغانستان نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے پاکستان کو یہ کہتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ پاکستان کا آدھا حصہ افغانستان کی ملکیت ہے۔اب کچھ 1947ء سے1973ء تک افغانستان کی پاکستان میں فوجی مداخلت اور دہشت گردی کی کارروائیوں پر بات کرتے ہیں‘ کیونکہ ہماری آج کی نئی نسل کی یاد داشت سے یہ واقعات کسی وجہ سے اگر محو ہو چکے ہیں‘ توانہیں آگاہی مل جائے کہ سچ کون بول رہا ہے اورپاکستانی ہی نہیں‘ دنیا بھی یہ جان لے کہ مداخلت کون کرتا رہا ہے۔ یہ بھی فیصلہ ہو جا نا چاہیے کہ اپنا گھر کسے صاف کرنا ہے؟ اور وہ لوگ ‘جو پاکستان کو روسی فوجوں کی افغانستان میں آمد کے خلاف امریکیوں کو خوش کرنے کیلئے جہاد کے نا م پر ڈالرز بٹورتے ہوئے دہشت گردی کی تباہ کن پرائی آگ کو گھر کے اندر لانے کا مجرم گردانتے نہیں تھکتے ‘ان کے الزامات کا جواب سامنے رکھ دیا جائے‘ تاکہ جھوٹ اپنی تاریکی سمیت ڈوب جائے۔
جیسے ہی پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا تو کابل میں افغانستان کے قومی پرچم کے ساتھ سرکاری طور پر پشتونستان کے پرچم بھی لہرا دیئے گئے۔ ساتھ ہی افغانستان نے پاکستانی سرحد کے اندر سے آفریدیوں اور ایپی فقیر کو اسلحہ و دولت کے ذریعے ورغلاتے ہوئے پشتونستان کی آزادی کے نام پر حملہ کرو ادیا گیا‘ اسی طرح 1947ء اکتوبر میں ہی افغانستان اور پاکستانی فوجوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایک نوزائیدہ ملک‘ جس میں ابھی مہاجرین کی آمد جاری تھی اور فوج نے ان کیلئے تمام معاملات سنبھالے ہوئے تھے‘ اسے جب آنکھ کھولتے ہی دشمن کی گولہ باری کا سامنا کرنا پڑے‘ تو اس کا کیا حال ہوا ہو گا؟جولائی1949 ء میں افغانستان کے ظاہر شاہ کی خواہش پر کابل میں لویا جرگہ کے ذریعے فیصلہ کراتے ہوئے اعلان کرا دیا کہ ہم پاکستان کے کسی انٹر نیشنل بارڈر کو تسلیم نہیں کرتے اور اس لویہ جرگہ نے پشتونستان کے نام سے ایک علیحدہ ریا ست کا اعلان کرتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا اور27 اگست اس نام نہاد پختونستان کا قومی دن مقرر کر دیا اور افغان حکومت ہر سال اس دن کو کابل اور دوسرے حصوں میں پختونستان کے قومی دن کے منا سبت سے سرکاری تقریبات کا اہتمام کرتی رہی۔ اکتوبر1950ء میں افغان آرمی نے‘ جسے بھاری توپ خانے کی مدد حاصل تھی‘ بلوچستان کے ڈو بانڈی ایریا پر حملہ کرتے ہوئے چمن کوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنے کیلئے ایک انتہائی حساس اور اہم گزر گاہ پر قبضہ کر لیا‘جس پر پاکستانی فوج نے سرعت سے پیش قدمی کرتے ہوئے اپنا یہ حصہ ایک شدید جھڑپ کے بعد واپس لے لیا۔ (جاری)