تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
تاریخ اشاعت
29-05-2019
چوبیسویں پارے کا خلاصہ
چوبیسویں پارے کاآغاز سورت زمر سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا‘ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچی بات اسے پہنچ گئی تو اسے جھٹلادیا۔ جھوٹ باندھنے والے لوگوں میں وہ تمام گروہ شامل ہیں‘جنہوں نے اللہ کی ذات کے ساتھ شرک کیا ۔کفار مکہ نے بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرادیا اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے دیا۔ اسی طرح عیسائیوں نے سیدنا مسیح علیہ السلام کو ‘جبکہ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹاقرار دے دیا۔ یہ تمام کے تمام گروہ اس بات سے غافل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو کافروں کے لیے مقرر فرمادیا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ؐ سچائی کی دعوت لے کر آئے اور جس نے آپ کی تصدیق کی وہ اہلِ تقویٰ ہیں اور ان لوگوں کے لیے پروردگار عالم کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے جو وہ چاہیں گے ۔ رسو ل کریم ؐ اس پر رنجیدہ ہوجاتے کہ آپ کافروں کو صراط مستقیم کی دعوت دیتے اور وہ آپ کی حق پر مبنی دعوت کو ٹھکرا دیتے تھے۔ اس پر اللہ نے کہا کہ جو ہدایت کو قبول کرے گا تو وہ اپنے فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہوگا اس کا نقصان اسی کی ذات کو ہوگا ۔اس سورت میں اللہ نے اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے میرے بندو!جو اپنی جانوں پر ظلم کرچکے ہو میری رحمت سے نا امید نہ ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب گنا ہوں کو معاف کر دیتا ہے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی منظر کشی کی کہ قیامت کے دن تمام زمین اللہ کی مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو آسمان اور زمین میں جتنے رہنے والے ہیں سب بے ہوش ہوجائیں گے۔ سوائے ان کے‘ جنہیں اللہ چاہے گا۔ پھر دوسری بار پھونک ماری جائے گی تو وہ کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی اور تما م اعمال نامے رکھے جائیں گے اور انبیا اور شہدا لائے جائیں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔
سورۃ الزمر کے بعد سورۃ مومن ہے‘ جس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ نے تذکرہ کیا ہے کہ عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتے اورجو فرشتے اس کے ارد گرد جمع ہیں‘ سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں‘ایمان والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب !تُو نے اپنی رحمت اور علم کے ذریعے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے‘ پس تو ان لوگوں کو معاف کردے جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی اور تو انہیں جہنم کے عذاب سے نجات دے ۔اے ہمارے رب ! تو انہیں ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں داخل فرما‘ جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے ہمراہ ان کے ماں باپ ‘بیویوں اور اولادوں میں سے ان لوگوں کو بھی داخل فرما‘ جو نیکی کی راہ پر چلے ہوں ‘بے شک تو زبردست حکمتوں والاہے ۔اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ کافروں کے علاوہ کوئی نہیں ہوتے اور زمین پر ان کے ٹھاٹ باٹھ اور شاہانہ انداز زندگی دیکھ کر انسان کو گمراہ نہیںہونا چاہیے۔
اس سورت میں قیامت کی ہولناکیوں کا بھی ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ شدید غضبناک ہوں گے اورتکرار سے یہ آواز بلند فرمائیں گے کہ '' آج کے دن کس کی بادشاہی ہے ؟‘‘ اور پھر خود ہی جواب دیں گے کہ اللہ واحد و قہار کی بادشاہی ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس عزم کا بھی ذکر کیا کہ اس نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا‘ تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں اپنے اور تیرے پرور دگار کی پناہ طلب کرتا ہوں ‘ہر اس متکبرکے شر سے جو یوم حساب پر یقین نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے قبیلے کے ایک مومن شخص کا بھی ذکر کیا ہے جو دربار فرعون میں ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھا اور اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرتا تھا‘ لیکن جب فرعون نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو اس صاحب ایمان شخص کیلئے یہ بات نا قابل برداشت ہو گئی اور اس نے اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اعلانیہ حمایت کی اور اپنے ایمان کا بر ملا اظہار کیا ۔اللہ تعالیٰ نے اس مومن کے ایمان کو قبول کر لیا اور اس کو فرعون کے مکر سے نجات دلا دی ۔اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم مدد کریں گے اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی اور جب قیامت قائم ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ تم مجھے پکارو‘ میں تمہاری دعائوں کو سنوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں‘ ان کو جہنم میں داخل کردیا جائے گا ۔
سورہ مومن کے بعد سورہ حم السجدہ ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ رسول کریم ؐ لوگوں کو ڈرائیں اور ان کو بشارت دیں ‘مگر لوگوں کی اکثریت قرآن مجید کی دعوت سے اعراض کر لیتی ہے اور کہتی ہے؛ ہمارے کان اور دل آپ کی دعوت کو سننے اور ماننے سے قاصر ہیں۔یہ کافروں کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کھلی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ایسے لوگ مشرک اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں‘ ان کے مدمقابل جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کرنے والے ہیں‘ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے اجر کو تیار کر دیا ہے۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد و ثمودپر آنے والے عذابوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور انہوں نے اس پر استقامت کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کے وقت فرشتوں کا نزول فرمائے گا اورفرشتے ان کو کہیں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھائو‘ تم کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے ‘جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔(آمین)