عہد حاضر کا عالمی نظام بہت پیچیدہ اور انتشار کا شکار ہو چکا ہے۔ سرد جنگ کے دور کے برعکس اب عالمی نظام کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا مشکل ہے اور اب کسی ایک یا دو بڑے ممالک کے لئے اسے کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہا۔ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے طاقت ور عسکری ریاست اور معیشت ہے مگر اس کی بین الاقوامی نظام پر بالا دستی قائم رکھنے کی صلاحیت کمزور پڑ گئی ہے۔ اگر چہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اکثر اوقات سخت بیانات دیتے رہتے ہیں مگر عالمی امور کو اکیلے نمٹانا اب امریکہ کے بس کا روگ نہیں رہا۔
تاہم اگر صدر ٹرمپ خطے میں امریکی برتری قائم کرنے کے لئے یک طرفہ فوجی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہیں ،مشرق وسطیٰ یا کسی اور جگہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے کسی مقامی یا علاقائی تنازع میں مداخلت کرتے ہیں تو انہیں انتہائی مشکل صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آج ہم امریکہ کو جس زوال کا سامنا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘ اس کی بڑی وجہ بعض دیگر ممالک کی ترقی اور عالمی نظام میں طاقت کے کچھ دیگر مراکز کا وجود میں آنا ہے۔ طاقت کے نئے مراکز میں یورپ، ایشیا پیسیفک، چین اور جاپان شامل ہیں۔ روس بھی اب آہستہ آہستہ عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کے لئے اپنے ایجنڈے کے ساتھ پر تول رہا ہے۔ بہت سی ایسی علاقائی ریاستیں ہیں جو اپنے اپنے خطے میں اپنے کردار کا از سر نو تعین کر رہی ہیں۔ کسی عالمی یا علاقائی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے امریکہ یا دیگر ریاستوں کی کامیابی کا دار و مدار امریکہ سمیت اس ملک کی اس صلاحیت پر ہے کہ وہ طاقت کے دیگر مراکز سے کس قدر حمایت حاصل کر سکتا ہے۔ کوئی ملک طاقت کے ان مراکز سے جتنی سفارتی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے‘ وہ اپنے عالمی ایجنڈے پر اتنا ہی زیادہ عمل درآمد کرا سکتا ہے۔
ہر ملک کے لئے اپنے ایجنڈے پر عمل کرانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کولیشن یعنی اتحاد قائم کرنے لئے سفارت کاری کا استعمال کرے۔ اگر اس طرح کا تعاون بروئے کار نہیں لایا جا سکتا تو کوئی عا لمی ایجنڈا مؤثر انداز میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اہم عالمی پالیسی ایشوز پر امریکہ کو یورپی ممالک کا تعاون درکار ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اس مقصد کے لئے وہ چین، روس اور جاپان کو بھی اپنے ساتھ ملا لے یا ان کی طرف سے مخالفت کوغیر مؤثر کر دے۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جب 1989-91ء میں مشرقی یورپ کے ممالک سوویت یونین کے تسلط سے آزاد ہوئے اور 1990ء میں سرد جنگ اپنے انجام کو پہنچ گئی تو عالمی نظام کا توازن امریکہ کے حق میں ہو گیا۔ 1989ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی شکست اور 25 دسمبر 1991ء کو اس کے انہدام کے بعد امریکہ میں ایک احساسِ تفاخر پیدا ہو گیا۔ اسے مغربی لبرل جمہوریت اور آزاد سرمایہ دارانہ معیشت کی فتح قرار دیا گیا۔ جنوری 1991ء میں عراق کے خلاف پہلی جنگ نے‘ جس کے نتیجے میں عراق کویت سے نکلنے پر مجبور ہوا‘ امریکہ میں عالمی فتح کے احساس کو پروان چڑھایا۔
عراق کی جنگ کے بعد امریکی بالا دستی کا حامل ورلڈ آرڈر اس وقت منصۂ شہود پر آیا‘ جب افغانستان اور عراق مالی، عسکری اور سفارتی لحاظ سے بہت مہنگے تنازع ثابت ہوئے۔ 2011ء سے شام میں جاری خلفشار اور 2015ء سے شروع یمن تنازع نے امریکی امیج کو بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں کی۔ 2013ء میں چین نے عالمی معاشی روابط کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کا آغاز کیا۔ حسن اتفاق یہ ہوا کہ جب چین کا پروگرام شروع ہوا تو عین اسی وقت ایشیا پیسیفک ریجن نے بھی بڑی عالمی طاقتوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ اسی بنا پر بہت سے تجزیہ نگاروں نے اکیسویں صدی کو ایشیا یا چین کی صدی کہنا شروع کر دیا۔
اکیسویں صدی کی ایک اور اہم تبدیلی قومی سلامتی کے نظریے میں وسعت تھی۔ سماجی اور انسانی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے روایتی علاقائی سلامتی کو اب سماجی معاشی اقدامات کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ 1990ء کے عشرے میں بعض افریقی اور دیگر ممالک کے تقریباً خاتمے یا ان کے داخلی انتشار سے فوکس علاقے کے بجائے انسانوں، معاشرے اور قومی ریاست کو درپیش غیر عسکری داخلی خطرات کی طرف ہو گیا۔ داخلی یا عالمی گروہوں کی دہشت گردی نے سکیورٹی کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں کو نئی جہت دی ہے۔ کچھ ریاستیں دہشت گردوں یا علیحدگی پسند گروہوں کو اپنی حریف ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ملک جدید مواصلاتی نظام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھی کسی دوسری ریاست کی داخلی صورت حال خراب کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
عالمی نظام نے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اختتام پر بعض طاقت ور ممالک کی بالا دستی ختم کر دی ہے؛ تاہم پاکستان جیسے ممالک کو ابھی تک سکیورٹی پریشر کا سامنا ہے کیونکہ عسکری طاقت اور معاشی وسائل کا تفاوت ابھی تک موجود ہے‘ اور بعض ممالک اس تفاوت کو اپنے کردار کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کی پالیسی کی کامیابی کا انحصار اپنی معاشی اور عسکری قوت کی دھاک بٹھانے کے بجائے عالمی سطح پر اتحاد کے فروغ پر ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی ملک عالمی یا علاقائی سطح پر کوئی متحرک کردار ادا کرنا یا دیگر ممالک کا دبائو برداشت کرنا چاہتا ہے تو اس مقصدکے لئے اسے سرگرم سفارت کاری اور معاشی تعلقات کی اشد ضرورت ہو گی۔
ایسی پیچیدہ اور غیر یقینی دنیا میں اپنے قومی ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لئے پاکستان کو کون سے آپشنز دستیاب ہیں؟ عالمی سطح پر تنہائی کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسی طرح کسی ایک یا دوسری ریاست کے ساتھ مکمل وابستگی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن حد تک وسیع تر تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ دوسرے ممالک کے مقامی یا علاقائی تنازعات مثلاً شام اور یمن کے داخلی خلفشار میں براہ راست ملوث ہونے سے گریز کرے۔
چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے؛ تاہم پاکستان کو روس اور ایشیا پیسیفک ممالک کے ساتھ بھی کارآمد تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ روایتی تعلقات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تمام تعلقات انفرادی سطح پر بہت اہم ہیں۔
آج کے عالمی نظام میں کسی بھی ملک کی حقیقی طاقت کا دار و مدار اس کی داخلی اقتصادی، سیاسی اور سماجی صورت حال پر ہوتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح پاکستان داخلی سیاسی تقسیم کا شکار ہے‘ اور حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ایک دوسرے کی قانونی ساکھ اور جواز کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں تو یقینا اس سے پاکستان کی عالمی دبائو سہارنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کا ایوان ایک اکھاڑہ بن چکا ہے جہاں ایک دوسرے پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ اس قسم کی داخلی سیاست پاکستان کے عالمی کردار کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ متحارب سیاسی قوتوں کو قومی مفادات پر کم از کم اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے اور حکومت کے اس حق کو قبول کرنا چاہئے کہ وہ ان مفادات کے حصول کے لئے عالمی سطح پر کام کر سکے۔
پاکستان کی ایک اور مشکل اس کی مخدوش معیشت ہے جو بیرونی سہاروں کی محتاج ہے۔ پاکستان اسی وقت عالمی سیاست میں ایک مثبت کردار نبھا سکتا ہے‘ اگر دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تجارتی اور معاشی تعلقات مستحکم بنیادوں پر استوار ہوں۔ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پرکشش مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔ اسی طرح عالمی سطح پر دیگر شعبوں میں بھی مثبت دلچسپی کو پروان چڑھانا چاہئے مثلاً سیاحت کا فروغ، آرٹ، فن تعمیر، موسیقی، سپورٹس اور انسانی ترقی کے پروگراموں کا کامیاب عملی نفاذ وغیرہ۔ اسی طرح ہم عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں یہ بد نما تاثر ختم کر سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے تمام سوتے پاکستان سے پھوٹتے ہیں۔ پاکستان اور بیرونی دنیا میں جتنے مثبت روابط استوار ہوں گے ہمارے لئے اتنا ہی بہتر اور مفید ہو گا۔ اس سے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان علاقائی بالا دستی کے خواہش مند بھارت کے ساتھ بھی موثر انداز سے نمٹ سکے گا۔