تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     30-05-2019

اب بھارتی حزبِ اختلاف کیا کرے؟

حالیہ چنائو کے نتائج آنے کے بعد بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کی ہوا نکلی ہوئی سی کیوں لگ رہی ہے؟ چنائو سے پہلے وہ سارے ایک جُٹ نہ ہو سکے تو چنائو کے بعد کیا وہ ایک جُٹ ہو سکیں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ میرے خیال میں انہیں مایوسی اور نا امیدی کی کھائی میں گرنے سے بچنا چاہیے۔ اگر وہ بھارتی جمہوریت سے حقیقت میں پیار کرتے ہیں تو انہیں کمر کس کر پھر کھڑے ہونا چاہیے۔ آگے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اس وقت ساری اپوزیشن کی تعداد دو سو کے آس پاس ہے جبکہ بھاجپا کی تعداد تین سو پچاس کے لگ بھگ ہے۔ لیکن ذرا یاد کریں کہ اکیلی اقتداری کانگریس کے پاس 410‘ کبھی 361 اور کبھی 352 ممبر آف پارلیمنٹ بھی رہے تھے۔ اپوزیشن کے ایم پیز کی تعداد اس سے بھی بہت کم رہی ہے جو اس وقت ہے‘ لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ نامساعد حالات کا سامنا کرتے رہے۔ وہ مانتے تھے کہ موٹر کار جتنے زیادہ ہارس پاور کی ہو‘ اس کا بریک بھی اتنا تگڑ اہونا چاہیے‘ لیکن بریک کار کے انجن جتنا بڑا تو نہیں ہو سکتا۔ وہ تو چھوٹا ہی ہو گا۔ بھارت میں اپوزیشن اس بار تعداد تھوڑی چھوٹی ہے تو کیا ہوا؟ اس کی ذمہ داری تو پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ اب اسے ایک بڑی حکومت کے معاملات کی نگرانی کرنی ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ وہ کیا ٹھیک کرتی ہے اور کیا غلط۔ اور اگر وہ کچھ غلط کرتی ہے‘ جو ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں‘ تو اس کا ہاتھ کیسے روکنا ہے۔ اسے سیدھے راستے پر کیسے لے کر جانا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1962ء اور 1967ء میں متحدہ سوشلسٹ پارٹی کے پانچ‘ چھ ممبر آف پارلیمنٹ ہی نہرو اور اندرا سرکار کا دم پُھلانے کے لیے کافی ہوتے تھے۔ ان کے سدن میں پائوں رکھتے ہی وزرائے اعظم کے چہروں کے رنگ بدلنے لگتے تھے۔ اب تو اپوزیشن والے پھر بھی سینکڑوں میں ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپوزیشن کے سبھی ایم پیز اقتداریوں (برسر اقتدار جماعتوں یا افراد) کے مخالف نہیں ہوتے۔ کچھ اپوزیشن پارٹیاں ایسی ہیں‘ جو ابھی تک الگ تھلگ بیٹھی تھی۔ قیاس یہی ہے کہ وہ حالات و واقعات کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہیں اور جونہی حکومت سازی کے سلسلے میں کچھ پیش رفت ہو گی‘ وہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو جائیں گی۔ لیکن جو اب بھی مخالفت میں ہیں‘ میرے خیال میں انہیں فوراً ایک بیٹھک بلانی چاہیے اور اپنا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد کھڑا کرنا چاہیے تاکہ ایک مضبوط حکومت کے سامنے ایک ٹھوس اپوزیشن قائم کی جا سکے۔ پہلے جو مہا اتحاد بنتا‘ اس کی واحد بنیاد اقتدار کی حاصلات ہوتیں‘ لیکن اب جو بنے‘ ضروری ہے کہ اس کی بنیاد ایک کم از کم مشترکہ پروگرام ہو‘ جس کے تحت مل کر آگے بڑھا جا سکے۔ ایسا پروگرام جسے لاگو کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں اور اس کے باہر زبردست دبائو بنایا جائے۔ ایسا دبائو کہ حکومت کے لیے اس پروگرام پر عمل کرنا ناگزیر ہو جائے۔ ایسا پروگرام بنوانے کے لیے پہلے تو خود لیڈروں کو سنجیدگی سے پڑھائی لکھائی کرنا ہو گی یعنی معاملات کا سنجیدگی کے ساتھ گہرائی تک جائزہ لینا ہو گا‘ اور پھر ماہرین سے صلاح مشورہ کرنا ہو گا تاکہ بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ سرکار جہاں بھی غلطی کرتی دِکھے‘ اس کی جم کر کھنچائی کرنے کی قابلیت اپوزیشن میں ہونی چاہیے۔ صرف آنکھ مارنے اور اشارہ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ کہنا بھی لا یعنی ہے کہ بھاجپا کے ساتھ کانگریس کی لڑائی سوچ کی ہے۔ اگر یہ سوچ ہوتی تو کانگریس کے لیڈروں کو مودی کی طرح نوٹنکیاں نہ کرنا پڑتیں۔ انہوں نے جنیئو دھاری اور پوجا پاٹھی ہونے کا ناٹک کیوں کیا۔ اب صوبائی لیڈروں کو یہ بھی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ ذات اور فرقہ واریت کی کشتیاں پار نہیں لگا سکتیں۔ اب ملک کی ہر پارٹی کو عوام کے مسائل کا حل کھوجنا ہو گا اور ان کی ہار جیت کی بنیاد وہ ہی بنیں گی۔ یہ اصولی حل فی الفور اور دور اندیشی پر مبنی ہونا چاہیے۔ بھارتی سماج میں بنیادی سجھائو قانون کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ ہماری سیاسی پارٹیاں صرف سرکار بنانے میں اپنی ساری قوت خرچ کر دیتی ہیں۔ ووٹ اور نوٹ ہی ان کے لیے افضل ہے۔ عوامی خدمت اور سماج سدھار ان کے لیے صرف مایا ہے۔ وہ گاندھی کے کانگریس لوہیا کی سپا‘ ونوبا کے سرودے اور گولولکر کی سنگھ کی طرح عوامی بیداری اور تحریک چلانے میں بھی دلچسپی لیں‘ یہ بہت ضروری ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کوحلف برداری تقریب میں بلائیں! 
پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے حالیہ انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے والے نریندر مودی کو ان کی جیت پر مبارک دیتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی ایک بار پھر پیشکش کی ہے۔ بھارت کی طرف سے وہی پُرانا رٹا رٹایا جواب دہرایا گیا کہ بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ حالانکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بہت کچھ کیاہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کی بات چیت شروع کرنے کی پیشکش کا یہ جواب کیا اشارہ دیتا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ جواب میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ شاید اس کا مطلب یہ ہو کہ 30 مئی کو ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان کو نہیں بلایا جائے گا۔ اگر عمران خان صاحب کو نہ بلایا گیا اور باقی سبھی پڑوسی ملکوں کے لیڈروں کو بلا لیا گیا تو کیا یہ اٹ پٹا (عجیب) نہیں لگے گا؟ جب نواز شریف کو 2014ء میں انہی نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں بلایا گیا تھا‘ تب بھی حالات اس سے مختلف نہیں تھے‘ جو اس وقت ہیں۔ انہیں تو اس کے باوجود بلا لیا گیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان صاحب عوام کے علاوہ فوج کے ساتھ بھی ایک پیج پر ہیں‘ لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ محترم عمران خان صاحب جب سے وزیر اعظم بنے ہیں‘ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات سدھارنے کی بات بار بار کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کئی بار بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے مابین حالات کو اعتدال پر لانے کے اقدامات بھی کئے۔ کرتار پور کوریڈور کا معاملہ انہوں نے ہی حل کیا ہے‘ ورنہ کسی بھارتی لیڈر کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اس سلسلے میں پیش رفت کرتا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو کرغیزستان جانے کے لیے پاکستان کی ہوائی حد سے اڑنے کی سہولت بھی انہی کی سرکار نے دی۔ بھارت کے حالیہ چناوئوں سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے کھلے عام بیان دیا تھا کہ مودی اگر جیت گئے تو پاک بھارت تعلقات ضرور بہتر ہوں گے۔ اس سے زیادہ کھلے دل کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ کرغیزستان کی دارالحکومت بشکیک میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ ایک دوسرے سے کافی اچھے ڈھنگ سے پیش آئے۔ انہوں نے آپس میں بات چیت بھی کی۔ ان سارے واقعات اور بیان کی گئی تمام کوششوں سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں بات چیت شروع ہونی چاہیے۔ عمران خان سرکار نے خاص طور پر انتہا پسندوں پر کافی بندشیں بھی لگائی ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک کو تسلی دی ہے کہ وہ پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے ہی رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان کی اپنی حدیں ہیں۔ ان کے اعلانات اور اب تک کی گئی کوششوں پر اعتبار کر کے اگر ان کو حلف برداری کی تقریب میں مودی نے بلا لیا‘ تو اپوزیشن کے ذریعے پلوامہ کے حادثہ کو زبردست ڈھنگ سے اچھالا جاسکتا ہے۔ یہ ایک پریشانی تو ہے‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان کو بلانے کا فائدہ اس سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس بار حلف برداری تقریب میں صرف پانچ عظیم قوتوں کے لیڈروں کو ہی بلایا جائے؛ تاہم اتنے مختصر وقت میں ان کا آنا بہت مشکل ہے۔ اس سب باتوں کے بیچ مودی تھوڑی ہمت دکھا سکتے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کو بلا کر پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں۔ اس بار کے حلف برداری تقریب کو پہلے سے خوبصورت اور زبردست ہونا چاہیے لیکن پاکستان کو مدعو کئے بغیر یہ کیسے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved