تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     30-05-2019

پچیسویں پارے کا خلاصہ

پچیسویں پارے کا آغاز سورۃ حم سجدہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔اسی طرح ہر اگنے والے پھل کا علم اس کے پاس ہے اور ہر عورت کے حمل اور اس کے بچے کی پیدائش کا علم اللہ کے پاس ہے ۔اللہ تعالیٰ ‘چونکہ خود بنانے والے ہیں‘ اس لیے اس سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ انسان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور اپنی ذاتوں میں بھی‘ یہاں تک کہ انسانوں کو یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے۔اس کے بعد سورۃ الشوریٰ ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا کہ فرشتے اپنے رب کی پاکی اور اس کی تعریف بیان کرتے ہیں اور زمین میں رہنے والے اہل ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر کس قدر مہربان ہیں کہ اس کے نورانی فرشتے جہاں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ‘وہاں اللہ کے حکم سے اہل ایمان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آپؐ پر قرآن عربی کی وحی کی ہے‘ تاکہ آپؐ ام القریٰ اور اس کے گرد بسنے والوں کو ڈرائیں اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرائیں‘ جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔ رسول اللہﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے وہ سب کے سب اپنی بستیوں اور اپنے علاقوں کے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو جمیع انسانیت کا رہنما بنا دیا اور آپ کی دعوت مکہ مکرمہ سے شروع ہوئی‘ جو کہ بستیوں کی ماں ہے اور اس کے بعد پوری دنیا میں پھیل گئی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو آپ اس دن ظالموں کو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خوفزدہ دیکھیں گے اور اس کا وبال ان پر آکر رہے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے وہ جنت کے باغات میں ہوں گے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو تلقین کی کہ آپ اعلان فرمادیں کہ میں دین کی دعوت کے سلسلے میں کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں‘ لیکن میں اتنا ضرور چاہوں گا کہ میرے اعز ہ و اقارب سے پیار کا سلوک کیا جائے ۔انبیا علیہم السلام دعوت دین کا کام صرف اللہ کی رضا کیلئے کرتے ہیں اور اس کے بدلے وہ دنیا کی زندگانی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ انسان کو زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آتی ہیں ان کا بنیادی سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت سے گناہوں کو نظر انداز بھی فرمادیتے ہیں۔ قرآن کے ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں پر گرفت فرمائیں تو زمین پر کو ئی مخلوق زندہ باقی نہ رہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کے تمام کام مشاور ت سے طے ہوتے ہیں ‘یعنی حقیقی مسلمان ہر کام میں اپنی رائے کے پیچھے چلنے کی بجائے مشاورت کے راستے کو اختیار کرتا ہے۔
سورۃ الشورٰی کے بعد سورۃ الزخرف ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس قرآن کو عربی میں اتارنے کی وجہ یہ تھی کہ اہل عرب اس زبان کو جانتے تھے اور اس کو پڑھ کر وہ شعور حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ اپنے نزول سے قبل قرآن مجید لوح محفوظ میں موجود تھا۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے والد اور قوم کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ میں بے شک تمہارے معبودوں سے برأت کا اظہار کرتا ہوں ۔سوائے اپنے پروردگار کے کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور یقینا وہی میری رہنمائی کرے گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس بات کو اپنی اولادمیں بھی جاری فرما دیا‘ تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کرتے رہیں۔اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی معاندانہ روش کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ کہتے تھے کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بااثر شخص پر کیوں نہیں اترا۔ اللہ نے کہا: کیا میری رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کے اختیار میں ہے؟ میں جب چاہتا ہوں اور جہاں چاہتا ہوں اپنی رحمت کو اتار دیتا ہوں ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے تھے‘ جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی نشانی بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ ؑ قیامت کی ایک نشانی ہیں اور حدیث پاک میں اس بات کی صراحت ہے کہ قرب قیامت عیسیٰ علیہ السلام فرشتوں کے جلو میں دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار کے ساتھ اتریں گے‘ خنزیر کو قتل کریں گے‘ صلیب کو توڑیں گے ‘جزیے کو موقوف کریں گے اور فتنہ دجال کا خاتمہ فرمائیں گے۔اس کے بعد سورۃ الدخان ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ انہوں نے قرآن مجید کو برکت والی رات میں نازل فرمایا‘ پھر قوم فرعون کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک عزت والے رسول‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام آئے ‘جنہوں نے اُن سے کہا :تم اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو ‘میں بے شک تمہارے لیے اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں اور اللہ کے حکم سے سرکشی اختیار نہ کرو‘ میں بے شک تمہارے پاس ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں‘ فرعون نے اس 
موقع پر جناب موسیٰؑ و سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔ جناب موسیٰ ؑنے اس سے کہا کہ میں اپنے اور تمہارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو ؛ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے دور ہو کر رہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پروردگار عالم کو پکار کر کہا کہ اے رب !یہ تو مجرموں کی قوم ہے۔تو‘ اللہ نے ان سے کہا :آپ میرے بندوں کو لے کر رات میں نکل جائیے‘ آپ کا پیچھا کیا جائے گا اور آپ سمندر کو ٹھہری ہوئی حالت میں چھوڑ دیں گے‘ بے شک یہ (تعاقب کرنے والے) ڈوبنے والا لشکر ہیں ۔
اس کے بعد سورۃ الجاثیہ ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کیلئے اور انسانوں اور جانوروں کی تخلیق میں نشانیاں ہیں یقین رکھنے والوں کیلیے اور صبح و شام کی گردش میں اور آسمان سے اترنے والے پانی میں جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں اورہوائوں کے چلنے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کیلئے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سمندروں کو مسخر کیا‘ تاکہ اس کے حکم سے ان میں کشتیوں کو چلایا جائے اور اس کے فضل کو تلاش کیا جائے‘ تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب و حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ رزق بھی دیا اور ان کو جہانوں پر فضیلت دی‘ پھراس کے بعد اللہ تعالیٰ نے شریعت کو بنی اسرائیل سے لے کر رسول کریمﷺ کے سپرد کر دیا اور رسول ؐکو بھی تلقین کی کہ آپ نے یہود و نصاریٰ کی خواہشات کو کوئی اہمیت نہیں دینی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پڑھنے ‘سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔(آمین)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved