روس کوکئی جغرافیائی چیلنجز کا سامنا ہے‘ کوئی تعجب نہیں‘کیونکہ بہت سے مسائل کی حدود نہیں ہوتی۔ روس کے ریاستی شماریاتی ادارے کے مطابق؛ نقل مکانی کر کے گزشتہ سال ملک کی آبادی میں 124900 افراد شامل ہوئے۔ روس میں آنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی (دونوں سال 2018ء میں پچھلے سال کے اعداد و شمار میں بھی کمی ہوئی تھی) اور ملک سے کوچ کر جانے والوں میں اضافہ (2017ء کے مقابلے میں گزشتہ سال 16.9 فیصد اضافہ ہوا)دیکھنے کو ملا۔ یہ اعداد و شمار 2005ء کے مطابق کم ہی ہیں۔ 2011ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق؛ حالیہ تبدیلیاں‘ 14 سال قبل ہونی والی تبدیلیوں سے کئی گنا کم ہیں۔ آبادی میں کمی صرف ایک عنصر ہے۔روس ماضی کے مقابلے میں اقتصادی طور پر خود کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔بڑی تعداد میں لوگ پہلے ہی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں ‘ لیکن روسٹیٹ(Rosstat) کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق؛ ملک کو اوسط 300000 افراد ایک سال کے اندر چھوڑ کر چلے گئے‘ جو بہت بڑا چیلنج ہے‘جس کی وجہ روس کے جغرافیائی بحران بتائے جاتے ہیں؛اگر ماسکو اپنے ان بحرانوں پر قابو پانے میں ناکام رہا تو ان کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
روس طویل عرصے سے محدود پیدائش کی شرح اور امیگریشن جیسے مسائل پر قابوپانے کے لیے دن رات محنت کر رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں اور تعلیم یافتہ افراد کے درمیان ‘ صحت مند آبادی کی تعداد برقرار رکھنے کے لئے جدوجہدجاری ہے۔ اہم عنصر آبادی میں کمی کا امکان‘ روس کی صنعتی سرگرمی کو روکنے میں ‘بلکہ ٹیکس آمدنیوں کو جمع کرنے‘ اس کے پنشن نظام کو برقرار رکھنے اور فوج کو متحرک کرنے کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ صورت حال کو کنٹرول کرنے میں روس کی آبادی کی تعداد بڑھانے اور ملازمتوں کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں ‘تاہم اس حکمت عملی کے باوجود مسائل جوں کے توں ہیں۔بہت سی نئی نوکریاں تعلیم میں کمی کے معیار کو پورا نہیں کر سکتیں‘ جبکہ سلیک روسیوں کی اکثریت نے مسلم عقائد اور نسلی اختلافات ‘ ملک میں ثقافتی کشیدگی پیدا کیے ہوئے ہے۔بے شک‘ روس کی آبادی میںکمی کی نئی رپورٹ نہیں‘ روسٹیٹ (Rosstat) رپورٹ سے قبل اقوام متحدہ انہی مسائل پر پہلے ہی اپنی رپورٹس میں پیش گوئی کر چکا ۔ حالیہ برسوں میں روسی نقل و حرکت کے رجحانات اس بات کو ظاہرکرتے ہیں کہ تعلیم شعور اور انتہا پسندی ان بحرانوں پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پیش گوئیاںصرف منتقلی کے رجحانات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔
اقوام متحدہ نے روس کے حوالے سے آبادی کی پیش گوئی کی‘ جبکہ روسس نے ماسکو کی مدد کرنے کے لئے بڑے‘ درمیانے اور کم بینچ کے معیار کے ساتھ تین مختلف پیش گوئیاں شائع کیں‘ تاکہ آبادی کے سائز کی منتقلی کے ساتھ رجحانات میں اضافہ ہو۔ مختلف نظریات کو مثبت رجحان کی ضرورت ہوتی ہے یا زیادہ مثبت نقطہ نظر کے لئے مختلف سروے رپورٹس کی بنیاد پرسب سے زیادہ خوشگوار پیش گوئیاں جمہوریت کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہیں۔ حالیہ نقل مکانی کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ روس اس منصوبے کو پورا کرنے میں جدوجہد کرے گا‘ جس میں سب سے زیادہ منفی نقطہ نظر بھی شامل ہے۔اگر روسی نقل مکانی کی اطلاعات درست ہیں‘ رجحان کی پیروی کی جا رہی ہے تو‘ ملک میں جغرافیائی تبدیلیوں کا تعین کرنا آسان ہو جائے گا۔
نقل مکانی کی بنیادی وجوہ عارضی ہیں ‘لیکن نظام پسند نہیں۔ روس اپنے تارکین وطن‘مستقل شہریوں‘ غیر روسی اور غیر آرتھوڈوکس تارکین وطنوں کے لئے خطرناک منزل بناہوا ہے ۔ روسی اور غیر ملکی باشندوں کی تحریک کے درمیان منتقلی رجحانات میں ایک اہم فرق موجودہے۔ روس کے مستقل شہریوں کے لئے خالص منتقلی کے اعداد و شمارکم ہیں‘غیر ملکی شہریوں کی روس چھوڑنے کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔
روس نئے آنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام دکھائی دیا‘بلکہ پہلے سے موجود غیر ملکی شہری روس چھوڑ کر چلے گئے ‘ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روس ملک میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔نئی نوکریاں پیدا کرنے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکا‘ قازقستان اور آذربائیجان جیسے ممالک میں روزگار کے مواقع فراہم کر کے ممکنہ ترقی کی جانب گامزن ہیں۔ روس کے معاشی بحرانوں نے بہت سے تارکین وطن کارکنوں کو دو سابق سوویت ریاستوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا۔ منتقلی پر علاقائی ماہرین کے مطابق؛ یہ دونوں ممالک غیر ملکی کارکنوں کو زیادہ مراعات فراہم کرتے ہیں اور کم سے کم امیگریشن پابندیاں لگائی جاتی ہیں‘ جس کی وجہ سے کارکنوں کا رحجان ان کی طرف بڑھ رہا ہے ۔وسطی ایشیا کے علاوہ‘ وسطی یورپ نے روایتی طور پر روس اور اس کی امیگریشن پالیسیوں پر گہرا اثر چھوڑاہے۔ لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں‘شرق اوسط کی بجائے مغرب کی طرف رخ کرتے ہیں۔ روس کو اپنی امیگریشن پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور کارکنوںکے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے چاہیے ‘تاکہ لوگوں کو رجحان یورپ یا دیگر گلف سٹیٹ کی بجائے روس کی طرف بڑھے ‘اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔
نوٹ:15 مختلف جمہوریتوں پر مشتمل سوویت یونین راتوں رات ٹوٹا‘ یہ بکھراؤ اتنا بڑا تھا کہ 25 برسوں کے بعد آج بھی اس کے جھٹکے محسوس کیے جا تے ہیں۔20 ویں صدی میں تاریخ‘ معیشت‘ نظریات اور ٹیکنالوجی کو متاثر کرنے والا سوویت یونین‘ جس طرح سے اچانک ایک رات میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوا‘ یقینابڑے سانحہ سے کم نہیں ‘1917ء میں کمیونسٹ انقلاب سے پیدا ہونے والے سوویت یونین میں کم از کم 100 قومیتوں کے لوگ شامل تھے‘ ان کے پاس زمین کا چھٹا حصہ تھا‘سویت یونین نے ہی خلا میں پہلا سیٹیلائٹ اورپہلا انسان بھیجا۔5 دسمبر 1991 ء کو میخائل گورباچوف نے سوویت یونین کے صدر کے طورپر استعفے کا اعلان کیا۔ کریملن میں آخری بار سوویت پرچم اتارا گیا۔سوویت یونین خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا تھا ‘بجائے اس کے کہ مزید لڑائی جھگڑے ہوتے ‘کشیدگی بڑھتی سوویت یونین مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ یوں دنیا پر راج کرنے والی سب سے بڑی جمہوریت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔