تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     31-05-2019

آرٹیکل 5 اور ڈرٹی گیم

کسی زمانے میں گریٹ گیم حقیقت بھی تھی اور سازشی تھیوری بھی۔ پھر وسائل کی تقسیم در تقسیم نے انسانوں کے مسائل بڑھا دیے۔ یوں، روٹی پانی کی چھینا جھپٹی سے ڈرٹی گیم نے جنم لیا ۔ بڑی تیزی سے بھوک اور افلاس نہیں بلکہ بڑے پیٹ اور بڑی خواہشیں اس ڈرٹی گیم کا بریڈنگ گرائونڈ بنتی چلی گئیں۔ آج ضمیروں کی تجارت کی سب سے بڑی عالمی منڈی یہیں لگتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کئی صدیوں میں ریاست کی کئی تعریفیں کی گئیں جن میں سے 2 عدد کو فی زمانہ، زمینی حقائق کے بہت قریب سمجھا گیا۔ ایک یہ ہے، ریاست ایسا سپریم ادارہ ہے جو شہریوں کے ساتھ عمرانی معاہدے کی حفاظت یقینی بنائے۔ دوسری تعریف کے مطابق، کسی خطۂ زمین کے باسیوں کا ایسا گروہ جس کے پاس Legitimate violence یعنی بروئے قانون تشدد کرنے کا جائز حق ہو۔ پہلی تعریف ملک کے دستور یا آئین سے متعلق ہے جب کہ دوسری قوانین اور ضابطوں کے تحت ۔ مثال کے طور پر کوئی شہری کسی دوسرے شخص کو رسّے سے لٹکا کر پھانسی دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ مگر ، وہی شخص اگر محکمہ جیل خانہ جات کی ملازمت میں چلا جائے اور عدالتی فیصلے کی روشی میں جاری ہونے والے ڈیتھ وارنٹ پر عمل کرنے کے لیے کسی سزا یافتہ کے گلے میں پھندہ ڈال کر اسے تختۂ دار پر لٹکا دے تو اسے Legitimate Right of Violence کہا جائے گا، جُرم ہرگز نہیں۔
دستور اور قانون کی تشریح کے لیے جو اصول استعمال ہوتے ہیں انہیں ٹولز آف انٹر پری ٹیشن کہا جاتا ہے۔ ان میں سے دو کو ساری دنیا میں ایک جیسا مانتے ہیں۔ پہلا؛ ہر آئین یا قانون کا دیباچہ (Preamble) اہم ترین ہے ۔ دوسرے ریاست سے وفاداری۔ اسی آفاقی اصولِ ریاست کے تحت پاکستان کے دستور میں آرٹیکل نمبر 5 وضع ہوا جس کے الفاظ یہ ہیں:
Article 5. Loyalty to State and obedience to Constitution and law.
-(1) Loyalty to the State is the basic duty of every citizen.
(2) Obedience to the Constitution and law is the [inviolable] obligation of every citizen wherever he may be and of every other person for the time being within Pakistan.
آئینِ پاکستان مجریہ 1973ء کے آرٹیکل 5 کے بارے میں آگاہی یا Public awareness نہ ہونے کے برابر ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی کچہری، سیاسی جماعت کے دفتر، مذہبی رہنما یا پارلیمنٹ کے لیڈروں سے پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ حالانکہ یہی سارے لوگ آئین اور آئینی ترمیم کے لیے سر کٹوانے کا اعلان یوں کرتے ہیں جیسے ان کا سر نہیں کدو نے کٹنا ہے۔ اس مختصر آرٹیکل کے دو چھوٹے چھوٹے حصے ہیں مگر ریاست کی بنیاد ذیلی آرٹیکل نمبر 1 میں ریاست سے وفاداری کو ہر شہری کی بنیادی ڈیوٹی قرار دیا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ریاست شہری کو رائٹ آف لائف، شناخت، کام کرنے کی آزادی اور آگے بڑھنے کے مواقع سمیت کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی حد تک تمام بنیادی سہولتیں اور حقوق دیتی ہے۔ پاکستان کی ریاست اس سلسلے میں اپنے خطے کی سب سے پرو ایکٹو ریاست ہے۔ آزاد عدالتیں، بڑی حد تک انصاف کی فراہمی اور جان و مال کے تحفظ کے لیے مضبوط ادارے دن رات جاگتے ہیں۔ انفرادی جرائم سے قطع نظر ۔کیونکہ کرۂ ارضی پر حضرتِ انسان نے شاید ہی کوئی سوسائٹی کبھی ''کرائم فری‘‘ رہنے دی ہو۔
آرٹیکل 5 کے دوسرے حصے میں آئینِ پاکستان کی تا بعداری اور ملک کے قانون کی پاس داری ہر شہری پر فرض کر دی گئی۔ وہ بھی نا قابلِ تنسیخ فرض ۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ شہری جہاں بھی ہو میران شاہ سے تافتان تک ، رحیم یار خان سے اٹک تک، کراچی سے خیبر تک یا پھر کوئٹہ سے کہوٹہ تک۔ اس کے علاوہ کوئی بھی غیر ملکی شخص جو وقتی طور پر پاکستان کی حدود میں رہائش رکھتا ہو یا داخل ہوا ہو، آرٹیکل5 اس سے ملکی شہریوں جیسی وفا داری اور تابع داری کا تقاضا کرتا ہے۔
اصل میں آرٹیکل 5 کی زُبان عمرانی معاہدے میں توازن پیدا کرتی ہے جس کا بنیاد ی فلسفہ ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے ''جو فرض ادا کرے اسے ہی حق ملتا ہے۔ جو فرائض سے انکاری ہو وہ حقوق سے دست برداری کا اعلان کرتا ہے‘‘۔
1973ء کے آئین میں 3 طرح کے حقوق گارنٹی کیے گئے ہیں۔ اولاً؛ بنیادی حقوق۔ ثانیاً؛ سِوک رائٹس یا شہری حقوق۔ ثالثاً؛ انسانی حقوق‘ جن کی انفورسمنٹ کے لیے آئینی عدالتوں کو اختیارِ سماعت دیا گیا ۔ جب کہ رِٹ آ ف سٹیٹ اور آئین کی تقدیس کو چیلنج کرنے والوں کے لیے ملک کے سب سے بڑے قانون یعنی دستور میں آرٹیکل 6 ڈالا گیا۔ اب آ ئیے آ ئین کے دیباچے کی طرف جس کی 18 شقیں ہیں جن میں سے 3 کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ساتویں شق میں سٹیٹس کی برابری، مساوی مواقع، قانون کا یکساں نفاذ، معاشی اور سیاسی انصا ف، سوچ اور اظہار کی آ زاد ی ہو ۔ ایقان اور ایمان ، عبادات اور میل ملاپ کی آ زادیاں بنیادی حقوق میں شامل کر دی گئیں۔ ان پر ریاست کو جو کنٹرول دیا گیا وہ یہ ہے:
subject to law and public morality.
جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان آزادیوں کے نا م پر نہ تو کوئی ملکی قا نون توڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوا می اخلاقیات اور قومی مورال۔ ہمارے آئینی دیباچے کی شق نمبر 10 حقوق و فرائض کے بیلنس کو آشکار کرتی ہے ۔
(Where the integrity of the territories of the federation, its independence and its all rights, including its sovereign rights on land, sea and air, shall be safeguarded ) 
فیڈریشن کے سارے علاقوں کو جوڑے رکھنا ملک کی آزادی اور خود مختاری کے تمام ذرائع، زمین، سمندر اور ہوا میں ہر حالت میں محفوظ رکھے جائیں گے ۔
Inspired by the resolve to protect our national and political unity and solidarity by creating an egalitarian society through a new order.
اسی طرح شق 17 کہتی ہے: بانیٔ پاکستان قائد اعظم کے عز م کے مطابق اپنی قومی اور سیاسی وحدت تلے قومی امنگوں کو پروان چڑھایا جائے گا۔
ڈرٹی گیم امنگیں نہیں جنگیں پروان چڑھاتی ہے۔ ڈرٹی گیم کے کردار پھر بے نقاب ہیں۔ یہی لوگ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ بھی مانگتے ہیں ۔ اِن کی مثال اس مرغے جیسی ہے جو بانگ دے کر سمجھتا ہے کہ سورج اس کے حکم پر طلوع ہوا۔
ڈرٹی گیم گورننس اور کارِ سرکار میں بھی چلتی ہے۔ یوکرائن کے نو منتخب صدر ذیلنسکی یوکرائنی نے ملک کی بیوروکریسی میں ڈرٹی گیم کے کرداروں کو پہلا پیغام ان لفظوں میں دیا ''میں تمہارے دفتروں میں اپنی تصویر لگی ہوئی نہیں دیکھنا چاہتا۔ ملک کا صدر نہ آئیکون ہوتا ہے نہ کوئی مجسمہ۔ میر ی بجائے اپنے دفتروں میں اپنے بچوں کی تصویریں لٹکا دو۔ اور ہر دفعہ ان پر نظر ڈالو جب بھی تم ملک کے لیے کوئی فیصلہ کرنے لگو‘‘۔ 
قوم یک جا ہے مگر بانگی مرغے اسے یکسو نہیں ہونے دیتے۔ ڈرٹی منی کا دروازہ ہمیشہ ڈرٹی گیم میں سے کھلتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved