تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-05-2019

یہ ہیں وہ جعلی اکائونٹس

جیسے ہی شریک چیئر مین پی پی پی آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کی ہدایات پر جعلی اکائونٹس بارے قائم جے آئی ٹی کی رپورٹ کا جواب دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ وہ اب نیب کی کسی بھی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوں گے اور جیسے ہی نیب کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں میاں نواز شریف اور مریم صفدر کی ضمانت کے خلاف اپیل سامنے آئی اور پھر جیسے ہی نیب نے مولانا فضل الرحمان کے منیجر سابق وزیر اعلیٰ سرحد اکرم خان درانی کے خلاف انکوائری کی منظوری دی‘ تو اگلے ہی روز اپوزیشن کی ان تینوں بڑی سیا سی جماعتوں نے عمران حکومت کے خلاف جون کے تیسرے ہفتے سے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ۔ پھر چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کو بدنام کرنے‘ ان کی کارکردگی کو مشکوک اور یک طرفہ ثابت کرنے کے لیے آج کے گوئبلز کے تخلیق کردہ حربے استعمال کرناشروع کر دیئے گئے۔ 
ہو سکتا ہے کہ کچھ عجیب سا لگے لیکن میری معلومات یہ ہیں کہ اس وقت بلاول بھٹو کی تقاریر‘ اور عمران خان اور نیب کے خلاف پروپیگنڈا مہم کی نگرانی امریکہ اور بھارت میں بیٹھے ہوئے زرداری صاحب کے انتہائی محترم دوستوں کے سپرد ہے۔ جب پاکستان میں فالودے والا‘ پاپڑ والا‘ سائیکل مکینک‘ گھوڑوں کے اصطبل میں کام کرنے والا کے نام اور ویٹروں اور صفائی کرنے والوں کے ناموںپر کھولے گئے بینک اکائونٹس سے کئی ارب روپے کی ترسیلات زر کی کہانیاں باہر آئیں تو جس نے بھی سنا ششدر رہ گیا ۔کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جن کے ناموں پر جعلی اکائونٹ کھولے گئے‘ ان کے ناموں کی جب ملکی میڈیا میں تشہیر ہو ئی تو پورا میڈیا وہ گھر دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑا جہاں سے ایک سے دو ارب روپے کی ترسیلات زر کی گئیں‘ لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ گھر غربت کی ایسی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور وہاں دو وقت کی روٹی کے لیے جد وجہد کرنے والے ڈھانچے رہ رہے تھے۔ ایک کے بعد ایک سامنے آنے والے جعلی اکائونٹس کی تحقیق کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ جیسے ہی تیار ہوئی توان سب کے اوسان خطا ہو گئے۔ اب ان کے لیے اپنے بچائو کا ایک ہی طریقہ تھا کہ سب مل کر اپنے پورے لائو لشکر اور وسائل کے ساتھ سیاسی طاقت کے لشکروں کے ذریعے عمران خان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ انہوں نے اگر یہ تختہ نہ الٹا تو ان کے لیے آگے بہت بڑی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔
مجھے اپنے 24 مئی کے کالم پر جس قسم کا فیڈ بیک موصول ہوا اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ قوم اب ملکی وسائل کو لوٹنے والوں کے کڑے احتساب پر اکٹھی ہو چکی ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر جے آئی ٹی کی اس رپورٹ کو اپوزیشن کی جانب سے چلائی جانے والی ممکنہ تحریک سے خوف زدہ ہو کر سیا ست کی نذر کر دیا گیا تو یہ اس ملک اور اس کے کچلے ہوئے غریب عوام کے ساتھ وہ ظلم ہو گا جس کی سزا نہ جانے انہیں کب تک جھیلنا پڑے ۔ صرف جعلی اکائونٹس کی بات کروڑوں اور اربوں روپے کی نہیں بلکہ کھربوں روپے کی ہے۔ یہ کسی کے نہیں بلکہ اس ملک اور اس کی عوام کے ہیں ‘جنہیں جس طریقے سے لوٹا گیا‘ کس کس نے لوٹا‘ ان سب کے چہرے پوری سچائی کے ساتھ بغیر کسی جھوٹ اور ملمع کے سامنے لانے چاہئیں۔
اس وقت تک11500 جعلی بینک اکائونٹس اور ان اکائونٹس کو آپریٹ کرنے والے924 افراد ‘اس کے علاوہ مختلف بینکوں سے کی جانے والی 59 مشکوک ٹرانزیکشنزکی جانچ پڑتال اور ان 924 مشکوک افراد کے ناموں سے کی جانے والی 24500 ترسیلات زرکا کھوج لگایا گیا ہے اور ان جعلی اکائونٹس کی جانچ پڑتال کرنے سے پہلے جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کہ صرف ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی ترسیلات زرکا جائزہ لیا جائے گا‘ اس سے کم کو نظر انداز کیا جائے۔ معززسپریم کورٹ کے حکم کے تحت تشکیل دی جانے والی جائنٹ انٹیرو گیشن ٹیم نے ملک کے پانچ مختلف بینکوں سے ملنے والے ریکارڈ کی روشنی میں 885 افراد کو تفتیش کے لیے طلب کیا لیکن صرف767 افراد جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے جبکہ118 غائب ہو گئے۔ ان 885 افراد پر ایف آئی اے نے سپیشل بینکنگ کورٹ میں 6 جولائی 2018ء کو مقدمہ درج کرتے ہوئے ان میں سے اب تک صرف پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ باقی سب قانون کی گرفت سے باہر ہیں‘ جس کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ شاید اتنے لوگوں کو گرفتار کرنے کے بعد ایف آئی اے یا نیب سندھ کی جیلوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہی یا ان کے پاس تفتیشی افسران کی کمی ہے ۔
عمران حکومت کے خلاف تحریک چلانے سے پہلے اور اسے سلیکٹڈ یا نالائق وزیر اعظم کہنے سے پہلے قومی اسمبلی‘ جسے مقدس ایوان کے نام سے بھی پکارا جا تا ہے‘ وہاں کھڑے ہو کر بلاول بھٹو اور نواز لیگ سمیت اتنی سی وضاحت کر دیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ کےAnnex 48میں لکھاگیا کیا وہ پیرا گراف بالکل جھوٹ ہے جس کے مطابق ڈیلی ریسٹورنٹ کو ادا کئے جانے والے 4.14 ملین روپے کے باورچی خانے اور مہمانوں کے خورو نوش پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگیاں ان بوگس اکائونٹس سے کی گئیں؟
جائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کی سفارش پر147 افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے تاکہ ان کیPNIL (Provisional National Identification List)کرانے کے بعد ان سے تفتیش کی جا سکے۔اگر صرف چار اکائونٹس پر کی جانے والی جائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کی تفتیش کو ہی سامنے رکھ لیا جائے تو صرف 2015 ء تک'' اے ون انٹرنیشنل کے 4.4 ارب روپے ‘ اقبال میٹل کے 3 ارب روپے‘ لکی انٹرنیشنل کے 2.8 ارب روپے اور عمیر ایسوسی ایٹس کی جانب سے 6.3 ارب روپے کی مختلف بینکوں سے کی گئی ترسیلات زر سامنے لائی گئی ہیں۔علاوہ ازیں پانچ مختلف بینکوں میں کھولے گئے جعلی اور نا معلوم لوگوں کے 32 اکائونٹس سے42373 ملین کی ترسیلات زر سامنے لائی گئی ہیں ۔ کسی بھی بینک کے ذریعے کی جانے والی ٹرانزیکشن ایسا ثبوت ہوتا ہے جسے کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کیونکہ تمام ریکارڈ خود بول رہا ہوتا ہے ۔ 42 ملین روپے سے زائد کا پانچ مختلف بینکوں سے حاصل کیا گیا ریکارڈ جے آئی ٹی کا حصہ بن چکاہے ‘ یہ اکائونٹس جنوری 2010ء میں آپریٹ کئے گئے اور جنوری 2017ء تک ان اکائونٹس سے13809 ٹرانزیکشنز کی گئیں۔ان میں رکشہ ڈرائیور محمد رشید کے نام سے ڈریم ٹریڈنگ قائم کی گئی‘ محمد قدیر فالودے والے کے نام پر اوشین ٹریڈنگ قائم کی گئی اور اقبال ارائیں جو ایک سینٹری سٹور پر کام کرتا تھا اور اب اس دنیا میں نہیں رہا اس کے نام سے اقبال میٹل ٹریڈنگ کمپنی بنائی گئی۔تین کھرب روپے کے ایک کمرشل پلاٹ کوبیچنے کے لیے جس نوجوان کا ایڈریس اور دستخط سامنے آئے اس نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ تو اس وقت کالج کا طالب علم تھا جسے ان کے بزرگ عزیز نے یہ کہہ کر بھیجا کہ وہاں جا کر کچھ کاغذات پر دستخط کر دو۔ 
22 مختلف کمپنیوں ‘ شوگر ملوںاور افراد کے نام سے کی جانے والی بے قاعدگیوں اور بوگس ذرائع سے ملکی خزانے سے کی گئی لوٹ مار کی ہولناک رپورٹیں دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کیونکہ پوری قوم کو لگایا گیا یہ چونا چند کروڑ یا ارب نہیں بلکہ22,727,776,221 یعنی بائیس ارب بہتر کروڑ ستتر لاکھ چھہتر ہزار دو سو اکیس روپے کا ہے‘ اور یہ اس رپورٹ کا صرف ایک حصہ ہے‘ باقی پھر سہی۔
42 ملین روپے سے زائد کا پانچ مختلف بینکوں سے حاصل کیا گیا ریکارڈ جے آئی ٹی کا حصہ بن چکاہے ‘ یہ اکائونٹس جنوری 2010ء میں آپریٹ کئے گئے اور جنوری 2017ء تک ان اکائونٹس سے13809 ٹرانزیکشنز کی گئیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved