چیئرمین نیب کے ذاتی معاملہ سے میرا کوئی واسطہ نہیں: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''چیئرمین نیب کے ذاتی معاملات سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘ اور اُمید ہے کہ وہ بھی میرے ذاتی معاملات سے بھی کوئی واسطہ نہیں رکھیں گے‘ کیونکہ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہایت نامناسب بات ہے‘ مثلاً: جعلی اکاؤنٹس وغیرہ‘ جیسے معاملات میرے انتہائی ذاتی معاملات ہیں‘ جن سے ان کو الگ رہنا چاہیے‘ تاکہ میرے علاوہ دوسرے لوگ بھی اپنے ذاتی معاملات سے پوری تسلی کے ساتھ عہدہ برأ ہو سکیں‘ جبکہ یہ کسی کے بھی یہ شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ ذاتیات میں دلچسپی لیتے رہیں ‘جو کہ پرائیویسی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے ‘جبکہ ذاتیات کے علاوہ ذات پات کا بھی پورا پورا خیال رکھنا چاہیے‘ تاکہ ملک کے معاملات مکمل یکسوئی سے ادا کیے جاتے رہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک صحافی کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
نہتے کارکنوں پر لاٹھی چارج ‘عمران کی آمرانہ سوچ ہے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''نہتے کارکنوں پر لاٹھی چارج عمران کی آمرانہ سوچ ہے‘‘ جبکہ ماڈل ٹاؤن میں نہتے لوگوں اور خواتین پر گولی چلانا ایک مجبوری تھی ‘کیونکہ اُن کے رہنما ڈاکٹر صاحب نے ہمارا جینا حرام کر رکھا تھا‘ جبکہ اُن کو لمبے چوڑے ادارے کیلئے زمین تایا جان نے عطا کی تھی ۔اس لیے انہیں احسان فراموشی کی سزا دینا محض ایک مجبوری تھی ‘تاکہ لوگ بھی اس سے سبق اور عبرت حاصل کریں اور احسان فراموشی سے ہمیشہ کے لیے پرہیز کریں ‘جبکہ زمین دینے والے کے سگے بھائی اور بھتیجے کے پوچھل حکومت کے ذریعے الگ اُٹھوا رکھے ہیں؛ حتیٰ کہ والد صاحب کو لندن میں جاپناہ لینا پڑی اور اب وہ ایسے ملک میں کس منہ سے واپس آئیں گے‘ جبکہ اُن کے پاس منہ بھی ایک ہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دارالحکومت کو چار ماہ مفلوج رکھنے والا دھرنا
گروہ چھوٹا سا احتجاج برداشت نہیں کر سکا: مریم نواز
مستقل ناہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''دارالحکومت کو چار ماہ تک مفلوج رکھنے والا دھرنا گروہ ایک چھوٹا سا احتجاج بھی برداشت نہیںکر سکا‘‘ اور اُمید ہے کہ میرے حمایتی بیان سے پیپلز پارٹی ثابت قدم رہے گی اور تحریک کے سلسلے میں کسی اشارے پر بھاگ نہیں جائے گی؛ اگرچہ وہ پیپلز پارٹی کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ احتجاج واقعی بہت چھوٹا سا تھا ‘جو کہ اس کے ہرگز شایانِ شان نہیں تھا‘ جبکہ اُنہیں چاہیے تھا کہ ہمارے ساتھ رابطہ کرتے‘ کیونکہ ہمارے پاس معمولی معاوضے پر جوشیلے کارکن موجود رہتے ہیں‘ جنہیں ادھار دیا جا سکتا تھا‘ جبکہ ایسے بھی وہ کافی دنوں سے بے روزگار ہیں‘ کیونکہ افہام و تفہیم کی اُمیدیں ہمیں بھی اُنہیں زحمت دینے کا موقعہ نہیں ملا تھا کہ وہ اپنی جانثاری کا مظاہرہ کر سکیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کے تازہ مجموعہء کلام ''موہوم کی مہک‘‘ میں سے ایک نظم:
میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟
میں تمہارے ساتھ/ بہت دُور تک چل سکتا ہوں/ اور زمین کے ہر اُس ٹکڑے پر/ اپنا دل بچھا سکتا ہوں/ جہاں سے گزرنے کا تم ارادہ کرو/ بند دروازے پر/ کھڑا رہ سکتا ہوں/ تمہاری آہٹ کے نمودار ہونے تک/ بادلوں کو کھینچ کر/ تمہارے دالان تک لا سکتا ہوں/ اگر تم چاہو/ تمہارا پانی بھر سکتا ہوں/ اور کاندھوں پر بٹھاکر پوری دنیا گھما سکتا ہوں/ ننگے پاؤں انگاروں پر چل سکتا ہوں/ ناچ کر دکھا سکتا ہوں/ خفت کے بغیر/ کہ مجھے ناچنا نہیں آتا/ ہنس سکتا ہوں/ خوشی کی عدم موجودگی میں/ میں تمہارے دُکھوں کو بدل سکتا ہوں/ اپنی بچی کھچی خوشیوں کے ساتھ/ تھام سکتا ہوں/ تمہارے آنسوؤں کو/ اپنے سینے کے تلاطم میں/ تمہاری بے چینی کو/ اپنی بے خواب راتوں میں جگہ دے سکتا ہوں/ آرام کر سکتی ہے تمہاری تھکن/ میرے وجود کی دُکھن کے اندر/ میں سن سکتا ہوں/ آہنی زنجیروں کی آوازیں/ اور شناخت کر سکتا ہوں/ تمہاری اذیت کو/ بغیر کسی کوشش کے.../ گزر سکتا ہوں/ بے اعتنائی کی کٹھن راتوں/ اور لاتعلقی کے دشوار دنوں سے/ مسکراتے ہوئے/ ویسے... میں تمہاری دیواروں سے ٹکرا کر گر بھی سکتا ہوں/ اور تم سے مُنہ موڑ کر/ کسی ویران ٹیلے کی اوٹ میں آنسو بہاتے ہوئے/ معدوم بھی ہو سکتا ہوں/ تم سے کچھ کہے بغیر/ میں تمہاری خوابگاہ کی مہک میں/ سانس روکے/ کھڑا رہ سکتا ہوں/ تمہاری ریشمی نیند کے ٹوٹ جانے تک/ لبریز کر سکتا ہوں تمہارے دل کو/ خوشی یا پھر تاسف سے/دے سکتا ہوں/ تمہاری دُکھتی آنکھوں کو/ تعلق اور ٹھنڈک میں لپٹے خواب/ اگر تم چاہو/ میں تمہارے ہونٹوں میں رنگ بھر سکتا ہوں/ تمہاری مٹی پر/ پھول کھلا سکتا ہوں/ میں جذب کر سکتا ہوں/ تمہاری تمکنت کو/ اپنی خاکساری میں/ چل سکتا ہوں تمہارے ساتھ/ جب دنیا میں کوئی بھی اس کے لیے تیار نہ ہو/ اور ابدی خاموشی چھا جانے سے پہلے/ آسمان کے کناروں/ اور زمین کی حدوں تک/ تمہاری راہ دیکھ سکتا ہوں/ اور اگر تم ایسا نہ چاہو/ تو پھر کیا کر سکتا ہوں میں/ تمہارے لئے۔
آج کا مقطع
میں آہ بھر کے جو خاموش ہو گیا ہوں‘ ظفرؔ
مری وضاحت اسی مختصر کے اندر ہے