روایت ہے کہ پتھروں کی بارش میں حسین بن منصور حلاج نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا ، مگر پھر شبلی نے پھول پھینکا؟ عجیب موسم ہے ، ہیجان کا موسم۔ زمین و آسمان گرد سے بھر گئے۔کچھ سنائی نہیں دیتا، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ع وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ پتھروں پہ پانی۔بارش کے موتی اگر کوہساروں پر برسیں تو ٹھہریںکہاں؟اس کے سوا کہ پہاڑ کے شکوہ و جلال میں، کچھ دیر کے لیے جمال سا گھلنے لگے ۔ بلندیوں پر قوس قزاح جاگے اوراس کا سحر دلوں اور آنکھوں میں خواب بوئے۔ وہ جو اس منفرد شاعر ظفر اقبال نے کہا تھا: کہیں پربتوں کی ترائیوں میں ردائے رنگ تنی ہوئی کہیں بادلوں کی بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا کوئی برس ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوہ مری اور اٹک سے لے کر میانوالی تک ، بارانی کھیتوں پر آسمان مسلسل مہربان رہتا ہے۔ گیہوں کی پیداوار نہری زمینوں کے برابر ہوجاتی ہے۔عموماً جو بارہ تیرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔پوٹھوہار کے دیہات میں سرشاری کے دن ۔ کوئی بھی کاشتکارمٹی سے لتھڑے پتھروں پر بیج نہ بوئے گا، مگر دانشور؟گیلپ کا سروے یہ فرماتا ہے کہ ناکردہ کارعمران خان کے ووٹ 7 فیصد اور صلاح الدین ایوبی کے لشکر،نون لیگ کے 54 فیصد ہیں۔اب اس ایک جھوٹ کو نباہنے کے لیے سو جھوٹ۔کیسے کیسے لوگ پھسل جاتے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے :چراغ اس لیے جلایا جاتا ہے کہ روشنی ہو۔احتیاج مگر شیروں کو روباہ کرتی ہے۔ صوفی نے کہا کہ تھا: شیطان ایک کاشتکار ہے جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔آدمی کو اس کی تمنائیں گمراہ کرتی ہیں اور تمنائوں کا غلبہ بربادہی کر ڈالتا ہے۔ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کو سوجھی کیا ہے؟کس کام میں وہ پڑ گئے؟شاعری پڑھا کریں، شاعری ۔ خاص طور پر اس زیاں کار عہد کے مصّور افتخار عارف کو۔ جاہ و جلال ، دَام و دِرَم ، اَور کتنی دیر؟ ریگِ رواں پہ نقش قَدَم ، اَور کتنی دیر؟ اَب اور کتنی دیر یہ وَحشت، یہ ڈر، یہ خوف؟ گرد و غبارِ عہدِ ستم، اور کتنی دیر؟ حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیاں یہ تمکنت یہ زعمِ کرم، اور کتنی دیر؟ پل بھر میں ہو رہے گا حساب نبود و بود پیچ و خمِ وجود و عدم، اور کتنی دیر؟ دَامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک ہو بھی گئے بہم، تو بہم، اَور کتنی دیر؟ شام آ گئی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر؟ کیسی اچھی ڈاکٹر کی شہرت تھی‘کیسا اچھا گیلپ کا نام تھا۔ کس کے لیے ڈبو دیا؟ کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل کل نہ پہچان سکے گی گلِ ترکی صورت اچھے وکیل وہ ہوتے ہیں‘ جو دیکھ بھال کر‘ چھان پھٹک کر مقدمہ قبول کریں۔ہمارا دوست خود لکھتا رہا کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے اور نہ آنکھ میں حیا۔ مفسرِ قرآن ابو الکلام آزاد کس پہ ریجھے تھے ۔ آسمان کو بیچنے والے چالاک اور کم رو کرم چند موہن داس گاندھی پر؟ آئیے ڈاکٹر خورشید رضوی کے اشعار ایک بار پھر دہرائیں۔ اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا اپنا چلتا ہوا بُت چھوڑ زمانے کے لیے اور خود عرصّہ ایام سے ہجرت کر جا دگر ہے‘ کاروبار سیاست دگرہے۔ سادہ اطوار لوگوں کا یہ کام نہیں۔ عیّاروں کی نگری ہے۔ کم از کم اس قدر اندوختہ تو چاہیے کہ فریب کار کو پہچان سکے۔ ذاتی اغراض سے بالاتر لوگ ہی اس رزم گاہ میں سرخرو رہ سکتے ہیںوگر نہ سب برباد۔‘ دلّی کے شاعر نے کہا تھا ؎ میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار سچائی اور یہ شریف لوگ؟ دانشورجس متاع کی تلاش میں ہیں‘ وہ یہاں نہیں پائی جاتی۔ فریبِ نفس ہے‘ فریبِ نفسں ۔ دارالحکومت میں روزنامہ دنیا کے وقائع نگاروں رئوف کلاسرہ اور اشرف میکن نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ کلاسرہ کا انکشاف تو اس قدر ہولناک ہے کہ ٹیلیویژن کے خبرنامے سے مسلسل نشر ہوتا۔ مذاکروں میں بحث ہوتی ۔ مگر ایسے بھی خوش خیال ہیں کہ شہباز شریف کے دعوے پر اعتبار کرلیتے ہیں ۔خواب فروشوں پہ بھروسہ کرنے والی قوم کا انجام معلوم ۔کہا: چھ ماہ میں بجلی کا بحران ختم‘ پھر کہا‘ سال بھر میں‘ کچھ دن بعد ارشاد ہوا دو سال میں‘ آخر کو وعدہ کیا: نہیں تین برس میں اور ابھی پچھلے دنوں چڑ کر یہ بولے۔ ’’میں کوئی جن ہوں کہ راتوں رات بندوست کرسکوں؟ ‘‘اعتراف انہوں نے کر لیا ہے ۔اب اشتہار چلانے والوں کو اس قول کا اضافہ بھی کر دینا چاہیے ’’میں کوئی جن ہوں؟…‘‘۔ رہی یہ فرمائش کہ نیا نام ان کے لیے تجویز کیا جائے ، تو لوگوں کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔جس کو اچھا سوجھے ، تین ہزار روپے اس کا انعام ہے ،اس ناچیز کی طرف سے ۔’’شیر شاہ سوری‘‘ نہیں ، وہ تو پہلے ہی لکھا جاچکا۔ ع تم کوئی اچھّا سا رکھ لو اپنے دیوانے کا نام آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کلاسرہ نے نقل کردی ہے۔’’صادق‘‘ اور ’’امین ‘‘شہبازشریف کا کہنا یہ تھا کہ سستی روٹی سکیم پر صرف آٹھ ارب خرچ ہوئے۔سرکاری دستاویز میں لکھا ہے :صرف ایک مالی سال 2009-2010ء میں آٹے کے کارخانوں کو تیس ارب کی ادائیگی ہوئی۔لاہور سے نون لیگ کے ایک ممتاز لیڈر نے مجھے بتایا تھا کہ شیخوپورہ میں شریف خاندان کا سابق وزیر ایک تہائی ٹرک ہی بھجوایا کرتا ، باقی غبن۔دونوں کے نام لکھ دوں ؟ ستم بالائے ستم پنجاب حکومت نے بینکوں سے 25 ارب کا قرضہ لیا ۔ وہ بھی15.6 فیصد شرح سود پر۔دو برس میں اگر ادا کیا تو کتنا سود؟چار ارب جرمانہ اس کے سواکہ بروقت نہ چکائے ۔ادائیگی کا وقت آنے پر وزارت خوراک کے افسر خزانہ کی عمارت میں روتے رہے۔یہ صرف ایک سال کا حساب ہے۔ چارکلرکوں اور ایک چھوٹے سے دفتر والی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ہے کہاں ؟ دانش سکولوں کا قصہ بھی یہی ہے، شعبدہ بازی۔ان جملوں پر غور کیجیے ’’آڈیٹر جنرل نے محکمہ خوراک سے رابطہ کیا کہ سنگین بے ضابطگی پر اجلاس بلایاجائے ۔وہ انتظار ہی کرتے رہ گئے‘‘۔ایک سال میں پسندیدہ فلور ملوں کو تیس ارب کی ادائیگی ، کسی چینل پر چیخ پکار تو کیا ، کسی اخبار میں دو سطری خبر تک چھپ نہ سکی۔ یہ آزاد میڈیا ۔یہ ہے لاہور کی صحافت۔ ہمارے دوست کو شکایت ہے کہ عمران خان منہ پھٹ ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ شریف لوگ بہت مہذب ہیں۔کیا کہنے ، کیا کہنے ۔ بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزید بلبل را نواگران نہ خوردہ گزند راچہ خبر عمران خان کی اہلیہ پر جھوٹا مقدمہ انہوں نے بنایا تھا۔سال بھر بچے باپ سے ملنے نہ آسکے۔تحریک انصاف کے پوسٹر پھاڑ دیئے جاتے ، بینر اتار دیے جاتے۔کردار کشی کے لیے بھاڑے کے ٹٹوئوں کی سپاہ تشکیل دی گئی ۔ایک سے سفارت ، ایک سے سینیٹر کے منصب کا وعدہ ۔ تہذیبِ نفس یہی ہے ؟ یہی ہے تہذیب نفس ؟ خوف خدا ئے پاک دلوں سے نکل گیا آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی میاں نوازشریف کی آرزو پوری کرنے کے لیے ساڑھے آٹھ ارب روپے پیلی ٹیکسی سکیم پر ضائع کردیئے گئے۔لرز ا دینے والا انکشاف یہ ہے کہ اس رقم کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔ادائیگی کی قسطوں تک حساب بھی نہیں۔بلند تر قیمت پر سوزوکی گاڑیاں خریدی گئیں۔قرض کی واپسی کا مگر طریق کار ہی مرتب نہ کیاگیا۔افسوس ، افسوس ! ع دیرینہ ہے تیرا مرضِ کور نگاہی شاعر شعیب بن عزیز ڈسپنسری تعمیر نہ ہونے کا ذمہ دار کیسے ہوگیا؟اس کا کیا تعلق۔آدمی کوشش ہی کرسکتا ہے ، نتیجہ کس کے ہاتھ میں ہوتاہے ؟ خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو روایت ہے کہ پتھروں کی بارش میں حسین بن منصور حلاج نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا ، مگر پھر شبلی نے پھول پھینکا؟ عجیب موسم ہے ، ہیجان کا موسم۔ زمین و آسمان گرد سے بھر گئے۔کچھ سنائی نہیں دیتا، کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ع وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved