تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     31-05-2019

ویڈیو

انتہائی چھوٹے کیمرے ایجاد ہونے کے بعد دنیا بھر میں مشہور شخصیات کی خفیہ ویڈیوز منظرِ عام پر آنا شروع ہوئیں ۔ دوسری طرف پہلے تو موبائل فون ٹیکنالوجی سستی ہوتی چلی گئی‘ پھر یہ چھوٹے کیمرے ان موبائل فونز میں نصب کر دیے گئے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص چلتا پھرتا رپورٹر بن گیا ۔ جب کسی مشہور شخص کی کوئی ایسی ویڈیو سامنے آتی ہے ‘ جس میں وہ کسی گناہ کا ارتکاب کررہا ہوتاہے‘ تو ہر طرف سے لعن طعن شروع ہو جاتی ہے ۔ اس طرح کے سکینڈلز کا سب سے خوفناک پہلو وہ ہے ‘ جس کی طرف کسی نے غور ہی نہیں کیا ۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو شخص بھی اس پہ غور کرے گا‘ اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے‘ لیکن اس سے پہلے ایک نہایت ضروری بات۔سوشل میڈیا کی زندگی نے ایک مصنوعی خوش اخلاقی ‘بلکہ ریاکاری کو جنم دیا ہے ۔ لوگ ویسے نظر آتے ہیں ‘ جیسا کہ حقیقی زندگی میں وہ نہیں ہیں۔انسان کے اصل اخلاق کا اندازہ تب ہوتاہے ‘ جب وہ اپنے اہلِ خانہ اور اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتاہے ۔اس کے علاوہ جب وہ بالکل تنہا ہوتاہے ۔جب اسے یقین ہوتاہے کہ کوئی بھی اسے دیکھ نہیں رہا ۔ جب آپ ایک بے حیثیت مفلس یا غریب رشتے دار کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں ۔جب آپ اس شخص سے بات کرتے ہیں ‘ جس نے آپ کا قرض لوٹانا ہے ۔جب آپ اس شخص سے بات کرتے ہیں ‘ جو آپ کے رحم و کرم پر ہے ۔ اس کے علاوہ آپ کے لیپ ٹاپ اور موبائل کا ڈیٹا آپ کی اخلاقی حالت کا آئینہ ہوتاہے؛ اگر تو ان سب چیزوں کے دنیا کے سامنے آجانے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو آپ کو بہت بہت مبارک ہو ۔ آپ ایک فرشتہ صفت انسان ہیں‘ لیکن اگر آپ ان فرشتوں میں شامل نہیں ہیں اور اس کے باوجود آپ سکینڈل میں سامنے آنے والے مشہور شخص کو پتھر مارنا چاہتے ہیں ‘تو پھر آپ بہت اعلیٰ درجے کے منافق ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشہور شخصیت پکڑی گئی‘ جب کہ آپ ابھی تک بچے ہوئے ہیں ۔ 
ایک دفعہ میرے ایک دوست نے گناہ پر مائل ہونے والوں پرایک انوکھی ریسرچ کی تھی اور اس نے اس کا ڈیٹا مجھ سے شیئر کیا تھا۔ اس کے مطابق؛ مردوں کی اکثریت دعوتِ گناہ ملنے کے بعد پھسلنے میں چند سیکنڈ بھی دیر نہیں کرتی ۔ ان مردوں میں ہر قسم کی نوکری اور عہدے والے لوگ شامل تھے‘جبکہ خواتین میں یہ شرح بہت کم تھی ‘ اس کی وجوہ چاہے کچھ بھی ہوں ۔آپ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ ایک شخص اگر گناہ کر رہا ہے اور دوسرااس کے ساتھ شریکِ گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ ویڈیو بھی بنا رہا ہے‘ تا کہ بعد میں اسے بلیک میل کر سکے تو پھر گناہ کرنے والے نے ایک جرم کیا اور ویڈیو بنانے والے نے دو ۔ 
دنیا میں بہت سی چیزیں انتہائی حیرت انگیز ہیں‘ لیکن روزانہ کی بنیاد پر بار بار وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے ہمیں اتنی عام لگتی ہیں کہ دماغ ان کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتاہے ۔ جیسا کہ رحمِ ماد ر میں بچّے کے اعضا کی تخلیق۔ اسی طرح اگر آپ گہرائی میں سوچیں تو یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ایک انسان تنہائی میں پیش آنے والا ایک واقعہ ریکارڈ کر کے ان سب کو دکھا دے ‘ جو اس وقت وہاں موجود نہیں تھے ۔ آج بچّہ بچّہ کیمرے والا موبائل استعمال کررہا ہے ‘ اس لیے آج کے انسان کو یہ بات بالکل عام لگتی ہے ۔ 
جب ایک خفیہ ویڈیو میں دو لوگ گناہ کرتے نظر آتے ہیں‘ توان دونوں کے سوا تیسرا وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود ان میں سے ایک چالاکی سے یہ منظر ریکارڈ کر کے دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے ۔ آپ اس ریکارڈنگ کو جتنی دفعہ چاہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ روک سکتے ہیں ‘ ریورس کر سکتے ہیں ‘پھر دوبارہ دیکھ سکتے ہیں ۔اس شخص جو سامنے بٹھا کر اس کے کرتوت دکھا سکتے ہیں ۔ اسے شرمندہ کر سکتے ہیں ۔ 
میرے استاد نے ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ ہم دنیا میں جس ٹیکنالوجی کی ابتدائی شکلوں کو استعمال کرتے ہیں ‘ خدا اسی ٹیکنالوجی کی مکمل اور آخری (final)شکل کو استعمال کرتاہے ۔ آپ کبھی اپنے دماغ سے نکل کر ریڑھ کی ہڈی میں سے گزرنے والی Nerves کا جائزہ لیں ‘ جن کے اندر سے کرنٹ اسی طرح گزرتاہے ‘ جس طرح انسان کی بنائی ہوئی بجلی کی تاروں میں سے گزرتا ہے ۔ آپ سورج کے اندر ہونے والے ایٹمی دھماکوں کو دیکھیے ۔ آپ اپنے جسم کے ایک زندہ خلیے کا جائزہ لیں ۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ خدا کس قسم کی ٹیکنالوجی استعمال کرتاہے ۔ 
آج انسان اس قابل ہو چکا کہ زمین سے سلیکان ڈائی آکسائیڈ نکال کر اس کا مائیکرو پروسیسر بنا کر اس سے تصویریں اور ویڈیوز بنا سکے۔ اور یہ واقعات زمین کے اندر سے نکلنے والی کاپر کی تاروں میں برق رفتاری سے سفر کر کے کرہ ٔ ارض کے ہر کونے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ذات نے زمین کے اندر سلیکان ڈائی آکسائیڈ اور کاپر بنا کر رکھیں ‘ وہ ہماری کس قسم کی ویڈیوز بنا رہی ہوگی ۔
آپ اپنی آنکھ کا ہی جائزہ لے لیں۔ آنکھ سے دماغ تک ڈالی گئی تاروں (Nerves)کا جائزہ لیں ‘ آپ کو سب سمجھ آجائے گا ۔ 
اس ذات نے اس قسم کے عناصر زمین کے اندر رکھے‘ جس کی مدد سے آج ہم دنیا کے دوسرے کونے میں رہنے والے افراد کی ویڈیوز liveدیکھ سکتے ہیں ۔تو کیا وہ ہمیں liveنہیں دیکھ رہا ہوگا ؟ میرے حساب سے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہماری ہر حرکت کئی زاویوں سے فلمائی جا رہی ہے ۔ہماری حالت اس کھلاڑی جیسی ہے ‘ جو کرکٹ سٹیڈیم میں روشنیوں اور کیمروں کے انبار میں کھڑے ہو کر گیند چبانے کی کوشش کرتا ہے اور امید رکھتاہے کہ وہ دیکھا نہیں جائے گا۔ 
خدا کا انکار کر نے والے ہمیشہ سے ایک بات کرتے آئے تھے کہ بھلا جب ہم مر جائیں گے اور ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ جائیں گی تو بھلا ہمیں دوبارہ بنایا جائے گا ؟سورۃ القیامہ میں خدا کہتا ہے کہ یہ ہڈیوں کی بات کرتے ہیں ‘ ہم تو اس بات پر قادر ہیں کہ اس کے فنگر پرنٹس دوبارہ پیدا کر دیں ۔
لیکن انسان سلیکان اور کاپر سے بنے ہوئے برقی آلات بنا کرغرور سے پھول چکا ہے ۔ اس کا خیال یہ ہے کہ خدا‘ اگر وجود رکھتا ہے تو بھی وہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں انسان کا ہم پلّہ نہیں ہو سکتا۔مذہبی افراد خود سائنس سے ڈرتے ہیں ۔ 
آج یہ بات بالکل واضح ہے کہ دنیا میں پیش آنے والا ہر واقعہ اپنا نشان چھوڑ دیتاہے ۔ آج انسان بگ بینگ ‘ڈائنا سارز اور عالمگیر ہلاکت خیز ادوار (Mass Extinctions)سمیت ماضی میں ہونے والے تمام بڑے واقعات سے آگاہ ہو چکا ہے ۔زندگی کا پانی میں پیدا ہونا ‘ پھر خشکی پہ قدم رکھنا ‘نی اینڈرتھل مین سمیت ہر چیز ریکارڈ میں موجود ہے ۔ انسان جب چاہے اس کا مطالعہ کر سکتاہے ۔ اسی طرح انسان بھی under observationہے ۔ اس کے منہ سے نکلنے والی ہر آواز اور اس کے ہاتھ سے سرزد ہونے والے ہر واقعے کی ویڈیو بن رہی ہے ۔ یہ ویڈیو حشر کے میدان میں چلائی جائے گی ۔مشہور شخصیات کی خفیہ ویڈیوز سے لطف اندوز ضرور ہوں لیکن ایک ایک ویڈیو ہر بندے کی بن رہی ہے ۔ ایک دن اسے مجمع ء عام میں دکھایا جائے گا۔ پھر ہمارا کیا بنے گا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved