تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-06-2019

اس وقت کہاں تھے؟

یہ کیوں پوچھا جا رہا ہے کہ '' اس وقت‘‘ ہم کہاں تھے جب فاٹا‘ کے پی کے میں بھارت اور افغانستان کے خریدے ہوئے ٹی ٹی پی کے لوگ ہر گلی بازار‘ سڑک اور بس ویگن میں بم دھماکے کرتے ہوئے پشتونوں کو قتل کر رہے تھے؟ اس وقت کہاں تھے جب چمن میں پشتونوں کی دکانوں اور گوداموں کو بی ایل اے کے لوگ آگ لگا نے کے لیے آتے تھے؟ جب کوئٹہ ‘ مستونگ‘ زیا رت‘ لورا لائی اورچما رلنگ کی کوئلے کی کانوں میں سوات سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کو گھات لگا کر قتل کیا جا رہا تھا ۔ اس وقت منظورپشتین‘ علی وزیر اور محسن داوڑ نے احتجاج کیوں نہ کیا جب28 مئی2015 ء کو کوئٹہ سے کراچی جانے والی بس کو مستونگ کے قریب روک کر بی ایل اے والے پختون مزدوروں کو چن چن کر اتارتے اور قتل کر دیتے؟ اس وقت کیوں خاموش رہے جب ان بسوں میں سوار 19 پختون مسافروں کو بھارتی را اور افغانستان کے سدھائے ہوئے دہشت گردوں نے شہید کیا؟ اس وقت علی وزیر اور اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے بھوک ہڑتال کیوں نہ کی ؟
ایک سابق بس ڈرائیور ‘ جو آج منظور پشتین کا کمانڈر بن کر ملٹری چیک پوسٹ پر حملے کر رہا ہے‘ اسے اس وقت اشتعال کیوں نہ آیا جب اس کے گروہ کے ایک نوجوان نے آرمی کے کانوائے پر فائرنگ کی تھی؟ ایک معروف بس سروس کے اس مفرور ڈرائیور نے کیا اپنے اس نوعمر ساتھی سے پوچھا تھا کہ اس نے یہ فائرنگ کیوں کی ‘ جس سے سکیورٹی فورسز کے جوان زخمی ہوئے ؟ 26 مئی کو اس وقت تو اس نو عمر ساتھی کا درد جاگ اٹھا جب اسے گرفتار کیا گیا لیکن یہ درد یہ اطلاع ملنے پر کیوں نہ جاگا جب اس نے پانچ روز قبل فوج کے جوانوں پر فائرنگ کی تھی اور اس فائرنگ کی فوٹیج انتظامیہ کے پاس محفوظ ہے؟ مستونگ میں بسوں سے اتار کر شہید کئے گئے اپنے ان پختون بھائیوں کے اس بہیمانہ قتل پر افغانستان کی خفیہ ایجنسی اور وہاں موجود بھارتی را کے افسران اور ایجنٹوں سے علی وزیر اور محسن داوڑ دست و گریبان کیوں نہ ہوئے؟یہ سوال بھی ہم سب کو کچھ عجیب سا لگ رہا ہے کہ آپ بلوچستان میں بے دردی سے قتل کئے جانے والے ان19 پختون گھرانوں میں اظہار افسوس اور ان کا غم بانٹنے کے لیے کیوں نہیں گئے؟آپ ان انیس افراد کے یتیم کئے جانے والے ننھے منے بچے بچیوں کے سر وںپر شفقت کا ہاتھ رکھنے کے لیے کیوں نہ جا سکے؟ ان 19 شہید کئے گئے جوانوں کے بوڑھے والدین کے گلے لگ کر ان کو دلاسے کیوں نہ دیئے؟ جس طرح معصوم فرشتہ کے باپ کے پاس پہنچ گئے؟
آپ سے تو یہ پوچھنا بھی کچھ مناسب لگ رہا ہے کہ آپ کی ایک خاتون ساتھی ننھی فرشتہ کی المناک موت پر اسلام آباد میں تقریریں کر رہی تھی مگر اس وقت جب خیر سے وہ زندہ سلامت تھی تو اس نے انسانی حقوق کے لیے دھرنا کیوں نہیں دیا؟ اس نے ان بیوہ ہونے والی پختون بیٹیوں کے گلے لگ کر ان کا دکھ درد کیوں نہیں بانٹا؟ آج ننھی فرشتہ کی سنگدل قاتل کے ہاتھوںموت پر اسلام آباد میں جو وہ ٹسوے بہا رہی ہے‘ اس نے مستونگ میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کئے گئے ان19 پختونوں کی مائوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر ماتم کیوں نہ کیا؟اس نے بی ایل اے اور براہمداغ بگٹی کو پناہ دینے والے امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی یونین والوں سے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ اسلام آباد پریس کلب اور ڈی چوک میں ڈیرے کیوں نہیں لگائے؟
یہ سوال پوچھتے ہیں تو منظور پشتین ‘ علی وزیراورمحسن داوڑ غصے سے بھری ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتے ہیں : ہم سے کیوں پوچھ رہے ہو کہ تیس چالیس برسوں سے کوئٹہ کی سریاب روڈ اور اس سے ملحقہ آبادیوںکے ارد گرد اپنے گھر ‘ دکانیں کاروبار بنائے ہوئے پشتونوں کو 2011ء میں جب ایک ایک کرکے قتل کیا جانے لگا‘ ان کے گھر اور دکانیں جلائی جانے لگیں اور یہ پشتون اپنا سب کچھ اونے پونے داموں بیچ کر افر اتفری میں اپنے خاندانوں سمیت کوئٹہ کی دوسری آبادیوں میں پناہ لینے کے لیے آرہے تھے ‘اس وقت ہم لوگ کہاں تھے؟ ہم یہ سب خاموشی سے کیوں دیکھتے رہے؟ علی وزیر گرجتے ہوئے بولتا ہے کہ یہ کیسا سوال ہے کہ اپنی برسوں کی محنت کی کمائی کوڑیوں میں بیچ کر سریاب روڈ سے بھاگنے والے ان پشتونوں کے پاس ہم کیوں نہیں گئے؟ان کے لیے ہم نے کوئٹہ پریس کلب یا سریاب روڈ پر دھرنا کیوں نہیں دیا؟اس وقت گلالئی کو ان پشتون مائوں اور بیٹیوں کا درد کیوں نہیں جاگا؟ اس وقت ہم نے ان دہشت گردوں کو پناہ دینے والے قندھار کے بھارتی قونصل خانے پر دھاوا کیوں نہیں بولا؟اس وقت ہم نے ہیومن رائٹس اور اقوام متحدہ کے مہاجرین کے کمیشن کو ان پشتونوں کی حالت زار کے متعلق کیوں نہیں بتایا؟ اپنی جانب اٹھتی ہوئی سوالیہ نگاہوں کو دیکھتے ہوئے پشتین نے سر جھکاتے ہوئے کمزور سی آواز میں کہا: لگتا ہے کہ آپ تو لٹھ لے کر ہمارے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں؟
منظور پشتین‘ علی وزیر اور محسن داوڑ کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے قسم قسم کی من گھڑت کہانیاں اور ویڈیوز لوڈ کرنے والوں سے بھی درخواست ہے کہ اپنے ان لیڈروں سے کبھی پوچھیں گے کہ اس وقت یہ خاموش کیوں رہتے تھے؟ اس وقت ان کے سینوں میںقتل اور گھروں سے بیدخل کئے جانے والے پشتون بھائیوں کے لیے درد کیوں نہ جاگ سکا؟ اس وقت ہیومن رائٹس اور مسنگ پرسنز کے نام سے غیر ملکی ڈرامے رچانے والی چند خواتین سمیت لبرل اور ترقی پسند‘ جو لگائے ہی اس مشن پر گئے ہیں کہ اپنی میٹھی میٹھی زبان سے ہلکی ہلکی چٹکیوں سے لوگوں کے ذہنوں میںسکیورٹی فورسز سے نفرت بھر دی جائے‘ نے خود کو پشتونوں کے ہمدرد اور اور لیڈر کہنے والوں سے کیوں نہیں پوچھا کہ امان اﷲ لونی کے قتل پر کوئٹہ اور اسلام آباد میں آپ نے کھل کر احتجاج کیا آپ نے چیخ چیخ کر بین الا قوامی ہیومن رائٹس کو مداخلت کی اپیلیں کیں اور امان اﷲ لونی کے پر اسرار قتل پر سکیورٹی اداروں کو ملوث کیا ...لیکن اپنے پشتون بھائیوں کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ علی وزیر کے ساتھ امان اﷲ لونی کے گذشتہ تین ماہ میں کتنے جھگڑے ہوئے؟ان جھگڑوں کی وجہ کیا تھی؟ ان جھگڑوں اور ہاتھا پائی میں منظور پشتین کس کے ساتھ کھڑا تھا اور کیوں کھڑا تھا؟ کیا امان اﷲ لونی کا علی وزیر سے ہونے ولا یہ بار بار کا جھگڑا ان15 لاکھ ڈالرز کے متعلق تھا جو علی وزیر نے نہیں بلکہ امان ا ﷲ لونی نے بلوچستان میں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرنے تھے؟جب امان اﷲ لونی نے منظور پشتین کویاد دلایا کہ طے کئے گئے فیصلوں کے مطا بق آپ صرف کراچی‘ فاٹا اور کے پی کے میں رقوم تقسیم کریں گے اور کوئٹہ کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی تو پھر کسی ایسے شخص کو جو فراڈ اور دھوکہ کرنے پر مفرور ہوا تھا‘ اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مجھ سے پوچھ سکے کہ پندرہ لاکھ ڈالر کہاں خرچ کئے ہیں؟منظور پشتین اور محسن داوڑ ''اس وقت‘‘ کہاں تھے جب پندرہ لاکھ ڈالر پر امان اﷲ لونی کوایس پی طاہر خان داوڑ کا انجام یاد کرایا گیا ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved