تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-06-2019

یہ سب ہوگا کیسے؟

ایک طرف موسم گرم تر ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف مہنگائی کا درجۂ حرارت بھی بلند سے بلند تر ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب ہے۔ عام آدمی کے لیے مسائل محض بڑھ نہیں رہے‘ پیچیدہ تر بھی ہوتے جارہے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن معاملات کو مزید الجھا رہا ہے۔ ڈالر نے روپے پر جو قیامت ڈھائی ہے اس کے نتیجے میں معیشت کے لیے خرابیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری بہت حد تک خطرے میں پڑگئی ہے۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد کا متزلزل ہونا لازم ہے۔ وہ اسی وقت سرمایہ لگا سکتے ہیں جب معیشت مجموعی طور پر مستحکم ہو اور پیسہ ڈوبنے کاخطرہ نہ ہو۔ 
آئی ایم ایف سے ڈیل کے نتیجے میں جو کچھ ہوسکتا ہے اُس کے حوالے سے سوچ سوچ کر قوم پریشان تھی اور اب اندازہ ہو رہا ہے کہ قوم کا پریشان ہونا کچھ ایسا حیرت انگیز بھی نہ تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا اب تک تجربہ کچھ ایسا ہی رہا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود خرابیوں کو نہ صرف یہ کہ دور نہیں کیا جاسکا بلکہ وہ بڑھتی ہی گئی ہیں۔ ایسے میں یہ کیونکر سوچا جاسکتا ہے کہ اب وہ سب کچھ نہیں ہوگا جو اب تک ہوتا آیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے جس ادارے کے قیام کا مقصد ہی پس ماندہ اور ابھرتے ہوئے ممالک کی واٹ لگانا ہو اُس سے کسی بھی بہتری کی توقع کیونکر رکھی جائے۔ آئی ایم ایف کی فرمائش پر بجلی کے نرخ بڑھائے جارہے ہیں اور ٹیکس کے نظام میں بھی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں تاکہ کچلے ہوؤں کو مزید کچلا جاسکے۔ عوام کے کس بل پہلے ہی نکالے جاچکے ہیں۔ اب پتا نہیں کس امید پر اُن کے سَر پر مزید بوجھ لادا جارہا ہے؟ 
حکومت کے لیے بیلنسنگ ایکٹ کی منزل آگئی ہے۔ اسے اب لڑکھڑانے سے بھی بچنا ہے۔ گرنے کی تو خیر گنجائش ہی نہیں۔ کسی بھی قدم پر معمولی سی لغزش بھی ایسی خرابی پیدا کرے گی کہ معاملات پھر درست ہونے کا نام نہ لیں گے۔ عمران خان نے قوم سے جو وعدے کیے تھے وہ سب کے سب تو پورے نہیں کیے جاسکتے۔ ایسا کرنے کی گنجائش ہی نہیں مگر ہاں‘ چند ایک معمولی نوعیت کے وعدے ضرور پورے کیے جاسکتے ہیں۔ پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر والا معاملہ آگے چل کر کیا رنگ اور رخ اختیار کرے گا اس کے بارے میں ہم کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں مگر ہاں نئی نسل کو بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے عمران خان نے جو کچھ سوچا ہے اُس پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ قدرے آسان مرحلہ ہے۔ آئندہ ماہ سے ہر ماہ پچاس ہزار نوجوانوں کو چھوٹے اور آسان قرضے دینے کا پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔ اچھی بات ہے مگر یہ سب ہوگا کیسے؟بجٹ خسارہ خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ وفاقی بجٹ کی آمد آمد ہے۔ عیدالفطر کے فوراًیعنی 11 جون کو وفاقی بجٹ پیش کیا جانا ہے۔ یہ بجٹ عمران خان کے لیے حقیقی آزمائش کا درجہ رکھتا ہے۔ نو دس ماہ کے دوران چھوٹے پیمانے پر کئی ''بجٹ‘‘ پیش کیے جاچکے ہیں۔ اب مکمل بجٹ پیش کرتے وقت یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کی گنجائش ہے بھی یا نہیں؟ تبدیلی کے نعرے کی لہر پر سوار ہوکر آنے والی حکومت نے اب تک ایسا کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا جسے دیکھ کر عوام کو یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ کسی قابلِ قدر اور قابلِ ستائش منزل تک پہنچنے کی صلاحیت اور سکت رکھتی ہے۔ محض اعلان کردینے سے کوئی کام ہو نہیں جاتا۔ اعلانات کی صورت میں عوام امیدیں وابستہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک مرحلہ ہوتا ہے۔ جب عوام کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
اگر وفاقی بجٹ میں عوام کی جیب مزید خالی کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت کے لیے خرابیاں بڑھ جائیں گی۔ عوام کے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا اب بہت دشوار ہے۔ بنیادی سہولتوں تک سے محرومی اور ان کے حصول کے لیے خطیر رقم خرچ کرنا عوام کے لیے پہلے ہی سوہانِ روح ہے۔ اگر بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کو مزید مہنگا کیا گیا تو باقی سب کچھ بھی مہنگا ہوجائے گا اور عوام کی رہی سہی قوتِ خرید بھی دم توڑ بیٹھے گی۔ یہ سب کچھ حکومت کے لیے پوائنٹ آف نو ریٹرن والا معاملہ ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک بھر کے انتہائی مالدار طبقے سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات کا اجلاس بلاکر انہیں قوم کے لیے کچھ کرنے کی تحریک دی جائے۔ امریکہ میں اس کی ایک واضح مثال موجود ہے۔ نیو یارک میں کروڑ پتی افراد نے ایک کلب بنایا ہے جس کے ذریعے اس بات کی تحریک دی جارہی ہے کہ قوم کی خاطر انتہائی مالدار افراد قربانی دیں‘ زیادہ ٹیکس دیں تاکہ قومی معیشت مستحکم تر ہو اور معاملات کو ملک کے حق میں رکھنا ممکن ہوسکے۔ یہ محبِ وطن امریکی اپنی آمدن کا 70 فیصد تک ٹیکس کی مد میں دینے کو تیار ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ دولت چند گھرانوں‘ گروپس یا افراد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ارتکازِ دولت ختم کرنے کے لیے انتہائی مالدار طبقے پر غیر معمولی شرح سے ٹیکس عائد کرنا لازم ٹھہرا تاکہ معیشت کی رگوں میں نیا خون تو دوڑے۔ 
حکومت جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہ محض سوچنے سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عمل کی سطح پر سخت تر فیصلے لازم ہیں۔ عمران خان کہتے رہے ہیں کہ عوام کو کڑوے گھونٹ پینا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ صرف عوام کیوں کڑوے گھونٹ پئیں؟ جن میں کڑوے گھونٹ برداشت کرنے کی سکت ہے انہیں آزمائش میں ڈالا جائے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ہر تان عوام پر آکر کیوں ٹوٹتی ہے؟ اب کیا ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے گا؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ انتہائی مالدار طبقے کی سرکردہ شخصیات کو معیشت کی بحالی کے حوالے سے اپنی قومی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے حکومت یعنی قومی خزانے کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ جہاں سے کمایا ہو وہاں خرچ کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ کل کو وہ پھر کمالیں گے۔ یہ سب کچھ خوش فہمی پر مبنی معلوم ہوتا ہے مگر رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے آواز بلند کرنا چاہیے۔ صرف عوام کی جیبیں خالی کرانا کسی بھی اعتبار سے مستحسن نہیں۔ زیادہ ٹیکس اُن سے وصول کیا جانا چاہیے جو ٹیکس ادا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں انہی سے برائے نام ٹیکس لیا جارہا ہے۔ کاروباری ادارے بھی ٹیکس کے معاملات میں ڈنڈی‘ بلکہ ڈنڈیاں مار رہے ہیں۔ 
عمران خان تبدیلی کے حوالے سے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ آسانی سے ہونے والا نہیں۔ انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ اُن میں کچھ کر دکھانے کا حقیقی عزم پایا جاتا ہے۔ یہ حقیقی عزم اسی صورت سامنے آئے گا جب وہ صرف غریبوں کا خون چوسنے والے سسٹم میں کچھ تبدیلی لاکر ان سے وصولی شروع کریں گے جو کچھ دینے کی سکت رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوگا؟ سیدھی سی بات ہے‘ آسانی سے تو نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عمران خان کو چند ایک سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ مالدار طبقے پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ لادنے کی صورت میں حکومت کو عوام کی بھرپور حمایت و ہمدردی حاصل ہوگی۔ عوام کو ریلیف درکار ہے‘ ٹیکسوں کا مزید بوجھ نہیں۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخ مزید بڑھانے سے حکومت کے لیے فضا مزید مکدّر ہوگی۔ اپوزیشن صورتِ حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اُسے ایسا کرنے سے روکنا بھی حکومت کے لیے ایک حقیقی آزمائش ہے۔ ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved