بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی نے آٹھ ہزار مہمانوں کی موجودگی میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ پاکستان کے سوا تمام سارک ممالک کے سربراہانِ مملکت یا حکومت اِس موقع پر موجود تھے۔ پانچ سال پہلے جب وہ پہلی مرتبہ اِس منصب پر فائز ہوئے تھے، تو وزیر اعظم نواز شریف کو تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی تھی، اور مبینہ انتہا پسند حکومت سے پاکستان کا رابطہ پہلے روز ہی قائم ہو گیا تھا۔ مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی دونوں وزرائے اعظم تبادلۂٔ خیال کرتے رہے، یہاں تک کہ افغانستان سے وطن واپس جاتے ہوئے مودی جی نے اچانک پاکستان میں رکنے کی خواہش ظاہر کر دی۔ وہ لاہور پہنچے تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ گورنر ہائوس کے بجائے جاتی امرا لے جایا گیا، جہاں پُر جوش ملاقات ہوئی، چند گھنٹوں بعد وہ ہنستے مسکراتے رخصت ہو گئے۔ اس سے امید بندھی کہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مودی جی، واجپائی کے نقشِ قدم پر چلیں گے، اور دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے دروازے چوپٹ کھلے رہیں گے... لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان کی داخلی سیاست نے خارجی محاذ بھی آلودہ کر دیا۔ نواز شریف کو کٹہرے میں کھڑا کر لیا گیا، اور 'مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘ کے نعرے لگوائے جانے لگے۔ تحریک انصاف کے بد مست جوانوں کے ساتھ عزیزم بلاول بھٹو زرداری بھی پوری شدت سے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے پائے گئے۔ ایسے حادثات پیش آتے چلے گئے کہ دونوں وزرائے اعظم کے ہاتھ اپنی اپنی جگہ ٹھہر گئے، کسی ایک میں بھی آگے بڑھ کر دوسرے کو تھامنے کا یارا نہ رہا... وہ دن جائیں اور آج کے آئیں پاکستان اور بھارت کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم واجپائی جب دوستی بس پر بیٹھ کر بنفسِ نفیس لاہور آئے تھے تو یہاں کے گورنر ہائوس میں (شاید) میڈیا اجتماع سے اپنے دورے کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور اور دہلی کی دوری کچھ دور ہو گئی۔ کوئی شخص اس کی تردید نہیں کر سکتا تھا۔ شاہی قلعے میں ان کے اعزاز میں سرکاری ضیافت کا اہتمام تھا، لیکن راستے میں اتنے کانٹے بکھیرے گئے، مخالفانہ نعرے باز اس طرح اکٹھے کئے گئے کہ وہ راستہ بدل کر ہی منزل پر پہنچ پائے۔ دونوں وزرائے اعظم آگے بڑھنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے، مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں سر فہرست تھا۔ واجپائی یہاں تک کہہ گزرے کہ وہ اس مسئلے کا حل ''انسانی دستور‘‘ کے دائرے میں تلاش کریں گے۔ پہلی بار کسی بھارتی وزیر اعظم نے بھارتی دستور کے دائرے میں خود کو قید کرنے سے اجتناب کیا تھا، لیکن پھر کارگل کی واردات پیش آئی، اور خواب بکھر گئے۔ جنرل پرویز مشرف‘ جنہیں بھارتی وزیر اعظم کو سلیوٹ کرنا حب الوطنی کے تقاضوں کے منافی نظر آ رہا تھا، اور لاہور میں جنہوں نے اپنے گستاخانہ رویے پر داد سمیٹنے کی میڈیائی کوششیں کی تھیں، جب خود اقتدار میں پہنچے تو پھر انہیں مذاکرات کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہوا۔ بساط پھر بچھائی گئی، آگرہ پہنچے، لیکن معاملہ بنتے بنتے بگڑ گیا۔ کچھائو کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا۔ کٹھمنڈو میں سارک کانفرنس کے موقع پر صدر پرویز مشرف نے اپنی تقریر ختم کر کے واجپائی کی طرف مارچ کیا، اور اپنا ہاتھ ان کی خدمت میں یوں پیش کیا جیسے کورنش بجا لا رہے ہوں۔ اس مصافحے کی بہت داد سمیٹی گئی، گاڑی چلی، لیکن کہیں پہنچ نہ پائی۔
آج وزیر اعظم عمران خان وہاں کھڑے ہیں، جہاں پاکستان کو کارگل کے بعد کھڑا کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے بھارتی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ منتخب ہوئے تو انہیں آگے بڑھ کر مبارک باد دی۔ ٹیلی فون پر بات کرنے کی (ناکام) کوشش بھی کی۔ مودی جواباً تکلف برتتے رہے، لیکن ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بھارتی انتخابات مکمل ہوئے تو پاکستان میں بحث چھڑ گئی کہ وزیر اعظم عمران خان تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے نئی دہلی جائیں یا نہ جائیں۔ کئی مبصر اور دانشور انہیں مفت مشورے دینے لگے، لیکن مودی جی مہا راج نے اس آزمائش سے یوں بچا لیا کہ عمران خان کو مدعو کرنے ہی سے انکاری ہو گئے۔ اس بد تمیزی کی تعریف نہیں کی جا سکتی... لیکن اس سے یہ تو ظاہر ہو سکتا ہے کہ سفارتی معاملات ہماری خواہشات کے پابند نہیں ہیں کہ جب اور جس وقت چاہیں، پسندیدہ منظر دیکھ لیں۔ بھارتی وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو بھی اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی طاقت اور صلاحیت ان میں ہوتی، اور وہ یک طرفہ فیصلے مسلط کرنے کا حق (یا اختیار) رکھتے تو آج کوئی مسئلہ ہی موجود نہ ہوتا۔ یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ کشمیر کو دُنیا کا کوئی ایک ملک بھی بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دینے پر تیار نہیں ہے۔ کوئی ایک بھی ملک اسے طے شدہ حقیقت نہیں سمجھتا۔ سب اسے ایک تنازع کے طور پر تسلیم کرتے اور دو طرفہ بات چیت کے ذریعے اس کا حل تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں۔ بھارت بزعم خود جتنا بھی طاقت ور اور مستحکم ہو جائے، وہ دروازے بند کر کے اپنی دھونس نہیں منوا سکتا۔ اگر سوویت یونین کی فوجیں افغانستان سے واپس جانے پر مجبور ہوئیں، امریکہ اور نیٹو افواج کو بھی بوریا بستر باندھنا پڑ رہا ہے، تو بھارتی فوج کب تک کشمیر میں قیام کر سکے گی؟... میرے ایک آں جہانی پنجابی اخبار نویس دوست راجندر سرین کہا کرتے تھے کہ (ان کی والدہ کے بقول) اچار میں کیڑے باہر سے نہیں پڑتے۔ وہ اپنے کیڑے خود پیدا کرتا ہے۔ بھارتی اچار بھی اس حوالے سے خود کفیل ہے، اس کے اپنے پیدا کردہ کیڑے اسے متعفن کر کے رہیں گے ... پاکستان کچھ کرے یا نہ کرے، بھارت اپنے ساتھ بہت کچھ کر گزرے گا... فی الوقت تو پاکستان کے داخلی مسائل توجہ طلب ہیں۔ معیشت کی زبوں حالی، سیاست کی ابتری، اور اداروں کی بے اعتباری ہمیں ہلکان کر رہی ہے اور ہلکا بھی۔ ہم اپنے دستور پر خود عمل کر کے نہیں دکھا پا رہے تو دوسروں کو سبز باغ کس طرح اور کب تک دکھا پائیں گے؟ ہمارے اچار میں بھی کیڑے پڑتے اور بڑھتے جا رہے ہیں۔
ادریس بختیار مرحوم
ادریس بختیار کا شمار پاکستان کے با وقار، با کردار اور با اعتبار اخبار نویسوں میں ہوتا تھا۔ چند روز پہلے اُن کے دِل نے دھڑکنا چھوڑ دیا، اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس جہانِ رنگ و بو کو اُداس چھوڑ کر وہاں چلے گئے جہاں جانا ہم سب کو ہے لیکن وہاں سے واپس نہیں آنا۔ انہوں نے 74 برس کی عمر پائی، آخر دم تک سرگرم رہے۔ کئی بین الاقوامی اور قومی اداروں میں کام کیا، اور جہاں بھی گئے اپنا مقام اپنی محنت سے بنایا۔ حیدر آباد سے کراچی پہنچے، قومی اور بین الاقوامی منظر پر اپنا نقش جمایا۔ کارکن اخبار نویسوں کے لیے وہ دیانت اور ذہانت کی مثال تھے، ایک حسین امتزاج... پاکستانی میڈیا میں ان جیسے بہت کم ہیں، وہ جو رخصت ہوئے ہیں، تو اس کی ویرانی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سے تبادلۂ خیال کرنا بجائے خود ایک نعمت اور لذت تھا۔ پاکستانی میڈیا جس معاشی افتاد کی زد میں ہے، اس کے اثرات ادریس بختیار پر بھی پڑے، اس صدمے نے انہیں متاثر کیا، نتیجتاً پوری قومی صحافت کو صدمہ اٹھانا پڑا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے، ان کے بچوں اور ان کے رفقا کو ان سا ذوق، جستجو اور لگن بخش دے۔ (آمین)
نوٹ: گزشتہ کالم میں بنگال سے منتخب ہونے والے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ سومترا خان کا ذکر مسلمان کے طور پر ہوا تھا۔ برادرم افتخار گیلانی نے اطلاع دی ہے کہ نام سے دھوکہ نہ کھائیں، یہ دلت ہیں اور کئی دلت بھی خان کہلاتے ہیں۔ قارئین تصحیح فرما لیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)