انسانی سماج کا ارتقاایک سمت‘ ایک رفتار اور ایک ہی طرز کا نہیں ہوا کرتا۔ بعض اوقات دہائیاں بیت جاتی ہیں اور کوئی بڑی بغاوت تحریک یا معاشرے کو جھنجوڑ دینے والا بڑا واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ لیکن پھر ایسے مرحلے آتے ہیں جب ہفتوں دنوں اور گھنٹوں میں نہ صرف دھماکہ خیز واقعات جنم لے رہے ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کی تمام پرتوں میں ایک اضطراب ایک ہلچل اور سالوں سے چھائی ہوئی بے چینی پھٹ کر معاشرے میں ایک طغیانی سی برپا کردیتی ہے۔ معمول کے حالات میں حکمرانوں کے رائج کردہ رواج‘ اقدار‘ اخلاقیات‘ رویے اور رجعتی سوچیں حاوی ہوتی ہیں۔ ایسے ''معمول کے ادوار‘‘ عموماً طویل ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ'' ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اور ایسے ہی رہے گا۔‘‘۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج کا معاشرہ اور اقدار ماضی کے سماجوں سے کہیں زیادہ مختلف اور متضاد نوعیت کے بن گئے ہیں۔ آنے والے معاشروں میں اس سے کہیں بڑی اور موجودہ مہم میں سمجھ نہ آنے والی تبدیلیوں اور شکلوں کی طرز پر استوار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معمول کے حالات میں عام انسان ان سے کہیں زیادہ بڑھ کر سیاست ودانش کے ناخداایک قدامت پرست سوچ کا شکار ہو کر شعوری پستگی میں گھر جاتے ہیں۔ ایسے اوقات اور ادوار میں سماج پر جو سیاسی ‘ ریاستی ‘ سماجی ‘ ثقافتی اور تہذیبی راہنما اجاگر اور مسلط ہوتے ہیں ان کی سوچیں تنگ نظر ‘ ذہانت واجبی اور صلاحیتیں محدود ہوتی ہیں۔ ان میں احساس اور انسانیت کے جذبے بڑے بھونڈے اور مفاد پرستانہ بن جاتے ہیں۔ سماج میں ایسے جمود اس نظام کی تنزلی اور شکست کی غمازی کررہے ہوتے ہیںجو سماجی ترقی اور بہتر ی کرنے میں ناکام ونامراد ہوچکا ہو۔ حکمرانوں کی جاہلیت ان کو اس ذہنی سوچ میں مبتلا کردیتی ہے کہ ان کی حاکمیت لازوال ہے بس طاقتوروںاور دولت کے دھنوانوں کی کاسہ لسی جاری رکھی جائے تو سب کچھ ٹھیک ہی ہوگا۔ لیکن تاریخ بھی بڑی ظالم ہے۔ نہ صرف ان کو کسی اچانک صدمے سے دوچار کردیتی ہے بلکہ پھر ایسے مکافات عمل کے ذریعے ان کے ظلم وجبر کا انتقام بھی لیتی ہے۔
آج ملک میں مہنگائی کاشور مچا ہوا ہے اس پہ حکمرانوں اور میڈیا کا جتنا پُر فریب شور ہے‘ زیادہ تر عوام میں بظاہر اتنی ہی خاموشی ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے بقول عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں (اور نکلیں گی)۔ لیکن یہ چیخیں طاقت کے ایوانوں میں سنائی نہیں دیا کرتیں۔ اس نظام کی فکر و دانش کے نزدیک عوام کا کام استحصال سہنا اور اس ذلت و بربادی کو نسل در نسل برداشت کرتے رہنا ہے۔ چاہے چیخ و پکار کر لیں یا خاموشی سے سہہ لیں۔ ملک میں جس شدت سے طبقاتی، صنفی اور قومی دبائو بڑھ رہا ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عوام پر اِس استحصالی معیشت اور بارود دونوں کی یلغار جاری ہے۔حالت یہ ہے کہ غریبوں کا لہو مسلسل چوس کر اور ان کی محنت کو درد ناک مشقت بنا کر بھی مطلوبہ مال حاصل نہیں ہو پا رہا۔
ہر آنے والے دن میں دبائو کے نئے ضابطے جاری ہو رہے ہیں۔ جس بے دردی سے عوام کو مالی مسائل کا شکار کیا جا رہا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ان سے کوئی پرانا انتقام لے رہی ہے۔ یا پھر اِس حکومت کی آڑ میں انتقام لیا جا رہا ہے؟ بنیادی انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جو تھوڑا بہت بنا تھا اس کو بھی ٹوٹنے پھوٹنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ دھوکہ اور فریب حاوی اقدار بن چکی ہیں۔ جھوٹ اور بدمعاشی ترقی کے زینوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی نظام سماج کو ترقی دینے کی بجائے تنزلی کا باعث بننے لگے تو اس پر صرف وہی حکمران مسلط ہو سکتے ہیں جن کو جھوٹ اور فریب میں مہارت حاصل ہو۔ ایسے بحرانی ادوار میں ہر قسم کی اخلاقی قدروں سے عاری ہونا اقتدار کا بنیادی تقاضا بن جاتا ہے۔ احساس ان صاحب اقتدار لوگوں کے ذہن و ضمیر سے غائب ہو جاتا تھا۔ بڑھک بازی اور تضحیک کا شور مچا کے عوام کی آوازوں کو دبانا سب سے بڑی فنکاری بن جاتی ہے۔ میر انیس نے کہا تھا کہ '' ظرف جو خالی ہے صد ا دیتا ہے‘‘ اُس دور کے معیاروں سے دیکھا جائے تو کم ظرفی بڑی گالی ہوا کرتی تھی۔ آج یہ حکمرانوں کے افکار، کردار اور فطرت کی اساس ہے۔
جب بھی حکمرانوں کا اپنے نظام پر اختیار کمزور ہونے لگے‘ وہ زیادہ وحشی ہو جاتے ہیں۔ جنگوں کی طرح ایسے سماجی بحرانوں کا پہلا شکار بھی سچ ہی ہوتا ہے۔ ایسے ادوار میں پھر سچ کو دبانا، چھپانا یا کچلنا ہی اقتدار کا ضامن ہوتا ہے۔
آج کے ٹاک شو بنیادی طور پہ وزارتوں کے آڈیشن بن گئے ہیں۔ میڈیا اس قدر مطیع ہو چکا ہے کہ پروگراموں کی گویا پوری ریہرسل ہوتی ہے۔ ان پروگراموں میں ہلڑ مچا کے، الزامات لگا کے، جھوٹ اور بد زبانی کو نئے روپ دے کے یہ لوگ اپنی 'سی ویز‘ تیار کرتے ہیں۔ جن کے بل بوتے پر ان کو ترقیاں اور حکومتوں میں اعلیٰ عہدے ملتے ہیں۔ ان بحثوں کا حقائق، معلومات، نقطہ ہائے نظر، ذہانت یا منطق سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
لیکن پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مصنوعی رعونت اور تکبر سے بھرے لوگ جتنے سفاک ہوتے ہیں‘ اس سے زیادہ بز دل بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق درمیانے طبقے کی بالائی پرتوں سے ہوتا ہے‘ اس لئے زیادہ لالچی اور زیادہ طاقت کے پجاری ہیں۔ لیون ٹراٹسکی کے بقول ''یہ طبقہ صرف ایک خدا کو مانتا ہے‘ وہ ہے طاقت‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقات اور سرکاری اشرافیہ کے یہ سیاسی و میڈیائی نمائندے تابع داری اور کاسہ لیسی کی حد کر دیتے ہیں۔ ویسے تو طاقت والوں کے نمائندوں کا یہ کردار دنیا کے ہر سرمایہ دارانہ ملک میں پایا جاتا ہے لیکن اِس خطے میں یہ معاملہ زیادہ بھونڈا اور سفاک ہے۔
یہاں '' ہارس ٹریڈنگ‘‘ کی بہت باتیں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن اگر غور کریں تو ہارس ریسنگ زیادہ حاوی ہے۔ سامراجی قوتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ سرکاری طاقت کے سر چشموں کے کارندے بھی ایسے گھوڑوں پر دائو لگاتے ہیں جو ان کے مفادات کے لیے ہر ذلت آمیز حرکت کر جانے میں باقی سب کو پیچھے چھوڑ جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں! کرائے کے ان سیاسی گوریلوں کا نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے نہ ضمیر۔ جہاں بہتر دام ملیں‘ بک جاتے ہیں۔ ویسے بھی جب دولت، جس کی اکثریت کالے دھن پر مبنی ہو، سیاست اور معاشرت میں اتنی گہری اور بھاری سرایت کر جائے تو نظریات اور اصولوں سے انحراف زیادہ معنی نہیں رکھتا۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کے وزرا زیادہ تر ان پارٹیوں سے آئے ہیں جو آج اپوزیشن میں ہیں۔ اصل وزراتیں سامراجیوں اور یہاں کی مقتدر قوتوں نے اپنے پرانے اور آزمودہ ایجنٹوں (ٹیکنوکریٹس) کی سلیکشن سے پُر کی ہوئی ہیں۔ ایسے سیٹ اپ میں عوام کے مسائل کی آواز اٹھانا تو کجا بنیادی انسانی احساس سے بھی یہ بھاڑے کے کارندے عاری ہیں۔
پہلے تو اس ملک میں دولت کے بغیر انتخابات لڑنا ہی نا ممکن ہے۔ جیتنا تو دور کی بات ہے۔ یہ سودا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ اتنی بھاری رقم کسی جائز طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے سرکاری طاقت اور دولت والوں کے زور پر منتخب ہو کر ''عوامی نمائندے‘‘ بننے والوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ اپنے آقائوں کے مفادات سے ہٹ کے کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسے میں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ یا ''سویلین سپرمیسی‘‘ کے نعرے محض یوٹوپیائی خواب بن کے رہ جاتے ہیں۔
اگر غلطی سے عوام کا کوئی حقیقی نمائندہ ان ایوانوں میں پہنچ بھی جائے تو پہلے اس کو خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر وہ بکنے سے انکار کر دے اور اپنے قدموں پر قائم رہے تو اس پر معاشی و سماجی دبائو ڈلوایا جاتا ہے۔ پھر بھی ڈٹا رہے تو اسے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کام کے لئے چند ٹکوں کے عوض غداری اور ملک دشمنی کے فتوے لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
یہ سیاست ایک مخصوص معاشی نظام پر قائم ہے۔ اس کے اندر سے اس نظام کے خلاف انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اطاعت سے انکار کرنے والے عوام کی طاقت کے بل بوتے پر انکار کے فرمان بلند کر کے اس ساری پُر فریب اور بد عنوان سیاست کو چیرتے ہوئے ابھر آتے ہیں۔
لیکن اس ملک کے کروڑوں محنت کش عوام نے ذلت اور بربادی کے نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے تو انہیں اپنی سیاست بیدار کرنا ہو گی۔ اپنی تحریکیں برپا کرنا ہوں گی۔ اپنی پارٹی تعمیر کرنا ہو گی جو اِس نظام کی ہر قدر‘ ہر معیار کو مسترد کرتی ہو۔
عوام کی خاموشی خود ایک تنبیہ ہوتی ہے۔ حکمران طبقات کے لئے بھی اور انقلابیوں کے لئے بھی‘ کہ ایسا وقت آنے والا ہے جب یہ عام لوگ خود نہیں چیخیں گے بلکہ حکمرانوں کی چیخیں نکلوا دیں گے۔