اٹھائیسویں پارے کے مضامین
سورۃ المجادلہ
اس سورت کا پسِ منظر یہ ہے کہ صحابیہ خولہؓ بنت ثعلبہ کے ساتھ ان کے شوہر اوسؓ بن صامت نے ظِہار کرلیا تھا۔ ظِہارکے ذریعے زمانۂ جاہلیت میں بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی تھی۔ خولہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: پہلے میں جوان تھی‘ حسین تھی اب میری عمر ڈھل چکی ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ‘ انہیں شوہر کے پاس چھوڑتی ہوں تو ہلاک ہوجائیں گے اور میرے پاس کفالت کے لئے مال نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ خاموش رہے‘ کیونکہ ابھی ظِہار کا حکم نہیں آیا تھا۔ خولہؓ رسول اللہﷺسے بحث و تکرار کرنے لگیں کہ میرے مسئلے کا حل کیا ہے اور اللہ سے فریاد کرنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدائی آیات میں بیان فرمایا: ''(اے رسول!)اللہ نے اس عورت کی بات سن لی‘ جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں بحث کررہی تھی اور اللہ سے شکایت کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا ‘ بے شک اللہ بہت سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘ چنانچہ خولہؓ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے نزول کا سبب بنیں۔ ایک بار حضرت عمر فاروقؓ سواری پر آرہے تھے کہ خولہ نے انہیں روک لیااور باتیں کرنے لگیں۔ کسی نے کہا: امیر المومنین اس بڑھیا کی خاطر آپ اتنی دیر سے رکے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں زمین پر اس کی بات کیوں نہ سنوں‘ جس کی فریاد کو اللہ نے آسمانوں پر سن لیا۔ اس کے بعد اسلام میں ظِہار کا حکم نازل ہواکہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہارکرلیں اور پھر رجوع کرنا چاہیں تو ان کا کفارہ بیوی سے قربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے اس کی استطاعت نہ ہو‘اُس کے لئے دو مہینے کے لگا تار روزے رکھنا ہے اور جو یہ نہ کرسکے تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔ ظِہار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے :''تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے‘‘یا بیوی کے کسی عضو کو اپنی ماں کے عضو سے تشبیہ دے‘ تو اس سے ظِہار ہوجاتاہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صرف اتنا کہے کہ تو میری ماں ہے یا بہن ہے تو اگر چہ یہ قولِ ناپسندیدہ ہے ‘ مگر اس سے کوئی چیز لازم نہیں آتی‘ یعنی اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی ۔ آیت9سے معصیت پر مبنی سرگوشیوں سے منع کیا گیا ہے اور آیت 10میں آدابِ مجلس بیان کئے گئے اور آخری آیت میں فرمایا کہ مومنِ صادق اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی نہیں کرسکتا ‘ خواہ وہ اس کے ماں باپ یا اولاد یا بہن بھائی یا خاندان کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں ۔
سورۃ الحشر
اس سورت کی آیت9 میں ایک واقعے کے پسِ منظر میں بیان ہوا کہ اہلِ ایمان خود حاجت مندہونے کے باوجود ایثار وقربانی کا پیکر بن کر دوسروں کی حاجات پوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آیت10میں السابقون الاولون مہاجرین وانصار صحابۂ کرامؓ کا مدح کے انداز میں ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ بعد میں آنے والے اپنے سابق اہلِ ایمان بھائیوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور یہ آیت ایصالِ ثواب کی اصل ہے ۔ آیت 21میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی جلالت وہیبت کو بیان فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے اور (اسے عقل وشعور کی نعمت عطا کرتے تو ) تو اے انسان! تو دیکھتا کہ وہ پہاڑ (قرآن کی ہیبت سے)جھکا ہوا ہوتااور اللہ کے خوف سے پاش پاش ہوجاتا۔ اس سورت کی آخری آیات وہ ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے متعدد اسمائے صفات کو یکجا بیان کیا گیا ہے کہ صرف وہی مستحق عبادت ہے ‘ ہر ظاہر وباطن کا جاننے والا ہے‘ الرحمن الرحیم ہے اور پھر مزید صفات بیان ہوئیں: الملک(بادشاہ) ‘ القدوس (نہایت پاک)‘ السلام(ہر نقص اور کمزوری سے محفوظ)‘ المومن(امان عطا کرنے والا)‘ المہیمن (نگہبان)‘ العزیز (نہایت غالب)‘ الجبار(نہایت عظمت والا)‘ المتکبر(کبریائی والا)‘سبحان (نہایت بے عیب) الخالق ‘الباری (ایجاد فرمانے والا)‘ المصور (صورت بنانے والا)‘ الحکیم (بڑی حکمت والا)اور فرمایا کہ تمام اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔
سورۃ الممتحنۃ
اس سورت میں اہلِ ایمان کو دشمنانِ خدا اور دشمنانِ اسلام کی دوستی سے منع کیا گیا ہے؛ البتہ یہ فرمایا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا تو ان سے نیکی کرنے اور انصاف کرنے سے اللہ نہیں روکتا‘ لیکن جنہوں نے دین کے معاملے میں مسلمانوں سے قتال کیا اور انہیں جِلاوطن کیا یا اس سلسلے میں مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کی تو اللہ ان کی دوستی سے منع فرماتا ہے اور فرماتاہے کہ ان سے دوستی کرنے والے ظالم ہیں۔ آیت :11میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو فرمایا کہ اگر مومنات صحابیات آپ سے ایک طے شدہ دستور اور منشور پر بیعت کرنا چاہیں تو ان کی بیعت قبول کیجئے اور ان کے لئے اللہ سے استغفار کیجئے ‘ وہ منشور یہ ہے کہ : وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی ‘ چوری نہیں کریں گی‘ زنا نہیں کریں گی‘ (افلاس کے خوف سے) اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے ‘ بے اصل بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی بھی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔
سورۃ الصف
اس سورت کے شروع میں قول وفعل کے تضاد سے منع کیا گیا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ناراض ہوتا ‘ جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو پسند فرماتاہے ‘ جو اس کی راہ میں صف بستہ قتال کرتے ہیں‘ جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ آیت 8میں فرمایا کہ دشمنان دین چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے(پھونکیں مار کر) بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے‘ خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ آیت 9میں بتایا کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لئے بھیجا ہے کہ اسے تمام باطل ادیان پر غالب کرے ‘ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
سورۃ الجمعۃ
اس سورت کے شروع میں بعثتِ رسول کے مقاصد کو بیان کیا گیا‘ یعنی تلاوتِ آیاتِ الٰہی‘ تزکیۂ باطن اور کتاب وحکمت کی تعلیم۔ اس کے بعد یہود کا ذکر ہوا اور انہیں دعوت دی گئی کہ اگر تمہارا دعویٰ سچاہے کہ تمام لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ہو تو ‘اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو ‘ کیوں کہ مُحب اپنے محبوب سے جلد از جلد ملنا چاہتاہے اور پھر قرآن نے پیش گوئی کی کہ اپنے ناروا کرتوتوں کے سبب یہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس سورت کے دوسرے رکوع میں نماز جمعہ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا کہ جب نماز جمعہ کے لئے ندا دی جائے تو سب کام کاج چھوڑ کر نماز کے لئے دوڑے چلے آؤ اور جب نماز ادا کرچکو تو وسائل رزق کو تلاش کرو۔ حدیث پاک میں فرمایا کہ جو شخص سستی کی بنا پر تین جمعے چھوڑ دے‘ تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔
سورۃ المنافقون
اس سورت کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو فرمایا کہ مال اور اولاد (کی محبت) تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور فرمایا کہ ہم نے تمہیں جو مال عطا کیا ہے ‘ موت سر پر آنے سے پہلے اسے دین کی راہ میں خرچ کرو ‘ ورنہ فرشتۂ اجل کو دیکھ کر ہر ایک کہے گا کہ مجھے تھوڑی سی مہلتِ حیات مل جائے کہ میں صدقہ کروں اور نیکو کاروں میں سے ہوجاؤں ۔
سورۃ التغابن
آیت :11میں اہلِ ایمان کو فرمایا کہ ''تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں ‘ سو ان سے ہوشیار رہو ‘‘‘ یعنی بعض اوقات اہل وعیال کی محبت کے غلبے اور ان کی جائز وناجائز فرمائشوں اور خواہشات کی تکمیل کیلئے انسان دین سے دور ہوجاتاہے ۔
سورۃ الطلاق
اس سورت کے شروع میں فرمایا کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو ‘ ان کی عدت کا وقت (شروع ہونے سے پہلے طُہر میں) انہیں طلاق دو۔ یعنی طلاق کے بعد عدت کا حساب رکھنا اور پورا کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں مختلف احوال کی مناسبت سے عدت کے احکام بیان کئے گئے ہیں ‘ جو یہ ہیں : (1)جس عورت کو ماہواری آتی ہو ‘ اس کی عدت اس کے تین دورانیے ہیں اورطلاق پاکی کے اس دورانیے میں دینی چاہئے کہ جس میں شوہر نے عورت سے قربت نہ کی ہو۔ (2)جس عورت کو ماہواری نہ آتی ہو ‘ اس کی عدت تین مہینے ہے ‘ قرآن میں ایسی عورت کو ''اٰ ئسہ‘‘کہا گیا ہے (3)حاملہ عورت کو طلاق دے دی جائے ‘ تو بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی عدت ختم ہوجاتی ہے ‘ خواہ مدت کم ہو یازیادہ (4)وہ عورت جس سے نکاح ہوا ہو ‘ لیکن رخصتی عمل میں نہ آئی ہو اور خَلوت(Privacy) بھی نہ ہوئی ہو‘ تواس پر کوئی عدت نہیں ہے‘ طلاق دیتے ہی وہ نکاح سے خارج ہوجائے گی اور اپنی آزادانہ مرضی سے کسی کے ساتھ بھی نکاح کرنے کے لئے آزاد ہوگی ۔ (5)جس عورت کا شوہر وفات پا گیا ہو ‘ اس کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے ‘ عدت وفات ہر صورت میں لازم ہوگی ‘ خواہ رخصتی عمل میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔ حاملہ عورت کا شوہر وفات پاگیا ہو ‘ توا س کے حق میں حاملہ والی عدت بھی موثر ہے ‘ خواہ اس کا دورانیہ عدت وفات سے کم ہویا زیادہ۔ قرآن نے یہ بھی فرمایا کہ طلاقِ رجعی کی صورت میں عدت کی تکمیل سے پہلے بھلائی کے ساتھ یعنی نیک ارادے سے رجوع کر لو یا دستور کے مطابق‘ جدا کردو اور رجوع کی صورت میں دو گواہ مقرر کر لو‘ یہ حکم ایجابی (Compulsory)نہیں ہے‘ استحبابی (Appreciadle) ہے۔ قرآن نے یہ بھی حکم دیا کہ مطلقہ عورتوں کو عدت کے دوران اپنی حیثیت کے مطابق نان نفقہ دو اور انہیں تنگ نہ کرو اور اگر وہ حاملہ ہیں تو وضعِ حمل (Delivery) تک ان کو نان نفقہ دو اور اگر وہ وضعِ حمل کے بعد بچے کی پرورش کرنے اور دودھ پلانے پر آمادہ ہوں تو انہیں اجرت بھی دو اور یہ تمام مصارف صاحبِ حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق ‘ادا کرے اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق کرے۔
سورۃ التحریم
اس سورت کے شروع میں بیان ہوا کہ رسول اللہﷺ نے بعض وجوہ سے شہد نہ کھانے کی قسم فرما لی تھی ۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دیں ۔ ازواجِ رسول کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نبی نے تمہیں طلاق دے دی‘ تو عنقریب ان کا رب ان کو تمہارے بدلے میں تم سے بہتر بیویاں دے دے گا ‘ جو فرمانبردار ‘ ایمان دار‘اطاعت گزار ‘ توبہ کرنے والیاں ‘ عبادت گزار ‘ روزے دار ‘ شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ اس کی نوبت نہیں آئی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ازواجِ مطہرات طیبات امہات المو منین رضی اللہ عنہما نے اللہ کے رسول کو دل وجان سے راضی رکھا۔